انتہا پسند کون؟

بھارت تنگ نظر‘ انتہا پسند اور پاکستان دشمن روز اوّل سے تھا‘ پاگل پن کا شکار اب ہوا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے ملک اور معاشرے کے باطن کو آشکار کیا۔ جس معاشرے میں باپو (مہاتما گاندھی) کو قتل کرنے والے نتھو رام گاڈسے کے شریکِ جرم اور پیرو کار فخر کے ساتھ اپنے جرم کا اقرار کرنے کے باوجود عزت و احترام اور احساس تحفظ کے ساتھ موجود ہوں‘ اس کی انتہا پسندی اور تنگ نظری میں کیا کلام۔
انگریزی میگزین ''ٹائم‘‘ نے فروری 2000ء میں گاندھی کے قاتل نتھو رام گاڈسے کے حقیقی بھائی اور شریکِ جرم گوپال گاڈسے کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں گوپال نے'' باپو‘‘ کی مسلمانوں سے ہمدردی کو منافقت اور ہندوئوں سے بے وفائی قرار دیا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں گوپال گاڈسے نے اپنے اس فعل پر اظہار ندامت سے انکار کیا اور کہا ‘ہم نے جو کیا درست کیا۔گاندھی کی اہنسا پرچار‘ ڈھونگ تھی۔
نوجوان نسل نہیں جانتی مگر حقیقت یہ ہے کہ نتھو رام گاڈسے آر ایس ایس(راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ) کا لائف ممبر تھا اور ہندو مہاسبھا میں سرگرم‘ اس کا اعتراف نتھو رام نے عدالت کے روبرو دیے گئے اپنے بیان میں کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس اور جن سنگھ کی کوکھ سے جنم لیا اور شیو سینا بھی اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ آر ایس ایس اور شیو سینا میں فکری اتحاد کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے‘ دونوں کا مرکز مہاراشٹر ہے اور دونوں ہی ہندوتوا کی علمبردار ہیں۔
نتھو رام گاڈسے نے عدالت کے روبرو ''باپو ‘‘کا اصل قصور یہ بتایا کہ وہ ہندوئوں کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکتا اور تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق پاکستان کے طے شدہ اثاثے واپس کرنے پر زور دیتا تھا۔ ذات پات‘ چھوت چھات کے غیر انسانی مرض میں مبتلا‘ اور جانوروں‘ پرندوں‘ درختوں اور کیڑوں مکوڑوں کے پجاری اس معاشرے میں صرف مسلمان نہیں مسیحی‘ بدھ حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو ہمیشہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنے۔ عبادت گاہوں پر حملے‘ خواتین کی بے حرمتی‘ قتل و غارت گری اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کسی نہ کسی بہانے رکاوٹ کانگریس اور بی جے پی کے ادوار حکومت میں معمول بنے رہے اور مسلمانوں کو ہمیشہ پاکستان چلے جانے کی دھمکیاں ملیں۔
نریندر مودی نے انہی انتہا پسندانہ جذبات کو عام انتخابات میں ابھارا اور مسلمانوں کے علاوہ پاکستان کو سبق سکھانے کے نعرے پر خوب ووٹ سمیٹے۔ ایک ارب آبادی کے سیکولر بھارت کی باگ ڈور ایک ایسے انتہا پسند ہندو رہنما کے ہاتھ میں ہے جس نے آج تک گجرات میں ایک ہزار مسلمانوں کے قتل عام پر کبھی اظہار افسوس نہیں کیا۔ جب خبر رساں ایجنسی رائٹر کے نمائندے نے اصرار کیا تو نریندر مودی کا جواب تھا ''کُتّے کا پلّاگاڑی کے نیچے آ کر کچلا جائے توآپ کو بطور انسان افسوس تو ہوگا‘‘۔
پاکستان میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں میں سے کسی کو یہ جرأت کبھی نہیں ہو ئی کہ فخر تو کجا اعتراف تک کر سکیں۔ بیت اللہ محسود پر الزام لگا تو وہ مُکر گیا‘ جانتا تھا کہ معاشرے کا ردعمل شدید ہو گا مگر نتھو رام کے بھائی کو پچاس برس تک کسی نے شرمندہ کیا نہ اظہار تفاخر سے روکا‘ وہ اپنا کارنامہ میڈیا پر بیان کرتا رہا۔
حالیہ دنوں میں بھارت کے مسلمانوں کے علاوہ پاکستان سے نئی دہلی و ممبئی جانے والے معزز مہمانوں خورشید محمود قصوری‘ شہریار خان‘ فنکاروں غلام علی‘ راحت فتح علی خان‘ فواد خان‘ ماہرہ خان اور کھلاڑیوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ ان لوگوں کے لیے ہرگز باعث تعجب نہیں جو بھارتی سیاستدانوں کی نفسیات‘ مختلف تنظیموں کی تاریخ اور معاشرے کے حقیقی جذبات سے واقف ہیں‘ جو ایشوریا رائے‘ کترینہ کیف‘ کرینہ کپور‘ سلمان خان اور شاہ رخ کو نہیں نریندر مودی‘ لال کشن ایڈوانی‘ جواہر لال نہرو‘ ولبھ بھائی پٹیل کو بھارت کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور قیام پاکستان سے قبل ریلوے سٹیشنوں‘ لاری اڈوں پر ''ہندو پانی‘ مسلم پانی‘‘ کی آوازیں آج تک جن کے کانوں میں گونجتی ہیں۔
بصد سامان رسوائی شہریار خان نے واپسی کی راہ لی ہے مگر بھارتی سرزمین پر انہوں نے یہ یقین دہانی کرانا ضروری سمجھاکہ'' ہم ٹی 20ورلڈ کپ میں حصہ ضرور لیں گے جو بھارتی سرزمین پر کھیلا جائے گا‘‘۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کبھی کھیلنے سے انکار کیا ہے نہ دشمنی اور جنگی جنون کو فروغ دیا ہے۔1985ء سے اب تک کسی انتخابی مہم میں بھارت دشمنی کا پرچار ہوا نہ بھارت سے جنگ کا ایجنڈا لے کر کسی سیاسی و مذہبی جماعت نے ووٹ مانگے۔ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑنے کی بات ضرور کی مگر یہ 1965ء کی جنگ کا ردعمل تھا اور بھارتی عزائم سے اپنی قوم کو آگاہ رکھنے کی قوم پرستانہ پالیسی کا اظہار۔ دوبارہ کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہیں مگر بھارت میں ہر انتخابی مہم پاکستان دشمنی‘ مقبوضہ کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کرنے اور مسلمانوں کو پاکستان واپس بھیجنے کے نعرے پر چلتی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘ اس کے باوجود ہماری حالت یہ ہے ؎
ہم ہیں مشتاق‘ اور وہ بیزار 
یا الٰہی ! یہ ماجرا کیا ہے
2011ء کا کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان‘ بھارت‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہونا قرار پایا۔ یہ آئی سی سی کا فیصلہ تھا اور تمام ممالک کی رضا مندی سے ہوا مگر بھارت نے ایسی تگڑم لڑائی کہ پاکستان کے میچ منسوخ کرا دیے۔ امن و امان کی خرابی کو بہانہ بنایا۔ آج کل بھارت میں صورتحال اس سے بدتر ہے۔ کبڈی ورلڈ کپ منسوخ ہو چکا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور نیوزی لینڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو بھارت بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے خلاف سکھ سراپا احتجاج ہیں‘ فرید آباد میں ایک دلت خاندان بچوں سمیت بے دردی سے قتل کر دیا گیا ‘سدھیندر کلکرنی کے بعد رکن اسمبلی رشید احمد کا منہ کالا کیا گیا اوراہنسا کے پجاریوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے ایسی صورتحال میں پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے مسلمان کھلاڑیوں کو بھلا تحفظ فراہم کون کرے گا۔
پاکستان چاہے تو اپنی بے عزتی کا بدلہ آئی سی سی سے یہ درخواست کر کے چکا سکتا ہے کہ ٹی 20ورلڈ کپ بھارت میں کرانا مناسب نہیں کیونکہ شیو سینا اور آر ایس ایس کا جنون کوئی بھی گل کھلا سکتا ہے ۔ بگ تھری کی مخالفت نہ کرنے پر چھ میچوں کا چکمہ دے کر بھارت نے بی سی سی پی کی قیادت کو رسوا کیا۔ ذکا اشرف کا مطالبہ درست تھا کہ اس حمائت کے بدلے ہم نہ صرف چھ میچوں کی تحریری ضمانت بلکہ مُکرنے کی صورت میں بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی تحریری یقین دہانی بھی حاصل کریں‘ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ شیو سینا ‘ آر ایس ایس کو بی جے پی سے الگ‘ موجودہ جنون اور انتہا پسندی کو محدود اقلیت کا فعل سمجھنا اور فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی میں ''را‘‘ کی ریشہ دوانیوں سے اس کا تعلق نہ جوڑنا حماقت ہو گی۔ کھیل‘ فلم اور موسیقی کے میدان بھی سیاست کی زد میں ہیں اور جس سیکولرزم اور سول سوسائٹی کی مضبوطی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا اُسے کہیںجائے اماں نہیں مل رہی۔ سب واویلا رائیگاں جا رہا ہے۔
ہم اب بھی نہ سمجھے تو کبھی سنبھل نہیں پائیں گے۔ قدرت نے غالباً نوجوان نسل کو بھارتی برہمنوں کی عیّاری اور مکّاری سے واقفیت کا موقع فراہم کیا ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی ہے ؎
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
ہم بھارت میں ٹی 20ورلڈ کپ منسوخ نہ کرا سکے تو یہ توقع فضول ہے کہ وہاں کوئی ہمارے کھلاڑیوں کو کھیلنے دے گا۔ آئی پی ایل سے جس ڈھٹائی سے پاکستانی کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا گیا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے۔کیوں نہ ہم خود کھیلیں نہ کسی اور کو کھیلنے دیں۔ میاں صاحب اوباما کے سامنے نریندر مودی کے بھارت کی اصلیت اجاگر اور شیو سینا‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاقائی و عالمی عزائم عیاں کر سکیں تو عوام خوش‘ ان کا خدا خوش۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں