اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

یہ23اگست 1973ء کی ایک ابر آلود صبح تھی۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کے بنک سکوائر میں واقع ایک مشہور بنک کی شاخ کھل چکی تھی مگر کھاتہ داروں کی آمدو رفت شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک سزا یافتہ مفرور جان ایرک اولسن بنک میں داخل ہوا‘ سکیورٹی گارڈ نے خفیہ الارم بجانے کی کوشش کی مگر اولسن نے اسے گولی مار کر ڈھیر کر دیا۔ دوسرے سکیورٹی گارڈ نے حملہ آور کے احکامات بجا لانے کو ترجیح دی۔
اولسن نے سکیورٹی گارڈز سے نمٹنے کے بعد ایک دو ہوائی فائر کئے اور امریکی لہجے میں گرجا''پارٹی شروع ہو گئی ہے‘‘۔ عملے کے چار ارکان کو اس نے چھت پر بند کیا اور پولیس کو اپنے مطالبات کی فہرست پیش کر دی۔ اپنے ایک دوست اور کئی سنگین واقعات میں سزا یافتہ مشہور ڈاکو کلارک اولفسن کو جیل سے نکال کر بنک پہنچانے کے علاوہ اس نے سات لاکھ تیس ہزار امریکی ڈالر کی رقم بطور تاوان‘ چند جدید ہتھیار اور تیز رفتار گاڑی کا مطالبہ کیا جس میں وہ یرغمالیوں کو لے کر محفوظ مقام پر منتقل ہو سکے۔ حکومت نے کلارک اولفسن کو فوری طور پر بنک میں لا کر باقی مطالبات بھی ماننے کا اعلان کر دیا مگر یرغمالیوں کو ساتھ لے جانے کی شرط قبول نہ کی۔
دو چار دن بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے اور وزیر اعظم اولف پالمے انتخابی مہم میں مصروف‘ جبکہ سویڈن کے ضعیف العمر بادشاہ گستاف ایڈولف لے اپنے محل میں بستر مرگ پر پڑے آخری سانسیںلے رہے تھے۔ ان حالات میں بنک ڈکیتی اور چار معصوم خاتون بنک اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ پورے سویڈن کے علاوہ عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر گیا۔ کلارک کی بنک آمد کے بعد ایک نیا ڈرامہ شروع ہوا جس نے واقعہ کی نوعیت ہی بدل دی۔
کلارک اور اولسن نے یرغمالی خواتین سے سختی برتنے کے بجائے نرمی اور اور رحمدلی کا مظاہرہ کیا۔ اولسن نے سردی سے کانپتی کرسٹن این مارک کو اپنی اونی جیکٹ اوڑھنے کے لیے دی اور کہا کہ وہ ڈرے نہیں‘ میں اس کا دشمن ہرگز نہیں۔ ایک دوسری خاتون بریگٹن لینڈ بلید نے اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کرنا چاہا تو ہائی جیکر نے نہ صرف اسے اجازت دیدی بلکہ ایک بار رابطہ نہ ہونے پر تلقین کی کہ وہ بار بار کوشش کرے۔ ایلزبتھ ٹیلر کو اس نے صحن میں گھومنے پھرنے کی آزادی دی تاکہ اس کا کولسٹرول لیول درست رہے۔ یہ اس حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ بنک کی اوپر والی منزل میں محصور یرغمالی رفع حاجت کے لیے نچلے حصہ میں آنے جانے لگے اور پولیس نے انہیں یہاں رک کر کلارک اور اولسن کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور واپس ہائی جیکرز کے پاس چلے گئے۔ ایک سال بعد ایلزبتھ نے نیو یارک ٹائمز سے انٹرویو میں کہا:''مجھے اچھی طرح یاد ہے اولسن کا برتائو ہم سے بہت اچھا تھا‘ اس بنا پر ہماری ہمدردیاں اولسن اور کلارک کے ساتھ تھیں اور ہماری بہترین یادیں ان سے وابستہ ہیں‘‘۔
دوسرے دن مفرور مجرم اور یرغمالی ایک دوسرے سے گھل مل گئے‘ وہ ایک دوسرے کو دوستوں کی طرح پہلے نام سے پکارنے لگے ۔ یرغمالی اب ڈاکوئوں سے نہیں پولیس سے خوفزدہ تھے۔ جب پولیس کمشنر کو ڈاکوئوں نے احاطے میں داخلے کی اجازت دی تاکہ وہ یرغمالیوں سے ازخود مل کر ان کی ذہنی و جسمانی حالت کا جائزہ لے سکے تو اُسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یرغمالیوں کا رویّہ سرکاری عہدیدار سے سردمہری پر مبنی اور ہائی جیکرز سے دوستانہ تھا۔ پولیس کمشنر نے باہر آ کر اخبار نویسوں کو بتایا کہ یرغمالیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں کیونکہ اغوا کار اور اغوا شدگان ایک دوسرے سے اچھے تعلقات قائم کر چکے ہیں۔
این مارک نے وزیر اعظم اولف پالمے اور نوے سالہ بادشاہ ایڈولف کو فون کیا اور کہا ہماری زندگی خطرے میں ہے مگر آپ لوگ سیاسی کھیل میں مصروف ہیں‘ پولیس کی بجائے اغوا کاروں کی بات کیوں نہیں سنتے جن سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ میں کلارک اور اولسن پر مکمل اعتماد کرتی ہوں‘ انہوں نے ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں کیا: ''اولف ! مجھے خطرہ ڈاکوئوں سے نہیں پولیس سے ہے جو ہم پر حملہ کر کے ہمیں موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے‘‘۔
جب اولسن نے پولیس کو دھمکانے کے لیے ایک یرغمالی خاتون سیون سفسرام کی ٹانگ پر گولی ماری اور اسے زخمی کر دیا تو سفسرام کا رویّہ تبدیل نہیں ہوا۔ اُس نے ''نیو یارکر‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے ساتھ اس قدر مہربان تھا کہ اُس نے صرف میری ٹانگ کو نشانہ بنایا ورنہ وہ مجھے سر یا سینے پر بھی گولی مار سکتا تھا۔ این مارک نے اپنی ساتھی سے کہا :''سیون! دیکھو نا‘ اس بے چارے نے صرف تمہاری ٹانگ کا نشانہ لیا ورنہ ایسے مواقع پر کیا نہیں ہوتا‘‘۔ پانچ روز تک یہ ڈرامہ یونہی چلتا رہا۔ ڈیڈ لاک برقرار رہا اور پولیس نے بالآخر ایک دیوار میں سوراخ کر کے آنسو گیس پھینکی مگر اندر گھس کر جب ڈاکوئوں کو گرفتار کرنا چاہا تو چاروں یرغمالی ڈھال بن گئے اور انہیں اپنے پیچھے رکھ کر باہر آئے تاکہ پولیس ہائی جیکرز کو جسمانی نقصان نہ پہنچا سکے۔
کلارک اور اولسن جیل چلے گئے‘ یرغمالی انہیں ملنے کے لیے جیل جاتے رہے۔ یرغمالیوں کی باتوں سے متاثر دیگر خواتین دونوں قیدیوں کو ہمدردی کے خطوط لکھتیں اور ایک خاتون نے اولسن سے شادی بھی کر لی۔ اولسن نے قید سے رہائی کے بعد شادی کی اور تھائی لینڈ منتقل ہو گیا جہاں اس نے 2009ء میں اپنی خودنوشت سوانح حیات شائع کی جس کا عنوان تھا''سٹاک ہوم سینڈروم‘‘۔ گزشتہ بیالیس سال سے سٹاک ہوم سینڈروم کی اصطلاح نفسیات دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین کے درمیان موضوع بحث ہے۔
تاہم اس اصطلاح کو اہمیت ایک سال بعدنیو یارک کے میڈیا ٹائیکون ولیم اینڈ ولف ہرسٹ کی پوتی اور اینڈ ولف اے ہرسٹ کی بیٹی پیٹریسیا کیمپبل ہرسٹ کے واقعہ سے ملی جسے سیمبونیز لبریشن آرمی نے اغوا کیا‘ مالدار والدین سے تاوان مانگا اور تاوان کی ادائیگی کے باوجود رہا نہ کیا کیونکہ ہرسٹ نے اعلان کیا کہ وہ لبریشن آرمی کو جوائن کر چکی ہے اور اب بنک ڈکیتیوں میں اپنے دوستوں کا ساتھ دے گی۔ 1976ء میں گرفتار ہونے کے بعد اس نے کئی وارداتوں کا اعتراف کیا اور سزا یاب ہوئی۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کو درپیش خطرہ‘ حملہ آوروں کی طرف سے ہلکی پھلکی مہربانی ‘زندہ رہنے کی خواہش‘ گردو پیش سے لاتعلقی اور تنہائی اور فرار ہونے کی اہلیت کے فقدان کی بنا پر اچھا بھلا جیتا جاگتا انسان سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار ہو کر زیادتی کے مرتکب افراد کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا شکار ہو جاتا ہے ‘وہ انہی کے بیانیے کو اپنا بیانیہ بنا لیتا ہے اور ان کے تصورات کے تناظر میں تمام معاملات حتیٰ کہ دنیا کا جائزہ لیتا ہے‘جو ایک نفسیاتی مرض ہے صحت مند رویہ نہیں۔
پاکستان میں حالیہ بلدیاتی اور ماضی کے عام انتخابات میں ایسے بدنام زمانہ لوگوں کی وسیع پیمانے پر کامیابی جن پر قتل‘ ڈکیتی‘ اغوا برائے تاوان‘ لوٹ مار‘ بھتہ خوری اور آبرو ریزی کے سنگین الزامات ہیں اور جو معاشی و سماجی استحصال کی شہرت رکھتے ہیں گرما گرم بحث و مباحثے کا موضوع ہے اور ڈھٹائی سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر ہماری حکمران اشرافیہ واقعی کرپٹ‘ ظالم اور عوام دشمن ہے‘ اس نے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘ اس کا ایک حقیر حصہ بھارت کا آلہ کار اور ننگ ملّت‘ننگ دیںننگ وطن ہے تو پھر عوام آخر اسے بار بار اپنے مینڈیٹ سے کیوں نوازتے ہیں؛سرنگ کی دوسری طرف موجود روشنی سے فیضاب کیوں نہیںہوتے؟
یہی سوال سٹاک ہوم کے بنک میں یرغمالی بننے والی خواتین اور پیٹی ہرسٹ سے کیا جاتا رہا اور آزاد و بیدار مغز معاشروں میں آج تک ہو رہا ہے مگرجو اب ہر طرف سے ایک ہی ملتا ہے مجبوری‘ بے بسی ‘ جان‘ مال اولاد‘ عزت و آبرو اور مستقبل کو درپیش خطرات‘ اردگرد سے لاتعلقی ‘ فرار ہونے کی اہلیت سے محرومی اور قاتلوں ‘ ڈاکوئوں‘ ظالموں‘ چوروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘رسّہ گیروں اور لٹیروں کی ہلکی سی مہربانی اور زبانی کلامی ہمدردی عوام کو مسحور کر دیتی ہے اور وہ دشمن کو اپنا حقیقی بہی خواہ سمجھنے لگتے ہیں حتیٰ کہ آزادی‘ بیداری اور تبدیلی کا نعرہ انہیں سراب لگتا ہے اور وہ قفس کو باغباں اور صیّاد کو مہربان جانتے ہیں ع
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے‘ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
یہ درندے ووٹ نہ دینے پر کسی کی ماں بہن‘ بہو بیٹی کی عزت لوٹ لیں‘ حکم نہ ماننے پر ناک کان کاٹ لیں یا محنت مزدوری کا معاوضہ مانگنے پر سرعام چھترول کرائیں‘ مظلوم زبان کھولتا ہے نہ رائے بدلتا ہے۔ ظالم کے ساتھ گہری وابستگی ‘جذبہ ہمدردی اور محبت میں بدل چکی ہے۔ سٹاک ہوم سینڈروم سے نجات ملے تو کوئی کچھ سوچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں