فوجی قیادت کی آزمائش

منتخب حکومت نے فوجی قیادت کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈال دیا ہے‘ گہرے سمندر اور شیطان کے درمیان لاکھڑا کیا ہے۔پاکستان دنیا کے معدودے چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار مارشل لاء لگے لیکن یہ کسی کو یاد نہیں کہ یہاں 1954ء سے اب تک ہر چار چھ سال بعد کسی نہ کسی صوبے‘ علاقے یا شہر میں فوج اور اس کے معاون و ماتحت اداروں کو آپریشن کرنا پڑا اور آپریشن کی کامیابی کا سہرا سیاستدانوں‘ حکمرانوں نے اپنے سر باندھا مگر ناکامی کا ملبہ فوج اور اس کے رینجرز‘ ایف سی جیسے اداروں پر ڈال دیا گیا۔
موجودہ آپریشن کی طرح بے نظیر بھٹو دور کا آپریشن بھی ہر لحاظ سے کامیاب تھا۔ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر مرحوم کے بقول ٹارگٹ کلرزاور دہشت گرد چوہوں کی طرح جان بچاتے پھرتے تھے مگر 1997ء میں سنگدل سیاست نے صرف آپریشن کی بساط نہ لپیٹی بلکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے اور رینجرز کے مدمقابل ہتھیار اٹھانے والے دہشت گردوں کے ورثاء کو سابق ڈی جی آئی بی ڈاکٹر شعیب سڈل کے بقول ستر کروڑ روپے سے زائد کا زرتلافی بھی دیا گیا کہ وہ نئے سرے سے ہتھیار خرید کر ریاست کا مقابلہ بہتر انداز میں کر سکیں۔ اس گناہ میں میاں نواز شریف شریک تھے اور بعدازاں جنرل(ر) پرویز مشرف نے ان کی پیروی کی۔
اس وقت پاک فوج اور رینجرز کو کم و بیش ماضی کی صورت حال کا سامنا ہے ۔مٹھی بھر دہشت گردوں کی سرکوبی اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا اس کے سلیپنگ سیلز‘ مددگاروں‘ سہولت کاروں اور مالی اعانت کرنے والوں کا مکمل قلع قمع۔ فوجی آپریشن کی مثال کینسر کے آپریشن کی ہے جو کامیاب ہونے کے بعد بھی مناسب اور حتمی کیمو تھراپی نہ ہونے کی وجہ سے مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں فوج‘ رینجرز اور ایف سی نے ہر طرح کے دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا ہے اور وہ اگر ختم نہیں ہوئے تو پسپا ضرور ہو گئے ہیں مگر حکومت اس جزوی کامیابی کو ہی حتمی کامیابی سمجھ کر وہی غلطی دہرانے پر آمادہ نظر آتی ہے جس کا خمیازہ کراچی‘ بلوچستان اور دوسرے شورش زدہ علاقوں کے عوام نے بھگتا ‘ ایک بار نہیں بار بار۔
نیشنل ایکشن پلان کی اصل خوبی یہ نہ تھی کہ اسے تمام سیاسی و مذہبی قوتوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا بلکہ پہلی بار مختلف النوع دہشت گردی کے اسباب و عوامل کاتجزیہ کر کے وسیع الجہت و پائیدار اقدامات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ مدرسہ ریفارمز‘ پولیس ریفارمز ‘ فاٹا ریفارمز‘ گڈ گورننس‘ مالیاتی دہشت گردی اور سہولت کاری کا سدباب‘ گرفتار دہشت گردوں کو جلد از جلد‘ سخت سے سخت سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ یہ سارے کام سول حکومتوں نے کرنے تھے۔ یہ آپریشن کے بعد کیمو تھراپی تھی جو مریض کی مستقل بنیادوں پر صحت یابی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ جب تک میگا کرپشن‘ سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی ‘لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی و نااہلی کا موجودہ عوام دشمن معاشی و سماجی سسٹم موجود ہے ‘ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور علیحدگی پسندوں کی ایک کھیپ ختم ہوئی تو دوسری تیار ہو جائے گی۔معاشرے میں سیاسی و معاشی عدم مساوات‘ ظلم و زیادتی‘ناانصافی ‘ وہ عوامل ہیں جو معاشرے میںبے چینی‘ اضطراب اور بغاوت کے جذبات ابھارتے اورپاکستان دشمنوں کو یہ مواقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ محروم و مایوس عناصر کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دے سکیں۔
کراچی میں مالیاتی دہشت گردی میں ملوث چند افراد کی گرفتاریوں سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ قومی وسائل کی لوٹ مار‘ بیرون ملک منتقلی اور ملک کو معاشی عدم استحکام‘ عوام کو غربت و افلاس‘ جہالت ‘ پسماندگی اور بے روزگاری سے ہمکنار کرنے میں مشغول عناصر کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو شمالی وزیرستان ‘ کراچی اور بلوچستان میںآمادۂ بغاوت گروہوں سے ہوا۔ مگر نیشنل ایکشن پلان کا کریڈٹ لینے والی سیاسی و مذہبی قوتوں نے آپریشن ضرب عضب کے اس حتمی اور منطقی مرحلے کو ناکام بنانے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنا انجام نظر آنے لگا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے ایک بار پھر پوری سیاسی اشرافیہ کو اس طرح متحد کر دیا ہے جس طرح 14اگست 2014ء کے لانگ مارچ اور دھرنے کے موقع پرپارلیمنٹ میں اکٹھا کر دیا تھا۔ اب ٹارگٹ براہ راست جنرل راحیل شریف ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی تقریر کو اگر کوئی ان کی ذاتی رائے سمجھتا ہے تو اس کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ میدان جنگ میں اُتری سپاہ کا سربراہ اگر اپنی اور ریاست کی کامیابی کے لیے حکومت سے بہتر طرز حکمرانی کی توقع بھی نہ رکھے تو پھر وہ اپنے شہیدوں کے ورثا اور غازیوں کو کیا مُنہ دکھائے گا۔مگر محمود اچکزئی سویلین شریف کے ساتھ ہیں‘ رضا ربانی‘ خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن اور دیگر سمیت۔
کیا پاک فوج کی قیادت حکومت کے جوابی پریس ریلیز کے بعد کان لپیٹ کر بیٹھ جائے اور آپریشن ضرب عضب کے ثمرات کو میاں نواز شریف اور ان کے سیاسی اتحادیوں کی خواہشات اور مفادات پر قربان کر دے؟پاک فوج کے چھ ہزار افسروں اور جوانوں اور پچاس ہزار سے زائد عام شہریوں کے خون کی قیمت وہ سیاسی مفاہمت ہے جو مسلم لیگ (ن) ‘پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کے مابین ہو چکی اور جس کا نکتہ اول و آخر سیاسی‘ ذاتی اور خاندانی مفادات کے علاوہ برس ہا برس سے جاری لوٹ مار کا تحفظ ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں اشرافیہ کی اگلی نسل کو بھی لوٹ مار کی مکمل آزادی۔ حکمران اشرافیہ اس سے کم پر راضی نہیں اور اس کی خواہش ہے کہ فوج فاٹا‘ کراچی‘ بلوچستان میں آپریشن کی بساط لپیٹ کر سول بالادستی کا اہتمام کرے‘کیونکہ یہ امریکہ اور بھارت کی مرضی ہے اور مراعات یافتہ طبقات کا زور دار مطالبہ۔ مقاصد دونوں کے الگ الگ ہیں مگر نتائج یکساں۔ پاک فوج اور اس کے معاون و ماتحت ادارے بھی پنجاب پولیس کا کردار قبول کر لیں۔ تابعدار‘فرماں بردار اور اطاعت گزار۔شک یہ گزرتا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور فوجی عدالتوں کی معینہ مدت گزرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ع
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
کئی ٹارگٹ کلرزناقص تفتیش کا فائدہ اٹھا کر رہا ہو چکے اور کراچی میں ٹارگٹ کلرزاوربھتہ خور پھر سر اٹھانے اور فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان سے بھاگ کر پنجاب میں پناہ لینے والے دہشت گرد ایک بار پھر سرگرم عمل ہونے لگے ہیں۔ مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد کا دعویٰ یہ ہے کہ کراچی میں گرفتاریاں سابقہ ادوار کے قاتلوں‘ مجرموں‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی ہوئی ہیں‘ گزشتہ چار پانچ سال میں تربیت لینے والے تازہ دم بھارتی ایجنٹ بدستور محفوظ اورموقع کی تاک میں ہیں۔جونہی حکمران اشرافیہ نے فوج کو پیچھے دھکیلا وہ خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دیں گے۔
پاک فوج کی قیادت کو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر سیاسی اشرافیہ نے آزمائش سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ آپریشن کو ادھورا چھوڑ سکتی ہے نہ پائیدار امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکیے بغیر آگے بڑھنے کے قابل اور نہ یہ الزام اپنے سر لے سکتی ہے کہ اس نے دہشت گردی ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری‘ مالیاتی دہشت گردی اور لوٹ مار کے خاتمے کا موقع اپنی مصلحت پسندی یاکم ہمتی کی وجہ سے ضائع کردیا۔ کسی جامع‘ ہمہ پہلو اور ہمہ گیر فوجی آپریشن پر اس سے پہلے کبھی مکمل قومی اتفاق رائے ہوا نہ آئندہ ممکن ہے۔
جنرل راحیل شریف کو اللہ تعالیٰ اور اس ملک کے حقیقی وارث عوام نے بہترین موقع عطا کیا۔ بلا تفریق وامتیازاحتساب کے ذریعے دہشت گردی علیحدگی پسندی اور فرقہ وارانہ‘ نسلی‘ لسانی ‘ علاقائی انتہا پسندی کے خاتمے کا یہ موقع خدانخواستہ اگر ضائع ہو گیا تو پھر ہر طرح کے دہشت گرد اور ان کے اندرونی و بیرونی سرپرست اس قوم کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو داعش عراق‘ شام اور دیگر ممالک کے عوام اور ریاستی اداروں کے ساتھ کر رہی ہے۔ پیرس کے واقعہ نے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی ختم تو خیر کیا ہونی تھی‘ الٹا بڑھ گئی ہے اور ہم بھی نیم دلانہ اقدامات سے اس عفریت کو اپنی طرف بڑھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔مگر عوام اب بھی پُر اُمید ہیں کہ جس طرح فوج نے فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کی کمر توڑی ‘اسی طرح مالیاتی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اورسلامتی کے لیے خطرہ بننے والے لٹیروں اور حرام خوروںکے ساتھ بھی آہنی ہاتھ سے نمٹے گی اور امریکہ و بھارت کے علاوہ ان کی چہیتی حکمران اشرافیہ کا دبائو ہر گز قبول نہیںکرے گی۔راحیل شریف کی مقبولیت کا راز یہی امید ہے ‘ اگر وہ توقعات پر پورے اترے تو ہیرو اور مسیحا ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں