تری آواز مکّے اور مدینے

پاکستان واقعی بدل رہا ہے، الفاظ چبانے‘ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹیں سجانے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور صاف گوئی کا زمانہ لوٹ رہا ہے۔ گزشتہ روز یوم شہدا کے موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقریر سن کر کم از کم مجھے تو ایسا لگا۔ 
''کشمیر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ لہٰذا وقت آ پہنچا ہے کہ مسئلہ کشمیر‘ کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہو‘‘ ۔مجھے یاد نہیں کہ ہمارے کسی سربراہ مملکت اور قائداعظم کے سیاسی وارث نے گزشتہ بیس سال کے دوران کشمیر میں پاکستان کا پرچم لہرانے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والوں کی دلجوئی ان الفاظ میں کی ہو۔ کاش جنرل صاحب کا تقریر نویس پاکستان کی شہ رگ کے الفاظ ڈال دیتا تو یہ قائد اعظمؒ کے الفاظ کی تکرار ہوتی۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہمارے سیاستدانوں میں سے آخری حکمران تھے جو کشمیریوں کا حوصلہ بڑھاتے اور کشمیر پر پاکستان کا موقف صحیح تناظر میں پیش کرتے رہیع
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
گزشتہ دو دہائیوں میں ہم نے امریکی حکمرانوں اور بھارت کی آبادی‘ رقبے اور کلچر سے متاثر دانشوروں کا آموختہ ہی دہرایا۔ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘ پہلے تجارت پھر سیاسی تنازعات کا حل اور مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر اعتماد سازی کے اقدامات ع
تہذیب کے آزرنے ترشوائے صنم اور
امریکی و بھارتی دانشوروں اورفارن فنڈڈ این جی اوز نے مسلسل‘ ذہنی تطہیر(برین واشنگ) کا عمل جاری رکھا اور ہمارے سیاستدانوں کے علاوہ واہگہ کی بین الاقوامی سرحد کو محض انگریز کی طرف سے کھینچی گئی لکیر سمجھنے والے مرعوب قلمکاروں نے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سارا زور بھارت کو خوش کرنے پر لگا دیا۔ اس پالیسی کے تحت بھارتی شردھالو ‘ ٹماٹر اور آلو دھڑا دھڑ پاکستان آنے لگے جس سے ہمارا قومی مزاج اور ذائقہ دونوں بگڑے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ بھٹو کی بیٹی ہونے کے ناطے اور کچھ فوج کی مخصوص سوچ کے خوف سے عدم توازن کا شکار نہ ہوئیں اگرچہ غیر سرکاری وفود کے تبادلے اور خالصتان تحریک سے لاتعلقی اور کشمیری لیڈر شپ سے بے اعتنائی کا آغاز اسی دور میں ہوا‘ جس کے عوض وہ کراچی میں بھارتی عدم مداخلت کی توقع کرتی تھیںجو بہرحال خام خیالی تھی۔ مگر بحیثیت مجموعی وہ اپنے والد اور پاکستان کی قومی پالیسی کا دفاع کرتی رہیں ۔انہی کے دور میں نوابزادہ نصراللہ خان نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر اندرون و بیرون اجاگر کیا اور او آئی سی کا ایک رابطہ گروپ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ بہت سے قارئین شائد اس بات سے لاعلم ہوں کہ سردار فاروق احمد خان لغاری کی نگرانی میں ایک کشمیر سیل ایوان صدر میں قائم ہوا جس کے اجلاسوں میں وزیر اعظم باقاعدگی سے شریک ہوتیں۔
میاں نواز شریف کشمیری نژاد سیاستدان اور صدر مسلم لیگ کے طور پر قائد اعظم کے سیاسی وارث ہیں مگر انہوں نے اپنے اردگرد ایسے مشیر جمع کر لیے جو انہیں صبح و شام یہ باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے‘ مسئلہ کشمیر پس پشت ڈالنے اور دونوں ممالک میں تجارتی و اقتصادی روابط میں اضافہ کرنے سے ملک میں فوج کی بالادستی کا خاتمہ ممکن ہے اور بلا شرکت غیرے اقتدار و اختیار کے مزے لوٹنا آسان۔
ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیری نژاد سیاستدان آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر یہ کہے کہ مسئلہ کشمیر کو اتنا نقصان بھارت نے نہیں پہنچایا جتنا ہماری فوجی قیادت نے اور لاہور میں فرمائے کہ پاکستان اور بھارتی عوام کا کھانا‘ پینا‘ رہنا‘ سہنا اور انداز فکر مشترک ہے اور ہم ایک ہی ربّ کے ماننے والے ہیں۔گائو ماتا کے پجاریوں اور گوشت خوروں میں قدر مشترک کا ادراک قائد اعظمؒ نہ کر سکے۔
پرویز مشرف کے دور میں تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا ذکر متروک ٹھہرا اور تجارت کا بھوت اس قدر زیادہ سوار ہوا کہ باسی گوشت‘ گلے سڑے آلوئوں اور بد ذائقہ ٹماٹروں کا ڈھیر لگ گیا۔ مسئلہ کشمیر آئوٹ آف بکس حل کرنے کے شوق میں فوجی حکمران دیرینہ اور مبنی برانصاف موقف سے دستبردار ہو گیا مگر بھارت تاریخوں پر تاریخیں ڈال کر انہیں ٹرخاتا رہا۔ کبھی مذاکرات شروع ہو جاتے اور کبھی معطل۔ بالآخر عدلیہ تحریک کا بہانہ بنا کر بھارت نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف آج تک درپردہ مذاکرات کی کامیابی اور مسئلہ کشمیر کے حل تک پہنچنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں مگر سرتاج عزیز اور خورشید محمود قصوری میں سے کسی نے قوم کے سامنے وہ ڈرافٹ پیش نہیں کیا جس پر دونوں حکومتیں متفق تھیں ع
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
آصف علی زرداری کا ذکر عبث ہے جس نے کہا ‘ہر پاکستانی کے دل میں بھارت بستا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے ہماری موجودہ سیاسی قیادت کشمیریوں کی تحریک مزاحمت سے کماحقہ ‘واقف ہے نہ پاکستانی موقف اور مذاکرات کی تاریخ سے آگاہ اورنہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی اصطلاح سے شناسا ‘ورنہ نریندر مودی کے عہد اقتدار میں بھارت سے مذاکرات ‘تجارت اور خوشگوار مراسم کی خوش فہمی کوئی نہ پالتا۔
موجودہ فوجی قیادت کو یہ احساس ہے کہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور وقت گزاری کے لیے مذاکرات کا ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے تاکہ دنیا مطمئن رہے کہ ایٹمی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں اور اندرون ملک تجارت و صنعت کا پہیہ چلتا رہے ۔وہ پاکستان کو دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ثقافتی یلغار کے ذریعے کمزور سے کمزور تر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سونیا گاندھی ریکارڈ پر ہیں کہ ہم ثقافتی یلغار کے ذریعے پاکستان کو زیرنگیں اور محکوم ریاست بنائیں گے۔ مودی اور اس کے مشیر اجیت دودل کے عزائم واضح اور دو ٹوک ہیں‘جو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اندرونی خلفشار اور عدم استحکام اسے پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت کی جھولی میں ڈال دیگا۔ مذاکرات کی ضرورت ہی کیا ہے۔
اوفا کے اعلامیہ میں میاں نواز شریف نے اسی طرح کی کمزوری دکھائی جس طرح وہ اعلان لاہور میں دکھا گئے تھے۔ اگر بھارت مذاکرات کو خود ہی سبوتاژ نہ کرتا تو سرتاج عزیز کو پچھلے ماہ نئی دہلی جا کر مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا‘ جب صرف ممبئی حملوں پر بات ہوتی اور مشیر خارجہ سے حافظ سعید‘ ذکی الرحمن لکھوی اوردائود ابراہیم کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاتا۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ آرمی چیف نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر چھیڑ کر صرف بھارت اور عالمی برادری کو واضح پیغام نہیں دیا بلکہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر مذاکرات اور تجارت کے لیے بے تاب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی یاد کرایا کہ خطے کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے‘ مصنوعی مسکراہٹوں اور تحائف کے تبادلے سے نہیں۔
جنرل راحیل شریف کے خطاب پر کشمیری قیادت کی خوشی دیدنی ہے‘ کشمیری لیڈروں کو طویل عرصہ بعد یہ بات سننے کو ملی ہے اور اوفا اعلامیہ کا تکد ّر دور ہو گیا ہے۔ کا ش اس صاف گوئی کی توفیق سیاسی لیڈر شپ کو ہوتی۔جنگ کا خواہاں کوئی نہیں۔ کشمیری قائدین برملا کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچا کر آزادی چاہتے ہیں نہ خود مختاری ‘مگر جنگ کے خطرے کو ٹالنا محض پاکستان یا کشمیری عوام کی ذمہ داری نہیں۔ پاکستان میں جنگی جنون نظر آتا ہے نہ 2013ء کے الیکشن میں بھارت کوئی انتخابی ایشو تھا۔ ہندو دشمنی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر بھارت میں پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت ہر سطح پر نظر آتی ہے ۔بی جے پی اور آر ایس ایس تو خیر ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں ‘سیکولرازم کا علمبردار لبرل بھارتی میڈیا اس سے بھی دو قدم آگے ہے اور پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی دھمکیاں برملا دی جا رہی ہیں۔ وہاں کوئی رل مل روٹی کھائیے کی بات کرتا ہے نہ واہگہ کی بین الاقوامی سرحد کا تقدس برقرار رکھنے کی تلقین۔
جب پاکستان میں لال قلعہ پر پرچم لہرانے کی بات ہوا کرتی تھی تو یہاں بعض لوگوں کا غم و غصہ دیکھنے کے قابل تھا‘ آجکل پورے بھارت میں پاکستان کو سبق سکھانے اور مٹانے کے نعرے لگ رہے ہیں تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی دہشت گردوں اور را کے ایجنٹوں کے خلاف جنگ جوں جوں کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہے ہمارے ہاں بھارت کے قصیدہ خوانوں اور خوشامدانہ تعلقات و یکطرفہ تجارت کے خواہش مندوں کے چہروں پر بارہ بجنے لگے ہیں ۔ پاکستان واقعی بدل رہا ہے۔ ہر سطح پر مسئلہ کشمیر اٹھانے اور بھارت کو کھری کھری سنانے کا وقت آ گیا ہے ؎
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفسِ سوختہء شام و سحر تازہ کریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں