سابق صدر آصف علی زرداری کی تازہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اگر چوکڑی نہیں بھی بھولی تو کم از کم جاندار جوابی ردعمل دینے میں ناکام رہی۔ عمران خان کے خلاف قینچی کی طرح چلنے اور فوج کو حیلوں بہانوں سے زخم لگانے والی زبانیں گنگ ہو گئیں ؎
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں
نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
زرداری کا موقف اصولی ہے نہ طرز عمل سیاسی و جمہوری۔ آپریشن ضرب عضب کے وہ‘ بقول خویش‘ دل و جان سے قائل ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی انہوں نے دیگر سیاسی قوتوںکے ساتھ مل کر منظوری دی‘ جس میں دہشت گردوں کی مالیاتی ترسیل روکنے کی شق شامل ہے‘ مگر کراچی میں نسلی و لسانی دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر ہاتھ پڑا تو وہ چیخ اٹھے۔ پہلے فوج، رینجرز اور سکیورٹی فورسز کو آڑے ہاتھوں لیا، اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی، بات نہ بنی تو میاں نواز شریف کی طرف رخ کیا اور اس حد تک کامیاب رہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری ٹل گئی اور گیلانی صاحب کی مقدمات میں ضمانت بھی ہو گئی۔
مقدمات، گرفتاریاں اور جیلیں سیاستدانوں کیلئے نئی بات ہیں‘ نہ بدنامی کا باعث۔ برصغیر کی سیاست انہی کے گرد گھومتی ہے مگر کرپشن، بے ضابطگی، قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کا ناجائز استعمال؟ یہ فقط پاکستان کے سیاستدانوں کو زیبا ہے اور حصول اقتدار میں مددگار‘ ورنہ جاپان میں تو یہ الزام لگنے پر سیاستدان منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ وزیر اعظم، وزیر اور اعلیٰ سرکاری عہدے دار خودکشی کر لیتے ہیں۔ اپنے اہل و عیال، خویش و اقارب، دوست‘ احباب اور رفقا کے علاوہ معاشرے کا سامنا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ ضمیر کی خلش انہیں مزید زندہ رہنے سے باز رکھتی ہے۔
پاکستان میں مگر کرپشن، بے ضابطگی اور قومی خزانے کی لوٹ مار عیب ہے نہ جرم۔ قانون کی کتابوں میں کچھ بھی لکھا ہو مگر سیاست کی کتاب میں یہ اہل اقتدار و اختیار کا بنیادی حق ہے اور اسے چیلنج کرنے والا جمہوریت دشمن و اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار۔ آصف علی زرداری نے اپنے یار غار اور رفیق کار ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر یہ نہیں کہا کہ وہ بے قصور ہے یا علی حسن، ممتاز زرداری‘ منظور کاکا اور ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے قومی خزانہ نہیں لوٹا‘ بلکہ جواب آں غزل یہ آیا کہ اصغر خان کیس کے کردار، ماڈل ٹائون سانحہ کے ذمہ دار اور بری شہرت کے حامل بعض وزیر اب تک قانون کی گرفت میں کیوں نہیں آئے‘ نیب اور ایف آئی اے نے ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
زرداری صاحب کے اس بیان کے بعد اسلام آباد میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری کے گھر سے سونے کے صندوق برآمد ہوئے، رئیسانی صاحب کچھ عجب نہیں یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر دیں کہ سونا تو سونا ہوتا ہے، چوری کا ہو یا حق حلال کی کمائی سے خریدا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہیں وزیر مشیر کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوں، قریبی ساتھی اور رشتہ دار کے گھر سے ایمبولینس‘ جنہیں کرائے پر چلایا جا رہا تھا یا تہہ خانے میں اربوں روپے کے کرنسی نوٹ نذر آتش ہو جائیں تو فقہ زرداری کے مطابق ریاست کو کسی سے پوچھنے کا حق ہے یا نہیں؟
ہسپتال سرکاری ہوں یا نجی‘ دوا اور شفا کیلئے ہوتے ہیں‘ جن ڈاکٹروں پر قصاب اور نجی ہسپتالوں پر ذبیحہ خانے کی پھبتی کسی جاتی ہے‘ وہ فیس اور اخراجات کی مد میں تو سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مریضوں کے لواحقین کو شکایات بھی پیدا ہوتی ہے‘ مگر کراچی کے ایک ہسپتال میں تعینات فریدالدین نامی اہم انتظامی عہدیدار نے جو انکشافات کیے ہیں‘ انہیں سن کر تقرر و ترقی کے ذمہ دار حکمرانوں اور ان کے گماشتہ سرکاری اہلکاروں کو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ موصوف نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے مخالفین کو زہر کے ٹیکے لگاتا اور نرسوں کے علاوہ خواتین ڈاکٹروں کو بہلا پھسلا، بلیک میل کرکے اور ترقی کا لالچ دے کر جنسی ہوس کا نشانہ بناتا۔ زہریلے انجکشنوں سے موت کا گھاٹ اترنے والے مریضوں کی تعداد درجنوں میں نہیں سینکڑوں میں ہے۔
ہے کوئی جو الطاف حسین اور آصف زرداری سے پوچھ سکے کہ فریدالدین کی گرفتاری سیاسی انتقام ہے اور یہ شخص این آر او مارکہ جمہوریت اور مفاہمتی سیاست کے تحت رو رعایت کا مستحق ہے؟ یا اسے سرعام پھانسی کے پھندے پر جھولنے اور چیلوں کووں کی خوراک بننے کا موقع دیا جائے۔ ہسپتال کا رخ لوگ زندگی کی چند سانسیں بڑھانے کیلئے کرتے ہیں‘ بچی کھچی سانسوں سے محروم ہونے کیلئے نہیں، مگر فریدالدین نے یہ کر دکھایا۔ معلوم نہیں کہ مزید کتنے بدبخت اپنے سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنے کے لیے کراچی کے نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں درندگی اور سنگدلی کا یہ کھیل کھیلنے میں مصروف ہوں گے۔ جہاں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو بیماری کا سرٹیفکیٹ عطا کرنے اور بھتے و اغوا برائے تاوان کی رقم بیرون ملک بھیجنے والوں کو اپنا وفادار کارکن اور جمہوریت کا نگہبان قرار دینے والے سیاستدان موجود ہوں‘ وہاں کسی فریدالدین سے کون پوچھ سکتا ہے۔
گزشتہ روز میں مختلف ٹی وی چینلزپر وزرا، ارکان اسمبلی اور بڑھ چڑھ کر بولنے کے شوقین مسلم لیگی عہدیداروں کی باتیں سنتا رہا۔ کوئی زرداری کی دھمکی پر اظہار خیال کا روادار نہ تھا۔ آئیں بائیں شائیں کرنے والوں کو گلہ یہ تھا کہ سیاستدانوں کو تو ہتھکڑیاں لگتی ہیں، انہیں کرپشن اور دیگر اخلاقی جرائم پر جیلوں میں بھیجا جاتا ہے مگر کسی کرپٹ جج اور جرنیل سے یہ سلوک نہیں ہوتا۔ اگر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاستدان یا صحافی کہے تو بات بنتی ہے‘ مگر جب حکمران ٹولہ بے بسی کا اظہار کرے تو آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ سرکار! آپ پھر کس مرض کی دوا ہیں۔ احتساب اور مواخذہ آپ نے کرنا ہے، قانون کے رکھوالے آپ اور سارے قومی و ریاستی ادارے آپ کے قبضہ قدرت میں ہیں‘ اور جنرل (ر) پرویز مشرف کا آپ آرٹیکل 6 کے تحت مواخذہ کرنا چاہتے ہیں مگر جب کسی قومی لٹیرے اور چور کی باری آتی ہے تو حیلوں بہانوں کی آڑ لیتے ہیں۔ کیا اقتدار محض لوٹ مار، دوست نوازی، اقربا پروری اور سیر سپاٹوں کیلئے ملا۔ بالفرض‘ اگر یہ منطق قبول کر لی جائے تو پھر چھوٹے چوروں، ڈاکوئوں اور راہزنوں، جیب کتروں کاکیا قصور ہے؟ کہ وہ جیلوں میں پڑے سڑتے رہیں‘ انہیں بھی قومی سطح پر این آر او ملنا چاہیے۔
پنجاب کے استثنیٰ کا دعویٰ کوئی نہیں کرتا۔ یہاں سندھ اور بلوچستان طرز کی بُری حکمرانی تو نہیں، میاں شہباز شریف کا مقابلہ سید قائم علی شاہ اور اسلم رئیسانی سے نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ یوحنا آباد اور سانحہ قصور حکومت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں اور گدھوں، کتوں اور دیگر جانوروں کے گوشت کی فروخت کے علاوہ قبضہ گروپوں، اغوا کاروں کی موجودگی لمحہ فکریہ۔ اس بنا پر یہاں بھی آپریشن کی ضرورت ہے؛ تاہم ترجیحات کا تعین آپریشن کرنے والوں نے کرنا ہے اور یقینا کرنا چاہیے؛ تاہم اس بنا پر آپریشن رکنا چاہیے نہ اس کی رفتار کم کی جائے کہ یہ زرداری صاحب کو پسند نہیں یا الطاف بھائی مخالف ہیں۔
اگر آرمی چیف اور میاں نواز شریف مہربانی کریں، ٹیرر فنانسنگ کا جرم بھی فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں لے آئیں تو روز روز کی کل کل ختم اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں سے جان چھوٹے گی۔ میگا کرپشن بھی دہشت گردی سے کم سنگین جرم نہیں جس نے غربت، بے روزگاری، جہالت اور پسماندگی کو فروغ دیا اور سیاست و جرم میں فرق کرنا مشکل بنا دیا۔ فی الحال مگر زرداری صاحب کی دھمکی کارگر نظر آتی ہے، مسلم لیگی حکومت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔ اس کے سارے میزائل صرف عمران خان کے خلاف چلتے ہیں۔ نشانے پر لگیں نہ لگیں چلتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ کو مک مکا کی سیاست سے جان چھڑانے اور این آر او مارکہ مفاہمت کا داغ مٹانے کا بہترین موقع ملا ہے مگر شاید وہ فائدہ اٹھانے کے موڈ میں نہیں۔ 1999ء کی طرح میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کا مشورہ ایک بار پھر رائیگاں جائے گا کیا؟