عادی

کہتے ہیں کہ ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ہم میاں بیوی میں اکثر نوک جھونک رہتی ہے‘ لڑائی جھگڑے کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور میںذہنی دبائو کا شکار رہتا ہوں‘ کوئی ایسا وظیفہ اور نسخہ بتائیے کہ روز کی یہ چخ چخ ختم ہو اور گھر میں سکون آئے۔ بزرگ نے فرمایا''تم چالیس روز تک چپ کا روزہ رکھ لو ‘ہر کڑوی کسیلی بات کو خوش دلی اور خوش مزاجی سے برداشت کرو‘ جواباً کچھ نہ بولو‘‘ سائل نے خوش ہو کر پوچھا ''پھر کیا ہو گا حضرت‘‘!بزرگ نے کہا ''پھر تم اس چپقلش ‘ چخ چخ اور بے سکونی کے عادی ہو جائو گے‘‘۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 2013ء کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے قوم کو خوش خبری سنائی تھی کہ اگلے دو سال ذرا سخت ہوں گے ہمارے اقتصادی و معاشی اقدامات سے قوم کو قدرے تکلیف ہو گی۔ یہی بات میاں نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد عوام سے کی تھی اور اپنے اوپر اعتماد کرنے کو کہا تھا۔ قوم نے پوچھا نہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ہر فن مولا وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بتایا کہ دو سال تک حکومت کے سخت اور ناقابل برداشت اقدامات کے بعد کیا ہو گا؟ کیاقوم کے حالات بدلیں گے اور سارے دلدّر دور ہو جائیں گے؟ قوم نے اپنی منتخب حکومت پر اعتماد کیا، دو سال تک بجلی مہنگی ہونے پر چیخی چلائی نہ کھانے پینے کی اشیا گوشت‘ دودھ‘ سبزیوں ‘ دالوں اور مرچ مصالحے کے نرخوں میں کئی گنا اضافے پر برہم ہوئی اور نہ میگا پراجیکٹس میں نظر آنے والی کرپشن پر اُسے غصہ آیا۔
عمران خان نے دھاندلی کا شور مچایا‘ ثبوت تک پیش کر دیا مگر قوم نے سنی ان سنی کر دی۔ بے روزگاری عام ہوئی‘ لاقانونیت اور بدامنی سے شریف شہریوں کا جینا حرام ہو گیا۔ مردوزن تھانے کچہری میں ذلیل ہوتے رہے اور قومی سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں نے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیا۔ معلوم نہیںکتنے ڈاکٹر عاصم حسین‘ ایان علی‘ الطاف خانانی لوٹ مار کا پیسہ بھارت‘ دبئی‘ لندن‘ سپین اور دیگر ممالک میں منتقل اور اپنے آقائوں کے بنک بیلنس و اثاثوں میں اضافہ کرتے رہے۔ قوم صبر و تحمل کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتی خاموشی سے سنتی اور حکمرانوں پر اعتبار کرتی رہی۔
حکومت کو اقتدار میں اڑھائی سال ہو چکے ،قوم کواب پتا چلا کہ دو سال کی مہلت ان کی تقدیر اور مستقبل بدلنے کے لیے نہیں ‘انہیں ذلّت و رسوائی‘ مفلسی و بے روزگاری اور مہنگائی و لاقانونیت ‘ کا عادی بنانے کے لیے مانگے گئے تھے جب حکمرانوں کو یقین ہو گیا کہ اب قوم ہمیں اپنا مسیحا مان کر یہ ستم سہنے اور تکلیف بھگتنے کی عادی ہو چکی ہے تو اسحٰق ڈار نے اس پر چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے ہیں اور ڈھٹائی یہ کہ موصوف یہ ماننے پر بھی تیار نہیں کہ منی بجٹ سے غریب اور متوسط طبقہ متاثر ہو گا۔ فرماتے ہیں، یہ امیروں کے زیر استعمال پرتعیش اشیاء پر ٹیکس ہے۔ شائد اپنے دو سالہ اقتصادی و معاشی اقدامات کے بعد انہیں یقین ہو گیا ہے کہ اب اس ملک کا غریب آدمی دہی‘ مکھن‘ جوتے‘ خشک میوہ جات‘ ٹوتھ پیسٹ‘ الیکٹرانکس‘ ٹی وی‘ پنکھے اور میک اپ کا سامان خریدنے اور استعمال کرنے کے قابل ہی نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان عرصہ دراز سے بھارت اور چین سے سستی اشیاء درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے، مقامی کارخانے یا تو بند ہو چکے ہیں یا پھر ساختہ چین مال پر ساختہ پاکستان کا ٹیگ لگا کر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں ۔چند ماہ پہلے ملک کے کاشتکار بھارت سے دودھ‘ گوشت‘ سبزیوں ‘اجناس اور مکھن کی درآمد کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ ویسے بھی ہمارے صنعت کار‘ تاجر اور پرچون فروش ابھی اتنے مستغنی مزاج نہیں کہ ڈیوٹی درآمدی اشیا پر لگے اور وہ مقامی طور پر تیار کردہ چیز یں مہنگی نہ کریں۔ جہاں حکومت جگا ٹیکس اور بھتہ وصول کرنے کی عادی ہو وہاں کوئی دوسرا طبقہ کیوں پیچھے رہے، اس لیے ٹیکس درآمدی دودھ‘ دہی‘ مکھن پر لگے یا خشک میوہ جات پر‘ مہنگی یہاں دال سبزی اور روٹی تک ہوگی۔
سونے پر سہاگہ اسحٰق ڈار کا یہ بیان کہ چالیس ارب روپے کے ٹیکس آپریشن ضرب عضب کی تکمیل اور آئی ڈی پیز کی واپسی کے لیے لگائے گئے ہیں حالانکہ آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی قسط وصول کرنے کے لیے یہ ٹیکس لگے اور مقصد بجٹ کا خسارہ پورا کرنا ہے کیونکہ اگر آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پیز کے لیے وسائل درکار تھے تو لکھ لٹ حکومت اپنے ان نمائشی منصوبوں پر نظر ثانی کرتی جو حکمرانوں کے چہیتوں کی جیبیں بھرنے اورسیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں شروع کئے گئے ہیں۔ مثلاً اسلام آباد میں نو تعمیر سڑکوں کی از سر نو تعمیر وغیرہ۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس وصولی میں ناکامی کا خمیازہ ہے جو حکومت کی نااہلی‘ ایف بی آر کی ناقص کارگزاری اور اپنے حامی طبقے سے ٹیکس وصول نہ کرنے کی مسلم لیگی پالیسی کی وجہ سے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے مگر تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ فوج کے دبائو کی وجہ سے حکومت نے یہ ٹیکس لگائے ہیں۔ 
حکومت اگر چاہے تو وسیع پیمانے پر کرپشن‘ پیسے کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقلی اورشاہانہ اخراجات کم کر کے چالیس ارب روپے سے زیادہ وسائل بآسانی حاصل کر سکتی ہے۔ دو سال قبل اسحٰق ڈار نے سوئٹزر لینڈ میں پڑے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ اگر دیانتداری‘ سنجیدگی اور جذبہ حب الوطنی سے حکومت نے اس سمت قدم بڑھایا ہوتا تو چار پانچ سو ملین ڈالر ریکوری ہو چکی ہوتی اور حکومت کو قرضے لینے اور ناروا ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر آصف علی زرداری سے ہی سوئٹزر لینڈ والی رقم اگلوا لی جاتی تو کافی تھا مگر یہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں‘ وہ تو من ترا حاجی بگویم تومرا حاجی بگو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے دعوئوں کے مطابق ملکی معیشت مستحکم ہے‘ قومی خزانہ بھرا ہوا اور سعودی عرب‘ چین ‘ ترکی اور دیگر ممالک سے سرمایہ کار ڈالروں کی بوریاں بھرے پاکستان کے کوچہ و بازار میں انڈیل رہے ہیں‘ تیل قدرت نے سستا کر دیا ہے اور میاں شہباز شریف ایک ایک پراجیکٹ میں سو سو‘ ڈیڑھ ڈیڑھ سو ارب روپے کی بچت کر رہے ہیں مگر وزیر خزانہ کا کشکول بھرنے میں آرہا ہے نہ ہوس ٹیکس گیری میں کمی۔ قرضوں پر قرضے بھی لیے جا رہے ہیں اور ٹیکسوں کی بھر مار بھی ہے۔ جبکہ فوجی آمر پرویز مشرف کے دو رمیں جب اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بڑھی تو ترقی و خوشحالی کے مناظر ہر گھر‘ بازار اور شہر میں نظر آنے لگے تھے، آئی ایم ایف اپنے پروگرام لے کر شوکت عزیز کے پیچھے پھرتی تھی مگر حوصلہ افزا جواب کبھی نہ ملا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پوچھو تو یہ بلبلہ معیشت تھی جب کہ 2008ء سے مستحکم معیشت کا دور آیا ہے جس کے طفیل خودکشیوں‘ خود سوزیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔مگر حکمرانوں کی بلا سے ؎
کون تیڈے ڈُکھ سُندے خُرّم
کیکوں تو ہیں بھاندا
تبدیلی کا انتخابی راستہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مک مکا سیاست کے ذریعے بند کر دیا ہے کیونکہ دھاندلی اور بے ضابطگی میں جو اختراعات ہو چکی ہیں اس کا مقابلہ کسی دوسری جماعت کے بس میں نہیں۔ احتساب آہستہ آہستہ مذاق بننے لگا ہے۔ اگر قومی سرمایہ لوٹ کر ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے بھارت‘ سپین‘ دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے والوں سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی تو پھر ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کتنے دن مقدمات بھگتیں گے، بالآخر بری ہو جائیں گے،جس طرح آصف علی زرداری ہو گئے کیونکہ استغاثہ نے کیس ڈھنگ سے لڑا ہی نہیں۔ سزا دلانے کے لیے اصل دستاویزات پیش نہیں کیں۔
اس انداز حکمرانی کی بنا پر ٹیکس چوروں‘ گراں فرشوں‘ لٹیروں‘ سمگلروں اور ٹارگٹ کلرز کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ جو بھی کریں حکومت اور ریاست ان سے باز پرس پر تیار ہے نہ قابل۔یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ دوبارہ ہونے لگی ہے اور گزشتہ روزدو باوردی فوجی جوان اس کا نشانہ بنے۔ رینجرز پہلے ہی نشانے پر ہے دو سال گزرنے کے بعد عوام اسحاق ڈار کا ہر ستم سہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اپنے گھریلو حالات کی درستی کے لیے وظیفہ پوچھنے والا شخص سیانا تھا جس نے پہلے پوچھ لیا کہ پھر کیا ہو گا۔ سادہ لوح قوم نے اڑھائی سال پہلے پوچھا ہوتا تو شائدکوئی بچائو کر لیتی مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ؎
قوم دا درد ونڈاون والے
قوم دیاں بوٹیاں پٹ پٹ کھاندن
(خرم بہاولپوری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں