تقریر

کسی کو اچھا لگے یا برا‘ میاں نواز شریف کا جنرل اسمبلی میں خطاب پاکستانی اور کشمیری عوام کو خوش کر گیا۔ طویل عرصہ بعد کسی پاکستانی وزیر اعظم نے وہ بات کہی جو عوام سننا چاہتے تھے۔ میاں نواز شریف دو سال قبل جنرل اسمبلی میں یہی انداز گفتگو اپناتے تو کشمیری قیادت کو مایوسی ہوتی نہ سیاسی مخالفین کو باتیں بنانے کا موقع ملتا۔ تب میاں صاحب کے سر میں بھارت سے تجارت کا سودا سمایا تھا۔
بھارت کو کرکٹ ڈپلومیسی‘ تجارت‘ اعتماد سازی کے اقدامات اور پس پردہ سفارت کاری سے رام کرنے کی کوششوں کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ امریکہ سے آنے والا ہر قاصد ہمیں بھارت کی سیاسی عسکری اور معاشی قوت سے ڈراتا اور اچھے تعلقات کے لیے پرانے تنازعات بھلانے کا مشورہ دیتا ۔ امریکی اثر و رسوخ کے علاوہ اندرون ملک مرعوب انداز فکر میں جوں جوں اضافہ ہوتا گیا‘ بھارت کو راضی کرنے اور کشمیریوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے کی سوچ بھی حکمران اشرافیہ پر غالب آتی گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں خواہ اپنے موقف کے علاوہ ایک کروڑ کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے بھی دستبردار کیوں نہ ہونا پڑے۔ جنرل پرویز مشرف بھارت کی سیاسی‘ ثقافتی اور سفارتی یلغار کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔
کشمیر پر سیاست بہت ہوئی صرف پاکستان میں نہیں بھارت میں بھی۔ نریندر مودی نے تو حالیہ الیکشن ہی مسلمانوں اور پاکستان کی نفرت کے علاوہ کشمیر کو واقعتاً بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کے نعرے پر جیتا۔ فرق یہ ہے کہ بھارتی قیادت کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ اور یکسو رہی۔ حکومت کانگریس کی ہو‘ جنتا پارٹی کی یا کسی اتحاد کی‘ اٹوٹ انگ کے نعرے سے کسی نے انحراف نہیں کیا۔ نریندر مودی جذباتی آدمی ہیں‘ مسلمانوں اور کشمیریوں کی نفسیات سے بے خبر اور ہندوتوا کے پجاری‘ فیصلہ سنا دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن جیت کر نہ صرف بھارتی آئین میں درج خصوصی درجہ ختم کریں گے بلکہ جاری حق ارادیت کی تحریک کو بھی کچل دیں گے۔
کشمیری عوام نے نریندر مودی سے یوں انتقام لیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخابی شکست سے دوچار کیا اور جگہ جگہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرا دیئے۔ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز رہنمائوں کو بھی کشمیری عوام کے جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے بی جے پی کے ایجنڈے کی مخالفت کرنا پڑی۔ نہ کرتے تو عمر عبداللہ اور غلام نبی آزادکے انجام سے دوچار ہوتے۔ مفتی سعید زبان سے کچھ کہیں نہ کہیں یہ حقیقت خوب جانتے ہیں کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر کے اہلیان کشمیر کو بھارت سے متنفر اور پاکستان کے مزید قریب کر دیا ہے اور یہاں نریندر مودی کی دال گلنا مشکل ہے۔
مودی اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والا تنگ نظر بھارتی میڈیا خواہ کچھ کہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ در اندازی اور عسکریت پسندی کی آڑ میں بھارت نے عرصہ دراز تک عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور قوم پرست کشمیری جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا‘ مگر سب پر آشکار ہوا کہ یہ جموں و کشمیر پر تسلط برقرار رکھنے اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے معصوم و نہتے کشمیریوں کو بدنام کرنے کے بہانے ہیں۔ اگر بھارت مخلص ہوتا تو عسکریت پسندی کی لو مدہم ہونے کے بعد پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالتا جو کشمیری عوام کی خواہشات کا مظہر ہوتا۔ مگر ہوا کیا؟
کشمیریوں نے پاکستان کی مختلف حکومتوں بالخصوص جنرل پرویز مشرف کی لاتعلقی اور بھارت نواز پالیسیوں سے تنگ آ کر پرامن جدوجہد کو ترجیح دی اور عسکریت پسندوں سے ناتہ توڑا تو بھارتی فوج اور سپیشل فورسز نے نہتے کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کرنے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا آغاز کر دیا۔ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اتنے زیادہ کشمیری شہید ہوئے کہ چند سال پیشتر مفتی سعید نے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کو خط لکھا ''چونکہ نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں اور اس میں مبینہ طور پر سپیشل آپریشن گروپ (SOG) کے اہلکار ملوث ہیں لہٰذا میرا مطالبہ ہے کہ میری اور محبوبہ مفتی کی سکیورٹی واپس لی جائے‘‘ یہ احتجاج بھی تھا اور خدشے کا اظہار بھی کہ سپیشل آپریشن گروپ مجھے اور محبوبہ مفتی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سپیشل آپریشن گروپ کا طریقہ کار یہ رہا کہ وہ کسی راہ چلتے یا سودا سلف بیچتے کشمیری کو اٹھاتا اور چند روز بعد یہ کہہ کر لاش محلے داروں کے حوالے کر دیتا کہ دراصل یہ لشکر طیبہ کا کارکن تھا‘ جو فرضی نام سے یہاں کریانے کی دکان‘ پان کا کھوکھا چلا رہا تھا۔ ایسے سینکڑوں واقعات کی تصدیق بھارت کی اپنی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کی۔ بھارت سے کشمیریوں کی نفرت کا درست اندازہ لگاتے ہوئے معروف بھارتی دانشور ارون دھتی اور سنگھوی ویر نے کھل کر یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ''اگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو پھر ہم انہیں یہ موقع کیوں نہیں دیتے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ہم اگر واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں تو انہیں زبردستی ساتھ کیسے رکھ سکتے ہیں اگر کشمیری ہمارے ساتھ کوئی رشتہ ناتہ نہیں رکھنا چاہتے تو ہم ان کے ساتھ کیوں تعلق رکھنے پر بضد ہیں یہ سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کا کون سا انداز ہے؟‘‘
صدر پرویز مشرف‘ جناب آصف علی زرداری کے ادوار حکومت کے علاوہ میاں نواز شریف کے ابتدائی دو برسوں میں کشمیری عوام کو جس قدر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا وہ محتاج بیان نہیں مگر چونکہ کشمیری اپنی جنگ پاکستان کے کہنے پر لڑ رہے ہیں نہ پاکستان سے ان کا عشق محض بھارت سے نفرت کی بنا پر ہے؛ چنانچہ وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ ان کے جذب و جنون میں مزید اضافہ ہوا اور اب حالت یہ ہے کہ بھارت کو پاکستانی پرچم لہرانے پر بھی نہتے اور قانون پسند شہریوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرنے پڑتے ہیں۔ سید علی گیلانی‘ یاسین ملک اور دیگر رہنمائوں کو او آئی سی کے رابطہ گروپ اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے کسی کو گرفتار کرنا پڑا اور کسی کا پاسپورٹ منسوخ۔ کشمیریوں کی تیسری نسل مگر میدان میں ڈٹی ہے۔ اس نے بھارتی سیکولرازم کا چہرہ بے نقاب کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے جو آج تک اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرا سکی نہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوجی کارروائیوں کی روک تھام میں کامیاب ہوئی۔
ابتدا میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہی دنیا کو باور کرایا کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف ہماری سنجیدہ کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے اور اندرون ملک دہشت گردی کو فروغ دینے میں مصروف۔ انہوں نے متعدد مواقع پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تذکرہ کیا حتیٰ کہ میاں نواز شریف بھی مفاہمت و تجارت کی یک طرفہ سوچ کو خیرباد کہہ کر وہ باتیں کہنے پر مجبور ہوئے‘ جو عوام سننے کے خواہش مند تھے اور ہمارے قومی وقار کا تقاضا؛ تاہم جنرل اسمبلی میں ایک تقریر سے بھارت کی پالیسی بدل سکتی ہے نہ دنیا اچانک ہماری تائید و حمایت پر کمربستہ ہو گی اور نہ اقوام متحدہ متحرک۔ یہ پتھر پر پانی کے قطرے گرانے کا عمل ہے جو بالآخر شگاف ڈال دیتے ہیں یا پھر چیونٹی کی طرح بار بار دیوار پر چڑھنے اور ہمت نہ ہارنے کی تدبیرع
''توں ڈیوا بال رکھدا جُل‘ ہوا جانے خدا جانے‘‘
سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا بھارتی خواب امریکہ نے چکنا چور کر دیا جو دو سال پہلے تک اس کے حق میں تھا۔ آپریشن ضرب عضب اور جنرل راحیل شریف کی عالمی سطح پر پذیرائی نے ہمارے لیے امکانات کا دروازہ کھولا ہے اور دنیا ہماری بات سننے پر آمادہ ہے بشرطیکہ ہم سلیقے سے اپنی بات سنا اور منوا سکیں۔ تاہم ایک تقریر اگر میاں صاحب کو اس قدر تھکا دے کہ وہ لندن میں آرام فرمانے لگیں اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن قبلہ کو خلوت و جلوت میں کار دیگر ہی سے فرصت نہ ہو تو پھر ہو چکا کشمیر آزاد اور بھارت پسپا۔ کشمیریوں کو ہم کئی بار مایوس کر چکے۔ ایک بار پھر کشمیری عوام کی تیسری‘ چوتھی نسل نے پاکستان سے امیدیں وابستہ کی ہیں اور پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ اللہ کرے! پاکستان اور بھارت کے مابین یہ سفارتی معرکہ آخری اور کامیاب معرکہ ثابت ہو ۔کشمیری دوبارہ مایوس نہ ہوں۔ میاں صاحب کی تقریر نے کشمیریوں کو خوش کیا مگر اندیشہ ہے کسی بھارتی شردھالو کے مشورے پر میاں صاحب ساڑھی ڈپلومیسی اور تجارتی رابطوں کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ جبلت اور مفاد پر قابو پانا مشکل ترین کام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں