کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے

فوج کو بطور ادارہ بالآخر یہ یاد دہانی کرانا پڑی کہ ''پائیدار امن اور آپریشن کے طویل المیعاد فوائد کے لیے بہتر طرز حکمرانی از بس ضروری ہے‘‘؟ تو کیا ضرب عضب آپریشن شروع ہونے کے کم و بیش سولہ ماہ بعد بھی ہمارے منتخب سویلین حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ بہتر طرز حکمرانی‘ فاٹا میں اصلاحات ‘ متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور جے آئی ٹیز کی تحقیقات کے بغیر آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے نہ پائیدار امن کی ضمانت مل سکتی ہے۔ 
فریب کاری‘لوٹ کھسوٹ اور ارتکاز اختیارات پر مبنی موجودہ سیاسی‘ انتخابی معاشی اور سماجی ڈھانچہ جس پر جمہوریت کا لیبل لگا کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے اگر بہتر طرز حکمرانی کا قائل ہوتا تو فوج‘ رینجرز اور ایف سی کو بار بار آپریشن کی ضرورت پیش آتی نہ ہر بحران کے موقع پر عوام فوج کی طرف دیکھتے۔ چند روز قبل سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک فیکٹری کی عمارت گر گئی اسٹیٹ انتظامیہ‘ شہری اداروں اور حکومت پنجاب میں سے کسی کے پاس ریسکیو کے لیے ڈھنگ کی مشینری تھی نہ اس سوال کا جواب کہ یہ ناقص عمارت تعمیر کیسے ہوئی اور دراڑیں پڑنے کے باوجود اس پر چوتھی منزل تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی۔ بحریہ ٹائون اور فوج کی طرف سے مشینری پہنچی تو ریسکیو آپریشن شروع ہوااور جاں بحق ہونے والوں کے علاوہ زخمیوں کو نکالنے کے لیے بھی فوجی جوان بروئے کار آئے۔
یہ سب کچھ اس شہر میں ہوا جہاں قدم قدم پر تعمیراتی منصوبے جاری ہیں کہیں فلائی اوور‘ کہیں انڈر پاس کہیں میٹرو بس اورکہیں اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ زیر تعمیر ہے۔ یہ تو خیر حادثہ تھا۔ شرق پور کی ریشماں بی بی لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ کا چکر لگاتے سرعام‘ بیگانے مردوں کے روبرو بچہ جنم دینے پر مجبور ہو گئی اور کسی کو سوچنے کی زحمت نہ ہوئی کہ قومی وسائل پر غریبوں کی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کا بھی حق ہے۔ شہری پینے کا صاف پانی بازار سے خرید کر پینے پر مجبور ہیںاور بچوں کی تعلیم کے لیے نجی اداروں کے محتاج۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ پنجاب میں طرز حکمرانی دوسرے صوبوں سے بہتر ہے اور میاں شہباز شریف کو ایک مستعد حکمران تصور کیا جاتا ہے مگر مستعدی اور چوکسی کے باوجود ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو رہی ہے نہ سکولوں کی اور نہ بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی میں کسی قسم کی کمی کا امکان نظر آتا ہے۔ زیادہ تر وسائل نمائشی منصوبوں کے لیے وقف ہیں۔
سندھ اور کراچی میں تو یوں نظر آتا ہے کہ حکومت نے کچھ بھی درست نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ ایک دن منسوخ ہوتی ہے دوسرے دن بحال کر دی جاتی ہے۔ خیر پور میں بارہ افراد کا قاتل ایک ایم پی اے کے ڈیرے سے پکڑا جاتا ہے اور کراچی کے شہری‘ پولیس و رینجرز کے اہلکار ایک بار پھر ٹارگٹ کلرز کی زد میں ہیں۔ جرائم پیشہ وزیروں میں سے بعض گرفتاری کے خوف سے بیرون ملک براجمان ہیں اور ایک ایک ٹارگٹ کلرز دس دس بارہ افراد کے قتل کا اعتراف کر رہا ہے مگر جے آئی ٹی' بنانے اور کیس فوجی عدالتوں کو بھیجنے کے بجائے سیاسی مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں ۔ نیب یا رینجرز کسی کو گرفتار کرتی ہے تو سرپرست اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ کرپشن کا بازار ماضی کی طرح گرم ہے اور اب قائد اعظم سولر پارک‘ ایل این جی منصوبے‘ نیلم جہلم پراجیکٹ اور نندی پور پلانٹ کی طرف بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔
صدیوں قبل ارسطو نے کہا تھا کہ ''قانون مکڑی کا جالا ہے جس میں ہمیشہ کیڑے مکوڑے ہی پھنستے ہیں درندے اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں‘‘ پاکستان میں اس کی جھلک روزانہ دیکھنے کو ملتی ہے کراچی کے شاہ زیب اور لاہور کے زین کے قاتلوں کو طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر جس طرح تحفظ ‘ملا قانون کی مٹی پلید ہوئی اور کمزور والدین بالآخر صلح صفائی پر مجبور ہوئے وہ ہمارے نظام عدل و انصاف اور طرز حکمرانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے اورلوگوں کو قانون شکنی کی ترغیب دینے میں مددگار۔ مگر کوئی بات کرے تو اسے سسٹم کا دشمن اور غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار قرار دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے جو سول نظام اس قابل بھی نہیں کہ وہ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کا مقابلہ اپنے بل بوتے پر کر سکے۔ زلزلے ‘ سیلاب‘ حادثات سے نمٹ پائے‘‘ہر معاملے میں اسے فوج‘ رینجرز اور ایف سی کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے خارجہ پالیسی اور دفاع کے اہم معاملات میں اس کی اہلیت و صلاحیت پر کون اعتبار و انحصار کر سکتا ہے۔؟ اور یہی بات غالباً آپریشن ضرب عضب میں مصروف فوج کے لیے پریشان کن ہے۔ پاکستان اس وقت بھارت اور امریکہ کے شدید دبائو کا سامنا کر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابیاں اور اپنے دفاع کے لیے پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر امریکی و بھارتی میڈیا کا مرغوب موضوع ہے اور کرپشن ‘ نمود و نمائش اور غلط ترجیحات کی بنا پر قومی وسائل کا ضیاع جاری ہے جس کو ہماری کمزوری سمجھ کر گھیرا تنگ کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ پر دادو تحسین کے ڈونگرے تو بہت برسائے گئے مگر اوبامہ نواز شریف ملاقات کا جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں پہلی بار ایٹمی دہشت گردی کا ذکر ہوا اور حقانی نیٹ ورک کے علاوہ لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔
قوم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایٹمی دہشت گردی سے کیا مراد ہے؟ ایٹمی دہشت گرد کون ہے ؟اور اس کا ہدف کس کی ذات شریف؟ ظاہر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ‘ لشکر طیبہ کالعدم تنظیم ہے اور پاکستان میں اس کو کام کرنے کی اجازت نہیں مگر یہ ماضی میں بھی صرف اور صرف بھارت کے لیے خطرہ رہی ہے اس کے باوجود اوبامہ نواز شریف ملاقات میں اس کا تذکرہ ہوا اور واپسی پر وفاقی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو پابند کیا کہ وہ حافظ سعید کے علاوہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کی سرگرمیوں کو شائع و نشر نہ کریں امریکہ کی طرف سے یہ دبائو قبول کرنا ہماری مجبوری اس لیے بن گیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کشکول اٹھائے دنیا بھر سے امداد اور قرضے مانگتے پھرتے ہیں۔ ٹیکس وصول کرنا حکومت کے بس میں ہے نہ کرپشن کی روک تھام۔ یہ ناقص طرز حکمرانی کا شاخسانہ ہے جس کا فائدہ امریکہ و بھارت کے علاوہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد ‘ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور گروہ اٹھا رہے ہیں۔
کور کمانڈر کانفرنس نے ہلکے سُروں میں جو کہا ہے وہ مسلم لیگ کی وفاقی اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے لیے مضمون واحد ہے اور موجودہ آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے مشکوک عناصر کے لیے واضح اشارہ کہ جس طرح فوج اور اس کے اداروں نے پاکستان کو خون میں نہلانے والوں کا دماغ درست کیا ہے اسی طرح وہ آپریشن کے باقی تقاضے پورے کرنے کا عزم بھی رکھتی ہے اور کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ فاٹا‘ کراچی اور پنجاب میں دہشت گردوں‘ ان کے سہولت کاروں اور ہر نوع و نسل کے قاتلوں‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز سے الگ الگ سلوک ہو گا؟ کسی کو گماں نہ ہو کہ سندھ کا ڈاکٹر عاصم تو پکڑا جائے گا اور پنجاب کا کوئی سپن ڈاکٹر چالاکی و فریب کاری سے بچ نکلے گا۔ ؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
پاکستان نے افغانستان میں بھارتی کردار کو مسترد کیا اور بھارتی سازشوں کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے رکھے‘ بلوچستان‘ فاٹا اورکراچی میں بھارتی تخریب کاری و دہشت گردی کا معاملہ اب اقوام متحدہ کی کورٹ میں ہے مگر میاں صاحب کے امریکی دورے کے بعد افغانستان میں بھارت کے کردار پر مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے‘ جس میں پاکستان شریک ہے ۔لوگ حیران ہیں اور آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ و ہ ایٹمی پروگرام‘ دہشت گردی‘ افغانستان میں بھارتی کردار کے حوالے سے پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کریں گے۔ اگر دورہ امریکہ کے بعد آرمی چیف چین سدھارے تو پھر سول حکومت کی افادیت کے بارے میں سوچنا پڑیگا۔ یہ طرز حکمرانی بہتر نہیں کر سکتی تو پھر کس کام کی ۔ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں