جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی عدالت میں گزشتہ روز جو تماشہ لگا‘ پولیس کے تفتیشی افسر اور رینجرز کے وکیل جس طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے‘ کسی اور کے لیے ہو نہ ہو ‘وہ میرے لیے قابل فہم ہے۔ ہماری سول اور فوجی حکمران اشرافیہ ملک کو جس مقام پر لے آئی ہے‘جس محنت اور مہارت سے مافیاز کی پرورش اور سرپرستی کی گئی اور سیاست و جرم میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا ‘اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
میں ذاتی طور پر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف ہوں نہ رینجرز کو فرشتوں میں شمار کرتا ہوں؛ تاہم ڈی جی رینجرز یا کسی دوسرے افسر کی ڈاکٹر عاصم حسین سے ذاتی ‘ خاندانی دشمنی یا کاروباری رقابت کے شواہد اب تک سامنے نہیں آئے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ کو آسانی سے رد کرنا مشکل ہے جس کی روشنی میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اُن پر دہشت گردوں سے رابطوں‘ ان کے علاج معالجے اور تعاون کا الزام لگا۔
سندھ پولیس کی شہرت؟عیاں را چہ بیاں۔ بدنام پنجاب پولیس بھی بہت ہے مگر سندھ پولیس اس سے چار قدم آگے ہے۔ سندھ پولیس کی نااہلی‘ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی اور رشوت ستانی سے تنگ آ کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں کراچی کو رینجرز کے حوالے کیا ۔میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے ادوار حکومت میں بھی رینجرز کراچی میں موجود رہے کیونکہ کسی نے سندھ پولیس کی حالت سدھارنے ‘ اس کی کارگزاری بہتر بنانے پر توجہ دی نہ اسے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے بجائے عوام کے محافظ کے طور پر اپنے فرائض بجا لانے پر مجبور کیا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں تیسری حکومت کو بھی رینجرز کی جگہ پولیس کی ضرورت اس وقت پڑی جب سابق صدر آصف علی زرداری کے رفیق کار اور یار طرح دار ڈاکٹر عاصم حسین پکڑے گئے اور رینجرز کے تفتیش کاروں نے ان سے اگلوایا کہ وہ لیاری گینگ اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کے مددگار اور سہولت کار رہے ہیں۔
پاکستان میں جرم صرف وہ ہے جو کوئی کمزور‘ بے وسیلہ اور حالات کا مارا شخص کرے‘ غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کرکسی مافیا کے ہتھے چڑھ کر یا بڑوں کی دیکھا دیکھی قانون کو دھوکہ دینے کے لیے ۔طاقتور‘ باوسیلہ اور بارسوخ شخص اگر یہی کام بڑے پیمانے پر کرے تو یہ اس کا پیدائشی حق ہے اور کوئی عدالت‘ حکومت حتیٰ کہ ریاست اس سے باز پرس کا حق رکھتی ہے نہ طاقت۔ آصف علی زرداری کے کیس میں ریاست اور عدالت دونوں اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں کیونکہ مدعی اور ملزم دونوں میں گٹھ جوڑ ہو گیا اس لیے عدالت نے ملزم کو اس بنا پر بری کر دیا کہ اس کے سامنے اصل دستاویز پیش نہیں کی گئی۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ ملزم کو بری کرنے کے بجائے استغاثہ کو اصل دستاویزات پیش کرنے پر مجبور کرنے میں کیا رکاوٹ تھی۔
پاکستان میں مار دھاڑ‘ لوٹ مار اور قومی اداروں کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ بڑے مجرموں کو ہمیشہ معزز‘ قابل احترام اور قانون کے لیے ناقابل رسائی سمجھا گیا۔ بکری چور کی گرفتاری کے وقت پہلے بوڑھے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کے سامنے‘ پھر حوالات میں چھترول ہوتی ہے مگر مہران بنک کو دیوالیہ اور کمرشل‘ زرعی و صنعتی بنکوں اور قومی مالیاتی اداروں کو کنگال کرنے والوں کی ہر جگہ آئو بھگت کا رواج ہے ‘یہ اگر پکڑے بھی جائیں تو ان کو جیلوں میں سرکار کا داماد سمجھ کر شاہی پروٹوکول ملتا ہے اوررہائی پر اعلیٰ حکومتی منصب بھی۔
جس طرح کسی زمانے میں اٹلی اور میکسیکو مافیاز کے لیے جنت تھے اب پاکستان بھی شوگر مافیا‘ لینڈ مافیا‘ بھتہ مافیا‘ اغوا مافیا‘ سمگلنگ مافیا اور منشیات مافیا کے علاوہ نادہندہ مافیا کے لیے جنت ہے۔ کوئی بھی طاقتور شخص کسی سرکاری ادارے اور قومی بنک کولوٹ کر یا غیر قانونی کاروبار سے کروڑوں اربوں کما کر کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوتا‘ حرام کی کمائی پارٹی فنڈ اور قائد محترم کی جیب میں انڈیلتا اور ٹکٹ خرید کر کسی منتخب ایوان کا رکن بن جاتا ہے‘ اس کے بعد وہ کروڑوں‘اربوں کا نادہندہ ہو‘ کسی اغوا کار گروہ کا سرپرست ‘دہشت گردوں کا معالج وسہولت کار یا بھتہ خوری میں ملوث‘ اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ بھارت سے مالی مدد اور تربیت کا الزام لگنے پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عاصم حسین اپنی جگہ سچّے ہیں۔ جب ایان علی ‘تافی بٹ اورعماد زبیری کے ذریعے اربوں روپے بھارت‘ سپین‘ دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے اور سٹیل ملز ‘ ریلوے ‘ پی آئی اے‘ این آئی سی ایل سے اربوں بلکہ کھربوں روپے لوٹنے والوں کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا؛لاہور‘ اسلام آباد اورکراچی کا لینڈ مافیا اب تک احتساب و مواخذے سے محفوظ ہے‘ صولت مرزا کی طرح ممتاز زرداری ‘ محمد علی شیخ‘ سلطان قمر صدیقی اور معظم علی کے اعترافی بیانات کی روشنی میں ایک بھی بڑے مگرمچھ پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا‘ ایک ایک کر کے منظور کا کا کی طرح سب سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک چلے گئے‘ سانحہ ماڈل ٹائون کے کسی بڑے ملزم کو کوئی سزا ملی ہے نہ پی آئی سی میں ناقص ادویات سے قیمتی جانوں کے ضیاع کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا تو پھر اکیلے عاصم حسین سزا کیوں بھگتیں۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں چور اور چوکیدار مل چکے ہیں اور کوئی دوسرا اس ملی بھگت کا پردہ چاک کرے تو جمہوریت کا دشمن قرار پاتا ہے۔ اٹلی میں مافیاز کو اس بہانے سرپرستی ملی کہ کہیں کمیونسٹ ‘ جمہوریت کا قلع قمع نہ کر دیں۔ یہ مافیاز ریاست اور اس کے اداروں کو تباہ کرنے پر تُل گئے ۔پاکستان میں بھی جمہوریت کے بچائو کے نعرے پر سارے مافیاز اکٹھے ہو کر فوج اور رینجرز کو بے توقیر کر رہے ہیں۔اقتصادی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے خلاف موجودہ آپریشن میں رکاوٹ اسی بہانے ڈالی جا رہی ہے اور تماشہ جاری ہے۔
سلطان محمود غزنوی کا ایک واقعہ میں ایک بار کالم میں لکھ چکا ہوں جس کے مطابق دربار میں ایک اجنبی داخل ہوا اور بولا کہ آپ کا ایک بھانجا روزانہ میرے گھر آ کر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے اور غزنی میں کوئی میری فریاد سننے والا نہیں۔ انصاف کیجیے۔
بادشاہ نے سائل سے کہا کہ جب یہ نوجوان دوبارہ تمہارے گھر آئے تو مجھے خبر کرنا‘ میں خود اس نوجوان سے نمٹوں گا۔ دو دن بعد ایک رات سائل پھر حاضر ہوا اور بتایا کہ وہ نوجوان میرے گھر میں گھس کر داد عیش دے رہا ہے۔ بادشاہ اس کے ہمراہ سائل کے گھر پہنچا‘ نوجوان بدستور موجود تھا۔ بادشاہ نے آنکھیں بند کر لیں اور کوئی سوال کیے بغیر خنجر سے اس کا سر قلم کر دیا۔ بعدازاں آنکھیں کھولیں' روشنی میں مقتول کا چہرہ دیکھا' الحمد للہ کہا اور پانی طلب کیا۔
سائل نے شکریہ ادا کرنے کے بعد باصرار پوچھا کہ بند آنکھوں سے وار کرنے‘ چہرہ دیکھ کر الحمد للہ کہنے اور پانی طلب کرنے کا مقصد کیا تھا۔ بادشاہ نے بتایا کہ میں نے آنکھیں اس لیے بند کر رکھی تھیں کہ کہیں بھانجے کو دیکھ کر مجھے رحم نہ آئے۔ الحمد للہ اس لیے کہا کہ یہ میرا بھانجا نہ تھا اور پانی میں نے اس لیے طلب کیا کہ تمہاری شکایت سننے کے بعد میں نے اپنے اوپر کھانا پانی حرام کر رکھا تھا‘ اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد شدید پیاس بجھائی۔
پاکستان کو اس وقت ایسے ہی کسی حکمران‘ منصف اور منتظم کی ضرورت ہے جو قانون کو واقعی اندھا سمجھے اور قانون کا کوڑا چلاتے وقت ہرگز یہ نہ دیکھے کہ ملزم اور مجرم کوئی سیاستدان ہے‘ بیورو کریٹ ‘ صنعت کار‘ سردار ‘ وڈیرہ ‘ جج ‘ جرنیل یا جرنلسٹ ۔ جس نے جرم کیا ہے اس کی سزا بھگتے اور محض اس بنا پر رعایت کا مستحق قرار نہ پائے کہ وہ کسی طاقتور ‘ بارسوخ اور حکمران کا قریبی دوست رشتہ دار یا فرنٹ مین ہے۔ عاصم حسین کی خاطر زرداری ‘ قائم علی شاہ اور ان کے حلیفوں نے کراچی کا امن دائو پر لگا دیا‘ پولس اور رینجرز کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ۔ اٹلی میں مافیاز اور حکومت کی ملی بھگت نے انارکی اور عدم استحکام کے گل کھلائے تھے۔ پاکستان پر اللہ تعالیٰ رحم کرے۔
یہ پچھلے سال شائد نواز حکومت کا ساتھ دینے کی قیمت ہے ۔فوج اور رینجرز کے لیے اب باعزت راستہ ایک ہی ہے کہ کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لائے یا سارے معاملات بالخصوص امن و امان کا قیام قائم علی شاہ اور ان کے سرپرستوں کے سپرد کر کے بیرکوں کو سدھار جائے‘ پھر دہشت گرد جانیں اور یہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے بہادر۔