لاہور اور اوکاڑہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی شکست ہی نہیں‘ کروڑوں روپے کے انتخابی اخراجات میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے اسباق تو کئی پوشیدہ ہیں مگر وہ سیکھنے کی صلاحیت کہاں سے لائیں اور میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثہ پر غور کرنے کی فرصت بھلا کس کو؟
لاہور میں تحریک انصاف کے امیدوار پر کون سا الزام ہے جو مخالفین نے عائد نہیں کیا۔ بعض اینکرز اور کالم نگار بھی اس مہم میں سرکار کے ہمنوا تھے۔ علیم خان کو اس سے کتنا نقصان پہنچا اور سردار ایاز صادق کی جیت میں یہ پروپیگنڈا کس قدر مددگار ثابت ہوا‘وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر وہ ہارے صرف 2443ووٹوں کے معمولی مارجن سے۔ گویا عوام نے اس پروپیگنڈے پر کان نہیں دھرا یا اپنی سیاسی عصبیت اور مفادات پر غالب نہیں آنے دیا۔
اوکاڑہ میں دونوں بلکہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں بغاوت اور ایک آزاد امیدوار کی حمایت وکامیابی سے یہ واضح ہوا کہ ووٹر اور کارکن خاص حد تک تو اپنی جماعتوں کے ڈسپلن اور قائدین کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں مگر جب انہیں صاف لگ رہا ہو کہ لیڈر شپ من مانی پر اُتر آئی ہے اور اچھے بُرے کی تمیز کیے بغیر محض اپنے غلط فیصلے منوانے پر مُصر ہے تو وہ بھی کسی جماعتی رشتے اور سیاسی ناطے کو خاطر میں لائے بغیر اپنی مرضی کا فیصلہ کرتے اور قیادت کو اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
کل تک ریاض الحق جج کو کوئی ٹکٹ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔2013ء کی طرح خاندانی اور موروثی سیاست کے فروغ میں ہمہ تن مصروف مسلم لیگ (ن) نے اپنے اس دیرینہ ‘ بااثر اور نیک نام کارکن کو وعدوں پر ٹرخانے کی کوشش کی جبکہ اُصولی سیاست کی علمبردار تحریک انصاف نے بھی مقامی قیادت کے جذبات اور مشوروں کی پروا کیے بغیر ایک ایسے شخص کو ٹکٹ تھما دیا جسے پارٹی میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے ۔کارکن اُن سے واقف نہ تحریک انصاف کے ووٹر شناسا۔ اب دونوں جماعتیں ریاض الحق جج کے صدقے واری جا رہی ہیں آزاد رکن کو لبھانے کے جتن کئے جا رہے ہیں۔ہر جماعت انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے بے قرار ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف‘ حمزہ شہباز ریاض الحق جج سے رابطہ میں ہیں۔ایک اطلاع یہ ہے کہ جج صاحب بالآخر واصلِ بہ مسلم لیگ ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ نے ٹکٹ اگرچہ علی عارف چودھری کو دیا مگر شریف خاندان کی تھپکی ریاض الحق کو ملی اور وہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے حامیوں کی دلجوئی کے لیے حلقہ کے عوام سے مشورہ کی بات کر رہے ہیں‘ سیاسی اصطلاح میں گولی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اس دیرینہ کارکن کی گھر کو واپسی ہو گئی تو اسے وزیر مملکت کا منصب مل سکتا ہے جبکہ چودھری محمد سرور نے بھی جج صاحب کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت اور عمران خان نے مبارکباد دی ہے ؎
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں‘ یا ادھر پروانہ آتا ہے
کسی کو احساس نہیں کہ اگر ریاض الحق جج اتنا ہی اہم تھا تو اسے ٹکٹ کا اہل کیوں نہیں سمجھا گیا اور اب جبکہ وہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہو گیا ہے تو اسے ترغیب اور دبائو کے حربوں سے ان جماعتوں میں سے کسی ایک میں شمولیت پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے جن کے مدمقابل وہ کامیاب ہوا۔
ریاض الحق جج برملا کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقامی قیادت ایم پی اے شفقت ربیرہ‘ رائو خالد اور دیگر کی حمایت انہیں حاصل تھی اور کامیابی میں فیصلہ کن ثابت ہوئی‘ اس کے باوجود اگر وہ مسلم لیگ میں واپسی کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ اپنے حامیوں اور ووٹروں سے بے وفائی ہو گی جو سرکاری اُمیدواروں کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے اُن کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور موروثی سیاست کے بخیے ادھیڑ دیے۔
سوال مگر دوسرا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول پر منظم ہوں فیصلوں میں کارکن شریک ہوں اور اُمیدوار کو نامزد کرنے کا معیار ذاتی تعلقات ‘ رشتہ داری‘ دھن دولت‘ لابنگ اور جوڑ توڑ کے علاوہ اہم جماعتی اُمیدواروں کو ساتھ ملا لینے کی اہلیت و صلاحیت کے بجائے محض عوامی خدمت‘ جماعت اور نظریے سے وابستگی اور نیک نامی کے علاوہ حلقے میں فعالیت ہو تو کیا پھر بھی لوگ آزاد اُمیدواروں کو ووٹ دیں اور جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا کڑوا گھونٹ بھریں؟ یہ میاں نواز شریف اور عمران خان کو سوچنا پڑے گا۔ آصف علی زرداری نے سوچنے کی زحمت کبھی گوارا نہ کی‘ پیپلز پارٹی کابولو رام ہو گیا۔ پارٹی اُمیدواروں کی عام اور ضمنی انتخابات میں وہ درگت بنی کہ الامان والحفیظ ع
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
''جو جیتا وہ ہمارا‘‘ کی سیاست نے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی عزت اور وقار کو کم کیا‘ ابن الوقتی اور موقع پرستی کو فروغ ملا۔ کہنے کو برادری ازم‘ اقربا پروری‘ صوبائی‘ علاقائی‘ نسلی و لسانی تعصبات کے فروغ میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے اہم کردار ادا کیا کسی نہ کسی حد یہ درست بھی ہے مگر بعدازاں جمہوریت کے نام پر جو مکروہ کھیل چلتا رہا۔ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے ایک بار نہیں بار بار‘ آزاد اُمیدواروں کے ریوڑ اکٹھے کر کے حکومتیں تشکیل دی گئیں اور ارکان اسمبلی کی بولیاں یوں لگتی رہیں جیسے ککڑی اورخربوزوں کی غلہ منڈی میں۔ ہارس ٹریڈنگ کو معیوب سمجھا گیا نہ ضمیر فروشی کو۔ وفاداری بیچنے والے کو شرم نہ خریدنے والے کو حیا۔ اس طرز عمل نے سیاسی جماعتوں کو الیکٹ ایبلزکا محتاج اور حکومت کے علاوہ ریاستی اداروں کو قدم قدم پر سمجھوتے کا عادی بنا دیا اور اُصول پسندی‘ میرٹ‘ قاعدے قانون کی پابندی مذاق بن کر رہ گئی۔
سفارش‘ کرپشن ‘ اقربا پروری اور قانون شکنی انہی سمجھوتوں کا نتیجہ ہے اور پولیس و پٹوار کی دادا گیری میں اضافہ حکمرانوں اور ان کے چہیتے عوامی نمائندوں کی سرپرستی کے سبب ہوا۔ گزشتہ روز مظفر گڑھ میں سونیا نامی خاتون کو جس پولیس افسر نے خود سوزی پر مجبور کیا وہ کسی نہ کسی طاقتور کا چہیتا ہو گا اور سونیا سے زیادتی کرنے والا پولیس اہلکار بھی۔ جب حکومت خواہ وہ صوبائی ہو یا وفاقی‘ ارکان اسمبلی کی محتاج اور وہ پولیس و پٹواری کے بل بوتے پر اپنے حلقہ انتخاب میں رعب و دبدبہ برقرار رکھنے پر مجبور ہو تو پولیس کلچر کیسے تبدیل ہو سکتا ہے اور پٹواری کمزور کیونکر۔کسی پولیس اہلکار افسر کی معطلی اور تبادلے سے بھلا تھانہ کلچرکیسے تبدیل ہو سکتا ہے؟۔ سفارش اور بدعنوانی کا خاتمہ اور میرٹ پر تقررو تبادلہ اور برخاستگی کے بغیر کوئی افسر اور محکمہ راہ راست پر نہیں آ سکتا مگر یہ کام کرے کون؟
مضبوط سیاسی جماعتیں اور جمہوری مزاج کے مقبول سیاستدان ملک و قوم کا سرمایہ ہیں اورملک کو متحد و مضبوط کرنے میں مددگار مگر جہاں سیاسی جماعتیں الیکٹ ایبلز کی تلاش میں سرگرداں ہوں اورہر قیمت ادا کرنے پر تیار جبکہ مقبول سیاستدانوں کو صرف کامیابی سے غرض خواہ وہ اُصولوں کی قربانی دے کر حاصل ہو یا کارکنوں کے جذبات اور جدوجہد کو تج کر وہاں سیاسی جماعتیں مضبوط کیونکر ہوں گی۔ جماعتی نظم و ضبط کا اہتمام کیسے ہو اور مخلص سیاسی کارکن کس برتے پر ایثار و قربانی کی راہ اپنائیں۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے ۔ عمران خان سے نوجوانوں کی اُمیدیں برقرار ہیں کہ وہ سٹیٹس کو توڑنا چاہتا ہے‘ مگر اوکاڑہ میں ڈھنگ کا امیدوار نامزد نہ کرنے کا فیصلہ؟
یہ محدود مشاورت کا کیا دھرا ہے؟ ناداں دوستوں کی کارستانی یا' ہرکہ درکان نمک رفت نمک شد‘کا شاہکار؟
ریاض الحق جج کے بہرحال پوبارہ ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں اور میاں نواز شریف و عمران خان اُن کے لیے چشم براہ ہیں ع
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ اگر جج صاحب نے مسلم لیگ کا رخ کیا تو اکیلے جائیں گے یا شفقت ربیرہ‘ چودھری اظہر‘ رائو خالد اور دیگر ہزاروں کارکنوں سمیت دھوم دھڑکے سے شامل ہوں گے ریاض الحق اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنوں کو بھی واصل بہ مسلم لیگ‘ کرنے میں کامیاب رہے تو یہ تحریک انصاف کے لیے الیکشن سے بڑی سبکی ہو گی۔ ع
نقصانِ مایہ و شماتت ہمسایہ