احتساب یا مُک مکا؟

سابق صدرآصف علی زرداری کی ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں احتساب عدالت سے برأت، رینجرز کے خلاف ایم کیو ایم کی ریلی اور ڈاکٹر عاصم حسین کے ریمانڈ کے سلسلے میں رینجرزو پولیس کے مابین اختلاف کے بعد کوئی احمق ہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ موجودہ طرز حکمرانی نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، دہشت گردوں کی مالیاتی امداد اور لوٹ مار کی رقم غیر قانونی طریقے سے بیرون ِملک منتقل کرنے والے بڑے مگرمچھوں کو کسی قسم کی سزا مل سکتی ہے۔
ایں خیال است و محال است و جنون!
آرمی چیف راحیل شریف کی وطن واپسی پر قوم اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے چار سوالات کے تسلی بخش جوابات کی منتظر ہے۔ کیا واشنگٹن کی ملاقاتوں میں امریکہ نے آرمی چیف کو افغان امن عمل میں اپنے اورافغان حکومت کے تعاون کی کوئی یقین دہانی کرائی اور طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہوا چاہتا ہے؟ کیا پاکستان کے تزویراتی ہتھیاروں کے حوالے سے امریکی اعتراضات کا تسلی بخش جواب واشنگٹن انتظامیہ کو مل چکا ہے اور وہ مطمئن ہے؟ داعش کے خلاف جنگ میں ضرب عضب کے پاکستانی ماڈل سے عالمی برادری استفادہ کرے گی یا نہیں؟ کیونکہ افغانستان، عراق اور شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں ناکامی کسی سے مخفی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے اس عفریت کا خاتمہ کرنے کے بجائے اضافہ کیا ہے اور صرف پاکستان کے حصے میں کامیابی آئی ہے۔ کیا پاکستان میں بلاتفریق احتساب ممکن ہے یاوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ کرپٹ عناصر کے شیطانی اتحاد کے سامنے فوج، رینجرز، نیب اور عدلیہ بے بس ہیں اور ان کو بالآخر سرنگوں ہونا پڑے گا؟ جس طرح کہ ماضی میں یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوتا رہا۔
صرف کراچی آپریشن نہیں ملک بھر میں جاری آپریشن کی حتمی کامیابی کا انحصار بھی ان سوالات کے مثبت اور عوام کے لئے حوصلہ افزا، اطمینان بخش جوابات پر ہے۔ ماضی کا تجربہ گواہ ہے کہ کرپٹ سیاستدان، ان کے قانونی ماہرین اور ہر فن مولا حکمران حیلوں بہانوں، شاطرانہ چالوں اور ترغیب و دبائو کے حربوں سے ہر فوجی و نیم فوجی آپریشن اور احتسابی عمل کو طوالت سے دوچار کرتے ہیں تاکہ اس کی ناکامی کا ملبہ آپریشن اور احتساب میں مصروف قوتوں پر ڈال کر خود مظلومیت کی چادر اوڑھ سکیں۔ معاشرے کا مزاج ماشاء اللہ یہ ہے کہ سرعام قتل ہو یا کسی معصوم بچی سے زیادتی اور کوئی دیگر جرم، دو دن کی سینہ کوبی کے بعد ہماری ہمدردیاں مظلوموں کے بجائے ظالموں کے ساتھ ہوتی ہیں اور ہم قاتل، جنسی درندے اور خونخوار ڈکیت کی ساری خطائیں معاف کرنے پر تیار نظرآتے ہیں۔
کرپٹ سیاستدانوں اور وسائل خور حکمرانوں کو عوام کی اس زودفراموش طبیعت کا علم ہے۔ لہٰذا وہ ہر آپریشن اور احتساب کا ابتدا میں زور شور سے خیر مقدم کرتے ہیں، اپنے بھائی بندوں کو صبر اوراچھے وقت کا انتظارکرنے کا اشارہ کرتے ہیں اور مناسب وقت پر سارے چور، اچکے،مجرم اور بدقماش اکٹھے ہو کر اپنے ساتھ ظلم کی داستانیں بیان کرنے لگتے ہیں۔ ایس جی ایس کوٹیکناکیس اس کی روشن مثال ہے جو میاں نواز شریف کے دور میں قائم ہوا۔ قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوئے، شریف برادران نے عوامی اجتماعات میں قومی دولت اگلوانے کے وعدے کیے مگر انہی کے دور حکومت میں ملزم باعزت بری ہوگیا۔عدم ثبوت کی بنا پر نہیں، ملی بھگت اور سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں۔ یہ 2014ء میں عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے کے موقع پر آصف علی زرداری اینڈ کو کی طرف سے نواز حکومت کو بچانے میں سیاسی تعاون کی ابتدائی قیمت ہے جو ادا کی گئی ہے ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میںمہمان شخصیت سے ہاتھ ملانے والے بھارتی نژاد عماد زبیری کے توسط سے کس کس اہم حکومتی و سیاسی شخصیت نے بذریعہ ہنڈی حوالہ اربوں روپے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بالخصوص بھارت منتقل کیے۔ یہ ڈاکٹر عاصم حسین کے قریبی عزیز عماد زبیری نے تفصیل سے بتا دیا۔ اگر وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش قبول کرلی گئی تو دستاویزی ثبوت بھی مل جائیں گے۔ عاصم حسین کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں تفتیش ہوئی تو اسلام آباد اور پنجاب میں بھی خطرے کی گھنٹیاں زور زور سے بج اٹھیں گی کیونکہ بات چل نکلی تو صرف شرجیل میمن تک محدود نہیں رہے گی، کئی دوسرے وفاقی اور صوبائی وزراء کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے پڑیں گے اور شاخ نازک پہ بنا موجودہ سیاسی و حکومتی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا ،کیونکہ قومی خزانہ لوٹنے اور لوٹ کا مال منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بالخصوص بھارت، سپین، آسٹریلیا، برطانیہ اور دبئی منتقل کرنے والوں میں بڑے بڑے مگرمچھ شامل ہیں اور وہی ایان علی، ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگرکو بچانے کے لئے نہ صرف احتساب بلکہ نیشنل ایکشن پلان کی بساط لپیٹنے کے لئے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔
کونوں کھدروں میں چھپنے اور ڈی جی آئی ایس آئی و رینجرز سے ملاقات کے لئے اخبار نویسوں کا منت ترلا کرنے والے رہنما ئوں کو اچانک رینجرز کے خلاف جلوس نکالنے کا حوصلہ کیسے ہوا؟ جنرل بلال اکبر کے تبادلے کا مطالبہ کرنے والوں کو ملاقات کی سہولت کیسے ملی؟ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض اہم سیاستدانوں اور وفاقی و صوبائی وزیروں کی گرفتاری میں کیا رکاوٹ ہے اور آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے جواب میںحکومتی بیان جاری کرنے کا فیصلہ کیونکر ہوا؟ واقفان حال کو سب علم ہے مگر زبان کوئی کھولنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ایک تو یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ امریکہ بہادر کا دست شفقت کس پر ہے اور دوسرے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی صورت میں وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کا فوری ردعمل کیا ہوگا؟ پچھلے سال کی طرح تبدیلی کے مخالف تمام سیاسی عناصر یک جان و دو قالب ہو کر مزاحمت کاراستہ اختیار کریں گے یا سیاست کی قربانی دے کر ریاست بچانے کے لئے آپریشن و احتساب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کریں گے؟
پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض بڑے مگرمچھوں کی گرفتاری کے بغیر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف مقدمہ کا بھی وہی حشر ہوگا جوایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں ہوا۔ چند ماہ یا سال کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین بری ہوں گے اور مقدمہ درج کرنے والوں کے خلاف گز بھر لمبی زبانیں زہر اُگلیں گی کہ یہ جمہوریت کو ڈی ریل اور جمہوریت پسندوں کو بدنام کرنے کی سازش تھی وغیرہ وغیرہ۔ کراچی میںبلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم نئے جذبے اور طاقت و توانائی کے ساتھ رینجرز کو چیلنج کرے گی اور اسے وفاقی و صوبائی حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل ہوگی اور غالباً اسی بنا پر میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں نے نیشنل ایکشن پلان اور احتساب کے عمل کو دسمبر تک لٹکائے رکھنے کی پالیسی اپنائی تاکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ بلدیاتی اداروں میں عوامی مینڈیٹ کی حامل قوتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم سے وابستہ مجرموں کی سودے بازی پوزیشن مضبوط ہو اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی حکمت عملی اپنائی جاسکے۔
آصف علی زرداری بڑبولے تھے، برملا کہہ دیا کرتے تھے کہ مجھے ایوان صدر سے نکالنے کے لئے ایمبولینس لانا پڑے گی۔ موجودہ حکمران زیادہ تجربہ کار، باریک بین اور سیانے ہیں، وہ اب کی بار بم کو لات مارنے کے موڈ میں نہیں بلکہ سیاسی شہادت کے منتظر ہیں۔ اپنے قریبی ساتھیوں کی قربانی دینے کے بجائے وہ نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ضرب عضب اور احتساب کے عمل کو قربانی کا بکرا بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور نیب کے علاوہ پولیس و انتظامیہ ، ایف آئی اے اور دیگر ریاستی ادارے ان کی دسترس میں ہیں۔ سپورٹس فیسٹیول، نندی پور پاور پراجیکٹ اور ایل این جی امپورٹ میں ملوث کسی ملزم کا آج تک کوئی بال بیکا نہیں کر سکا۔ آئندہ بھی کچھ نہ ہوا تو آپریشن ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان اور کراچی آپریشن کی طوالت پر انگلیاں اٹھیں گی اور حکمران اشرافیہ ایک کونے میں بیٹھ کر ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوگی کہ خفیہ مفاہمت کے ذریعے ہم نے اپنے اپنے قاتل، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور منی لانڈرر کو کس صفائی سے بچالیا۔ کس استادی کے ساتھ قومی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ آرمی چیف وطن واپس آ چکے، وہی چار سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہیںاور اس پر آپریشن کی کامیابی اور موجودہ ناقص و بدعنوان طرز حکمرانی کے مستقبل کا انحصار ہے ؎
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں