پاکستان، کشمیری اور مودی کا موڈ

ستمبر کا آغاز ہوتے ہی پاکستانی قوم 1965ء کے اُن دنوں کو یاد کرنے لگتی ہے جب عوام اور فوج نے مل کر اپنے وطن کا دفاع کیا اور جمخانہ کلب لاہور میں شراب کے جام لنڈھا کر جشن فتح منانے کے خواہش مند بھارتی جرنیلوں کو خاک چاٹنی پڑی۔ 
دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی ریاست کسی فوجی کارروائی کے طے شدہ اہداف حاصل نہ کر سکے تو یہ شکست اور ناکامی قرار پائے گی اور اپنے دفاع میں کامیاب ہونے والی ریاست اور فوج کامیابی و کامرانی کا ڈنکا بجانے میں حق بجانب۔ پاک فوج نے بے سروسامانی کے عالم میں نہ صرف بھارتی فوج کو اپنی سرحدوں سے پیچھے دھکیلا بلکہ چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی تاریخی لڑائی میں بھارت کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ اسی بنا پر بعض منصف مزاج بھارتی جرنیل آج بھی نہ صرف پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں بلکہ اپنے جرنیلوں کی ناقص منصوبہ بندی، مایوس کن کارگزاری اور غیر پیشہ ورانہ طرز عمل پر معترض بھی۔ پوری دنیا نے اس موقع پر مسلم ممالک کے اتحاد اور اسلامیان عالم کی یکجہتی کا نظارہ کیا۔ 
بھارت نے 1965ء کی جنگ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کو ختم کرنے، کشمیری عوام کے وکیل اور تنازعہ کشمیر کے ایک اہم کردار پاکستان کو سبق سکھانے اور معرکہ رن کچھ میں اپنی بدترین ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے چھیڑی مگر ان میں سے کوئی مقصد بھی حاصل ہوا‘ نہ کشمیری عوام کے حوصلے پست۔ آج بھی کشمیری عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے اور پاکستانی پرچم سری نگر کے اجتماعات میں پوری آب و تاب سے لہراتے ہیں۔ کشمیری عوام کی پاکستان سے عقیدت بھری محبت میں کمی آئی ہے نہ بھارتی فوج کی ظالمانہ انتقامی کارروائیوں نے ریاستی دہشت گردی کے شکار مرد و زن کے حوصلے پست کئے ہیں ؎
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
ماضی میں تو جو ہوا سو ہوا۔ کشمیریوں کی نوجوان نسل کے بارے میں مغربی اور مقامی ذرائع ابلاغ مسلسل یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ وہ پاکستان سے لاتعلق اور پاکستانی پالیسیوں سے ناراض ہے مگر چند روز پیشتر مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنے والے درجن بھر صحافیوں کی باتیں سن کر یہ تاثر سو فیصد غلط اور زمینی حقائق کے منافی لگا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے سید شجاعت بخاری کی سربراہی میں لاہور آنے والے وفد کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا تھا جو عشائیے تک جاری رہا۔ 
وفد کے ایک رکن طارق میر نے فخریہ انداز میں بتایا کہ میں نے صرف پاکستان آنے کے شوق میں بھارتی پاسپورٹ بنوایا جو اسلامیانِ برصغیر کے سیاسی قبلہ پاکستان سے میری محبت اور عقیدت اور یہاں کے لوگوں سے ملنے کی تڑپ کا ثبوت ہے۔ طارق میر نے کہا کہ وفد کے ایک رکن راشد مقبول کی دس دن قبل شادی ہوئی اور عاشق پیرزادہ کی چند دن بعد ہونے والی ہے مگر دونوں یہاں بیٹھے ہیں جس سے پاکستان دیکھنے کی شدید خواہش کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ 
شجاعت بخاری نے دورۂ مظفرآباد کے تاثرات بیان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت کا موازنہ کیا اور کہا کہ قیام پاکستان سے قبل مظفرآباد جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے کالا پانی تھا، دور دراز اور سہولتوں سے محروم جبکہ سری نگر ہزاروں سال پرانا شہر ہے مگر آج مظفر آباد دیکھ کر ہر کشمیری کے دل سے پاکستان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔ روزنامہ دنیا کے کالم نگار اور نئی دہلی میں کئی مقامی اور عالمی اخبارات و جرائد سے وابستہ صحافی افتخار گیلانی نے گلہ کیا کہ، جو دانشور پاکستان سے نئی دہلی آتے ہیں پاکستان پر اُن کے اعتماد کی سطح پست اور قومی موقف سے وابستگی کمزور ہوتی ہے اور انہیں مل کر کشمیری صحافیوں اور دانشوروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان آ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک اس قدر کمزور اور معاشرہ اتنا زیادہ ہزیمت خوردہ نہیں جتنا یہ نام نہاد دانشور ظاہر کرتے ہیں۔ 
افتخار گیلانی نے کہا کہ پاک بھارت کرکٹ میچ کشمیریوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ بھارتی انٹیلی جنس اہلکار سونگھتے پھرتے ہیں کہ کشمیریوں کا ردعمل کیا ہے؟ وہ بھارت کی جیت پر خوش ہوتے ہیں یا ہار پر؟ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ کشمیریوں کا فطری ردعمل بھارتی حکومت، فوج، پولیس اور دیگر اداروں کو کس قدر ناگوار گزرتا ہے اور وہ جواباً کیا کچھ کرتے ہیں۔ میر سید علی ہمدانیؒ اور اقبالؒ سے کشمیریوں کی عقیدت کا ذکر ہر صحافی نے کیا اور مزار اقبالؒ پر ان کی حاضری کا منظر دیدنی تھا، جیسے جذبات کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہوں۔ 
خاتون صحافی شاہانہ بشیر نے مظفرآباد لاہور اور سرینگر میں کچھ الگ محسوس نہیں کیا، وہی اپنائیت اور خوش اخلاقی جو کشمیریوں اور مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہے یہاں دیکھنے کو اور برتنے کو ملی۔ وہ حیران تھیں کہ بھارتی میڈیا پاکستانیوں کے بارے میں اس قدر غلط بیانی سے کام کیوں لیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نئی دہلی میں ہر کشمیری دس سال رہ کر بھی اجنبی لگتا ہے جبکہ پاکستان میں دس روز کے بعد یوں لگتا ہے جیسے ہم یہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ 
کشمیری صحافیوں کے والہانہ جذبات نے کئی حاضرین کو آبدیدہ کیا، خاص طور پر جب ہر صحافی اپیل کرتا کہ خدا کے لئے پاکستان کو اقبالؒ کے تصورات کا پاکستان بناؤ جو برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے پناہ گاہ ہو، اس قدر مضبوط اور محفوظ قلعہ کہ کوئی اس کی طرف میلی نگاہ سے نہ دیکھ سکے۔ یہ صحافی اس وقت لاہور آئے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 1965ء کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور 1971ء کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرح پاکستان کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں۔ شاستری اور اندرا گاندھی کا جانشین صرف جنگ کی دھمکیاں نہیں دے رہا بلکہ اس نے ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر گولہ باری شروع کر دی ہے اور امریکہ، چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں پاکستان مخالف سفارتی مہم چلا رہا ہے جبکہ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے، ماضی کا حساب برابر کرنے اور نیشنل ایکشن پلان کو ناکام بنا کر اپنے مفادات کو محفوظ بنانے میں مصروف ہیں۔ 
گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے خلاف جو اعلان جنگ کیا‘ وہ دراصل نام نہاد میثاق جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والے این آر او کی یقین دہانی تھی کہ قومی مفاد جائے بھاڑ میں ہم نے جس طرح پانچ سال تک آپ کو کچھ نہیں کہا آپ بھی اگلے ڈھائی سال تک ہماری ماضی اور حال کی بُری حکمرانی، بدعنوانی اور ہمارے چیلوں چانٹوں کی بے تحاشہ لوٹ مار کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں۔ مفاہمتی سیاست یہی تھی، مگر ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد ملکی حالات نے جو پلٹا کھایا ہے اس میں مفاہمتی سیاست کی گنجائش کم نظر آتی ہے جس کا احساس کسی نہ کسی سطح پر میاں صاحب کو تو شاید ہے زرداری صاحب کو نہیں ورنہ وہ شور و غوغا نہ کرتے۔ 
احتساب کا کوڑا پنجاب میں کب اور کس پر برستا ہے پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ؟ جن لوگوں نے گاجریں کھائی ہیں ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے۔ پنجاب کے لٹیرے اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مگر ہم کشمیریوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں جو آج بھی پاکستان سے اُمیدیں وابستہ کئے بھارت کی فوج، بارڈر ملٹری فورس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ظلم کا پامردی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کا پرچم لہراتے، زندہ باد کے نعرے لگاتے اور ہر لاٹھی، گولی پر لا اِلہٰ الااللہ کا ورد کرتے ہیں۔ 
جنگ ستمبر (1965ء) کے حوالے سے تقریبات کے لئے تجاویز مرتب کرنے کی غرض سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ملک بھر سے مدیرانِ جرائد اور اے پی این ایس اور پی بی اے کے نمائندوں کو اسلام آباد میں اکٹھا کیا تو دونوں وزرا نے کھل کر بھارتی عزائم کی نشاندہی کی اور پوری قوم کو متحد کرنے کے لئے میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی جو قابل ستائش اور خوش آئند بات ہے۔ مگر بھارت کی تیاریاں اب صرف سترہ روزہ جنگ کی نہیں وہ اپنے طور پر آخری اور حتمی معرکے کی تیاری کر رہا ہے۔ فوج کے بارے میں تو قوم یکسو ہے کہ وہ تیار ہے مگر ہماری سیاسی قیادت؟ اس حوالے سے تحفظات قوم کو ہیں اور کشمیری صحافیوں کو بھی تھے جو اوفا ڈیکلریشن پر دل گرفتہ تھے اور سیاسی انتشار پر پریشان... ؎
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں