انتخابی جمہوریت‘ زندہ باد

سپریم کورٹ کے فیصلے اور دبائو پر بالآخر پنجاب اور سندھ میں ضلعی حکومت کے انتخابات تین مراحل میں مکمل ہو گئے۔ عوام کے حسنِ انتخاب میں کیڑے نکالنا بدذوقی ہے۔ 1970ء کے انتخابات کو جن لوگوں نے پاکستان کی تقسیم اور تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا‘ جمہوریت پسندوں نے انہیں آج تک معاف نہیں کیا حالانکہ بات سچ تھی اور خدشات و اندیشے درست ثابت ہوئے۔
ہمارے دوست اور ذہین صحافی محمد طاہر نے انتخابی نتائج کو ایک اور انداز میں دیکھا اور اپنا عمیق تجزیہ ہمیں ای میل کر دیا جس سے اتفاق کیا جا سکتا ہے اور اختلاف بھی۔ مگر یہ پڑھ کر سوچنا ضرور پڑتا ہے کہ ع 'یہ بھی اک پہلو ہے حسن یار کی تصویر کا‘۔ لکھتے ہیں:
''کراچی کے انتخابی نتائج پر لوگ حیران ہیں! حالانکہ اس میں کوئی چیز بھی غیر منطقی نہیں۔ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں‘ دنیا میں رائج اس مخصوص نوعیت کی انتخابی جمہوریت میں ایسے ہی آ سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ حالات یا سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ دراصل اس جمہوری نظام سے جڑا ہے جس میں جمہوریت کو کلیتاً انتخابی جمہوریت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس کے دیگر اجزا کو مکمل فراموش کر دیا گیا ہے۔
معلوم نہیں کیوں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ قتل و غارت گری کا جمہوریت کے ساتھ ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ انتخابی مہمات دراصل جنگوں کی طرح ہوتی ہیں۔ بھارت‘ سمجھنے کے لیے ایک زبردست مثال ہے۔ تقسیم ہند کے دوران تقریباً دس لاکھ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھارت میں کانگریس نے کبھی بھی ان زخموں کو بھرنے نہیں دیا۔ بلکہ اس نفرت کو تاریخ میں زندہ رکھتے ہوئے انتخابی جمہوریت کا ایک اثاثہ بنائے رکھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس دونوں ہی ہندو کارڈ کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ جو کام بی جے پی دن کے اجالے میں کرتی ہے‘ وہی کام کانگریس رات کی تاریکی میں کرتی ہے۔ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے بعد 1984ء میں کانگریس نے فتح کا تاج سر پر پہنا۔ گجرات میں نریندر مودی نے قتل و غارت گری کے بعد ناقابلِ تسخیر ہونے کا مقام حاصل کیا‘ اور پے در پے انتخابات جیتتا رہا۔ بابری مسجد کی شہادت کو آج 23 برس گزر گئے۔ بھارتی شہر ایودھیا میں 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو جنونیوں نے سولہویں صدی کی عظیم ترین مسجد کو شہید کر دیا‘ مگر کم لوگ اس پر دھیان دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھارت کی انتخابی جمہوریت سے کس طرح جڑا ہوا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھارت میں کانگریس کے پی وی نرسمہارائو وزیر اعظم تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کا بوجھ اور بھارتی جمہوریت کا اس پر انحصار اس قدر مکروہ ترین انداز میں تھا کہ انہیں اس مسئلے پر ایک مفصل کتاب لکھنی پڑی‘ جو اُن کی 2004ء میں وفات کے بعد شائع ہو سکی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان کے دور میں ہی بابری مسجد میں رام کی جنم بھومی کا تنازع اُٹھا کر ایک سیاسی جماعت کے طور پر کانگریس کی متبادل جماعت کے طور پر خود کو اُبھارا۔ تب گجرات میں نریندر مودی اور اُتر پردیش میں کلیان سنگھ ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے رہے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں منتخب وزرائے اعلیٰ تھے۔ عام طور پر بھارت میں مسلم کش فسادات کے سلسلے میں گجرات کا بھی ذکر آتا ہے مگر اس پیش منظر‘ پس منظر اور تہِ منظر کو فراموش کر دیا جاتا ہے جو جمہوریت کے ساتھ اس قتل و غارت گری اور بابری مسجد سے مربوط ہے۔ 
دراصل فروری 2002ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی یو پی میں انتخابی دنگل میں اُترنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ تب انتخابی مہم کے لیے ایک بار پھر ایودھیا میں (جہاں بابری مسجد کو 1992ء میں شہید کیا گیا تھا) رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا‘ اور اسے ایک انتخابی ایجنڈا بنا دیا گیا۔ ان دنوں بی جے پی کی حکومت صرف گجرات میں تھی۔ ٹھیک ان ہی دنوں‘ فروری کے اواخر میں گودھرا اسٹیشن کے باہر اس ریل گاڑی کو نشانہ بنایا گیا‘ جس میں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے وہ مسلح جتھے سوار تھے جو رام مندر کی تعمیر کے لیے گھروں سے باہر نکلے تھے۔ اُس ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں اچانک اور پراسرار طور پر آگ لگا دی گئی‘ جس میں 58 افراد زندہ جلا دیے گئے۔ اس کے فوراً بعد ہندو انتہا پسند گجرات کے صوبے میں گھروں سے باہر نکلے۔ بھارتی دانشور ارون دھتی رائے اس کے بعد کا جو نقشہ کھینچتی ہے وہ ان کے الفاظ میں پڑھتے ہیں۔
''چند گھنٹوں کے اندر مسلمانوں کے قتل عام کا ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا گیا‘ منصوبہ بندی میں انتہائی باریک بینی سے کام لیا گیا‘ دو ہزار کے قریب مسلمانوں کی جانیں لے لی گئیں۔ ڈیڑھ لاکھ افراد کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ بے شمار عورتوں کی سرِ عام آبرو ریزی کی گئی‘ والدین کو ان کے بچوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس ہجوم کے پاس کمپیوٹرائزڈ فہرستیں موجود تھیں‘ جن میں اُن گھروں اور دُکانوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو مسلمانوں کی ملکیت تھے۔ ان سب کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا تقدس پامال کیا گیا۔ ہجوم ٹرکوں پر آیا‘ جن پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے گیس سلنڈر لدے تھے‘ جن کو کئی ہفتوں قبل ذخیرہ کیا گیا تھا۔ پولیس نے نہ صرف ہجوم کو تحفظ دیا بلکہ کورنگ فائر بھی فراہم کیا۔‘‘
یہ اُتر پردیش کی انتخابی مہم تھی‘ مگر اس نے گجرات میں نریندر مودی کو بھی ناقابلِ شکست بنا دیا؛ چنانچہ اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے کھلے قتل عام سے مودی کی انتہا پسند ہندوئوں میں جو زبردست پذیرائی ہوئی‘ اس کی وجہ سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اس نے اعلان کیا کہ وہ انتخابات قبل از وقت کرانا چاہتے ہیں۔ انتخابی جمہوریت دراصل عصبیت کے فروغ‘ گروہوں کی اپنی بقا سے متعلق نفسیات اور مفروضہ دشمنوں کے خوف پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سوال بھارت میں نہیں خود پاکستان میں بھی انتہائی اہم ہے کہ جمہوریت کی اس قسم میں ایسا کون سا بنیادی اور عملی خلا ہے‘ جس کے باعث سیاست دان رائے دہندگان کو طبقاتی‘ علاقائی‘ لسانی اور ذات پات کے خانوں میں تقسیم کرنے کے لیے اکساتے ہیں۔ بھارت میں نرسمہا رائو کے زمانے میں اسی قتل و غارت گری سے ہندو انتہا پسندی کو فروغ ملا اور بی جے پی اس قابل ہوئی کہ وہ کانگریس کو اکھاڑ کر تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک جا پہنچی۔ آج بھی یہی انتہا پسندی نریندر مودی کی طاقت ہے‘ اور وہ بھارت کے سب سے بڑے منصب پر انتخابی طاقت سے براجمان ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے ملبے پر کھڑی ایسی جمہوریت پر مسلمان بھی ایمان رکھتے ہیں۔ پاکستان کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔
کراچی کے انتخابی انتداب (مینڈیٹ) سے لے کر پورے ملک کے انتخابی انتداب پر دھیان دیجیے‘ کہیں پر بھی جمہوریت کی مفروضہ روح کے مطابق نتائج نظر نہیں آئیں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ کراچی بدلنے کو تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے کون سے حصے میں کوئی انتخابات کے ذریعے خود کو بدلنے کے لیے تیار ہے؟ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو رائے دہندگان کا جو اعتماد حاصل ہے‘ اُس کی حیثیت کیا ہے؟ اگر مسلسل دس سال سے جاری لوٹ مار کے باوجود اندرونِ سندھ میں پیپلز پارٹی کو مسلسل پذیرائی مل رہی ہے تو خلا کس میں ہے؟ سقم کہاں ہے؟ میاں نواز شریف کی ڈھائی سالہ حکومت میں کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر درست نہیں رہی۔ معیشت کی ابتر حالت اور بدعنوانی کے سامنے آتے بھیانک قصوں کو اگر عوام انتخابات میں کوئی اہمیت نہیں دیتے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آخری فیصلہ عوام ہی کریں گے؟ اسلام آباد اور پنجاب میں تمام جماعتوں نے جس طرح کے لوگ عوام پر مسلط کر دیے ہیں‘ اگر اسے جمہوریت کے تدریجی عمل کی ناگزیر مجبوری کے طور پر گوارا کرنے کی تاویل موجود ہے تو اگلی دو صدیوں تک اس تدریجی عمل کا تجربہ کر لیجیے‘ عوامی نمائندے بتدریج بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس میں بہتری کے آثار کہیں پر بھی نظر نہیں آ سکیں گے۔ بھارت کی ہی مثال لے لیجیے! جہاں جمہوریت مسلسل چلی آتی ہے۔ دس بیس نہیں‘ اڑسٹھ سال سے۔ تو کیا وہاں مسلسل انتخابات کے نتیجے میں اب پہلے سے زیادہ بہتر حکمران ہیں یا بدتر حکمران ہیں۔ جواہر لال نہرو کی جگہ پر بتدریج بہتر کرنے والی جمہوریت نے نریندر مودی کو لا بٹھایا ہے۔ اور جماعتی صورتِ حال یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنے اندر سے بھی اٹل بہاری واجپائی کے مقابلے میں نریندر مودی کو اچھال کر اوپر پھینکا ہے۔ وہ جماعتی سطح پر بھی اپنے اندر کے بہترین کو اُبھار نہیں پائے۔ اس جمہوریت سے بتدریج بہترنتیجے کی امید تاریخی طور پر کہیں سے باندھی نہیں جا سکتی۔‘‘میرا سوال مگر یہ ہے کہ کسی نے اپنے مینڈیٹ کو آپریشن مخالف قرار دیا تو؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں