چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

کراچی آپریشن کے کپتان سید قائم علی شاہ کا بیان پڑھ کر حیرت نہیں صدمہ ہوا۔ ایک وفاق پرست جماعت کے غالباً تیسری بار وزیر اعلیٰ بننے والے لیڈر کا انداز فکر یہ ہے تو قوم پرست اور نسلی و لسانی بنیادوں پر قائم ہونے والی پارٹیوں کی سوچ کیا ہو گی؟
ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کو انہوں نے سندھ پر حملہ قرار دیا‘ اور ایف آئی اے کو صوبے میں مداخلت کا ذمہ دار۔ یہ بھی کہا کہ ''کیا بدعنوانی صرف سندھ میں ہے۔ کہیں اور نہیں؟‘‘ اور حکم دیا کہ ''ایف آئی اے دو دن میں صوبہ چھوڑ کر چلی جائے‘‘۔ آدمی سمجھنے سے قاصر ہے کہ جہاندیدہ اور عمر رسیدہ شاہ جی اس حد تک تنگ نظر اور صوبائیت پرست ہو سکتے ہیں۔ کیا مجرموں کے خلاف کارروائی ان کے کرتوتوں کی بنا پر ہوئی یا ڈومیسائل دیکھ کر؟ کیا سندھ سے تعلق رکھنے والے کسی مجرم کے خلاف اس وقت تک کارروائی ممکن نہیں‘ جب تک کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والا کوئی مجرم قانون کی گرفت میں نہ آئے؟ اگر کوئی مجرم نہ ملے تو بے گناہ ہی سہی تاکہ کسی صوبے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو؟
ویسے کون کہتا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی۔ لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق اپنے ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ میں مار دیے گئے۔ کیا سندھ میں آج تک اتنی بڑی کارروائی کسی ہائی پروفائل کے خلاف ہوئی۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا تعلق پنجاب سے ہے‘ دونوں سابق وزیر اعظم ہیں اور قاسم ضیا؟ فرق صرف یہ ہے کہ پنجاب میں تعصب، تنگ نظری اور ہر معاملے کو سیاسی اور صوبائیت کی عینک سے دیکھنے کا رواج کم ہے۔ اس کے باوجود پنجاب ہی سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہاں جن لوگوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے، کالعدم تنظیموں کو من مانی کا موقع دیا اور مالیاتی دہشت گردی میں ملوث رہے انہیں بھی شمالی وزیرستان، کراچی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مجرموں کی طرح کیفر کردار تک پہنچایا جائے لیکن یہ مطالبہ کوئی معقول شخص نہیں کر سکتا کہ صرف سکور برابر کرنے کیلئے یہاں بھی پکڑ دھکڑ کا بازار گرم کر دیا جائے۔
ڈی جی رینجرز پنجاب سید برہان علی شاہ نے گزشتہ روز یقین دلایا کہ پنجاب میں بھی جلد بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ڈالنا چاہیے۔ پنجاب میں فرشتے بستے ہیں‘ نہ یہاں کسی کو دائمی استثنیٰ حاصل ہے۔ جرم جہاں اور جس سے سرزد ہو، اس کی سزا ملنی چاہیے۔ نام و نسب، شکل و صورت اور ڈومیسائل دیکھے بغیر ملنی چاہیے۔ مگر ایم کیو ایم کی طرح پیپلز پارٹی بھی جرم اور سیاسی عصبیت کو ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک ایسی فضا پیدا کر رہی ہے کہ آئندہ کسی غریب، بے آسرا اور کمزور کے سوا کسی مجرم کو کبھی سزا مل ہی نہ سکے۔
بلاشبہ پنجاب میں سانحہ ماڈل ٹائون اور ایئر مارشل اصغر خان کیس میں ملوث سیاستدانوں اور سول و خاکی بیوروکریٹس سے اب تک کسی نے باز پرس نہیں کی۔ مختلف اضلاع میں تشکیل پانے والے مجرموں کے گینگ محفوظ ہیں اور سیاسی شخصیات سے ان کے روابط کسی سے مخفی نہیں مگر سیاستدانوں نے مل کر جو نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا‘ اس میں صرف ان جرائم کو قابل گرفت قرار دیا گیا‘ جو دہشت گردی، عسکریت پسندی وغیرہ سے منسلک ہیں۔ رینجرز، ایف سی اور فوج کیلئے فی الفور کارروائی کا دائرہ وسیع کرنا اور مختلف محاذوں پر الجھنا مشکل ہے، ناممکن اگرچہ نہیں، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
حالات کا جبر فوج، رینجرز، نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو پنجاب میں کارروائی پر مجبورکر دے گا مگر ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی جتنی بڑی کھیپ کراچی میں تیار ہوئی اور عرصہ دراز سے برسر پیکار ہے وہ شاید پنجاب میں دستیاب نہ ہو کیونکہ یہاں جرم ہوتا ہے اور مجرموں کی سرپرستی کا رواج بھی ہے‘ مگر اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے نہیں جو سندھ، بلوچستان اور بعض دوسرے علاقوں کا طرہ امتیاز ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے خیبر پختونخوا میں سرگرم عمل ہیں اور صوبائی حکومت کی تشکیل کردہ نیب نے بھی وزیروں، ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کا گھیرا تنگ کیا۔ مگر ابھی تک تحریک انصاف اور اے این پی نے اسے صوبے پر حملہ قرار دیا ہے‘ نہ وفاقی حکومت اور اداروں کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ تو کیا امن، سکون اور دہشت گردی، جرم سے پاک ماحول کراچی و سندھ کے عوام کا حق نہیں؟ اگر ہے تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی پریشانی کا سبب کیا ہے؟
قارئین کو شاید علم نہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین پیپلز پارٹی میں کبھی شامل ہوئے نہ کسی سطح پر پارٹی کے لئے خدمات انجام دیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے علاج معالجے کے عوض حکومتی مراعات کے مستحق قرار پائے۔ یہ ہمارا سیاسی کلچر ہے۔ پیپلز پارٹی ہی نہیں مسلم لیگ (ن) میں بھی کئی ایسے افراد موجود ہیں‘ جنہوں نے پارٹی لیڈر کی ذاتی خدمت‘ علاج معالجے یا وکالت کے عوض سرکاری مناصب حاصل کئے۔ پچھلے تیس سال کے دوران کئی نامور وکلا کو مفت مقدمات لڑنے کے عوض پی پی اور مسلم لیگ حکومت میں وزیر قانون کا منصب سونپا گیا۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ۔ جس نے وزیر بننا قبول نہ کیا انہیں سینیٹر بنا دیا گیا۔ نام کیا لینا، نامور اور معتبر لوگ ہیں... ؎
داور حشر! میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ 
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 
جرائم پیشہ عناصر کو اپنی صفوں سے نکالنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ اپنی ذاتی کمزوریوں اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر قبضہ گروپوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز، منشیات فروشوں، سمگلرز، اغوا کاروں، لٹیروں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے چھٹکارا پانا موجودہ سیاسی قیادت کے بس میں نہیں، عزم مصمم اور نیت درست ہو تو یہ مشکل کام نہیں مگر عرصہ دراز سے ہماری سیاسی قیادت ان اوصاف کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ قیادت اس قابل ہوتی تو سیاسی جماعتوں میں مافیاز کیوں وجود میں آتے؟ شوگر مافیا، قبضہ مافیا، واٹر مافیا وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر ریاستی اداروں نے یہ کام سنبھالا ہے اور سیاسی جماعتوں کو جُرم سے پاک کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے تو اس پر خوش ہونے کے بجائے لیڈران کرام واویلا کر رہے ہیں جیسے لوٹ مار، قتل و غارت گری اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنا بھی سیاستدانوں کا استحقاق، جمہوریت کا حسن اور سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے اگر کوئی جرم نہیں کیا تو وہ اور اُن کے قائدین مطمئن رہیں‘ ایک نہ ایک روز انہیں کلین چٹ مل جائے گی لیکن اگر رینجرز کے الزامات درست ہیں تو پیپلز پارٹی کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کشتی کا بوجھ کم ہوا۔ پیپلز پارٹی کا عام کارکن نہ صرف ان گرفتاریوں سے خوش ہے بلکہ مزید گرفتاریوں کی دعا کر رہا ہے کیونکہ 2008ء سے 2013ء کے دوران اعلیٰ عہدوں پر قابض جن لیڈروں نے بے تدبیری، لوٹ مار، اقربا پروری اور دوست نوازی سے ایک وفاقی پارٹی کو صوبائی و علاقائی پارٹی میں تبدیل کیا، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانیوں پر پانی پھیرا اور کرپشن پیپلز پارٹی کا لاحقہ، سابقہ بن گئی؛ چنانچہ پیپلز پارٹی کو کوئی احتجاجی پروگرام تشکیل دینے سے قبل کارکنوں کے جذبات معلوم کر لینے چاہئیں کہ وہ اُن لیڈروں کے خلاف احتجاج کے موڈ میں ہیں یا جشن آزادی منانے کی سوچ رہے ہیں۔ 
مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات خراب ہیں، فوج اندرون ملک دہشت گردی اور بین الاقوامی سازشوں سے نبرد آزما ہے اور مشرقی و مغربی سرحد پر بھارت و افغان شرارتوں کا توڑ کرنے میں مصروف، ان حالات میں سیاستدان جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی اور وفاقی اداروں سے محاذ آرائی کر کے فوج کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مل کر فوج، رینجرز، ایف آئی اے اور نیب کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔ سندھ پر حملہ کا بیان دے کر آپریشن کے کپتان نے کس کی خدمت کی؟ کیا چند افراد کراچی کے عوام اور امن سے زیادہ عزیز ہیں؟ اس بیانیے سے ایم کیو ایم کو کیا فائدہ ہوا کہ اب پیپلز پارٹی کے اندرون ملک قائدین بھی میدان میں کود پڑے۔ ؎
حذر اے چیرہ دستاں‘ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں