16دسمبر سے 16دسمبر تک

کسی اور کے لیے ہو نہ ہو میرے جیسے سادہ لوح پاکستانیوں کے لیے دسمبر دُکھ ‘ درد‘ صدمے‘ اذیت اور تاسّف کا استعارہ ہے۔ یہی دسمبر تھا جس کی 16تاریخ کو دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست نے ڈھاکہ میں‘ جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ‘بھارت کے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی شرمناک دستاویز پر دستخط کیے۔ جواہر لال نہرو کی سپتری اندرا گاندھی سے یہ طعنہ سنا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اور یہی سیاہ دن تھا جب 2014ء میں وحشی درندوں نے پشاور میں ہمارے پھول سے بچوں ‘ قوم کے لعل و گہر کو اپنی وحشت اور سفاکیت کا نشانہ بنا کر ایک بار پھر احساس دلایا کہ جنگ جاری ہے اور پاکستان کے وجود کو مٹانے اور پاکستانیوں کے عزم و حوصلہ کو پست کرنے کی خواہش ختم نہیں ہوئی۔
فیض صاحب نے برسوں قبل کہا تھا ؎
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحرائوں کو گلزار کریں
1971ء سے 2014ء تک ارض وطن کے عارض بے رنگ کو گلنار کرنے کے لیے کتنوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا شمار کرنا چاہیں تو کر نہیں سکتے۔ سربلند و سرخرو شہیدوں کی ایک طویل قطار ہے جو ارض وطن پر نثار ہوئی کبھی بھارتی فوج اور اس کے ساختہ پرداختہ مکتی باہنی کے گوریلوں اور عوامی لیگ کے اخلاق باختہ غنڈوں کے ہاتھوں اور کبھی باقی ماندہ پاکستان کی شکست و ریخت کے خواہش مند مذہبی‘ نسلی‘ لسانی دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں۔ چٹا گانگ‘باریسال‘ جیسور کے کوچہ و بازار میں‘ ڈھاکہ کے پھانسی گھاٹ پر اور پشاور کے آرمی پبلک سکول میں۔ شہیدوں کے نام مختلف ہیں‘ عمر میں تفاوت اور جنس الگ مگر مقصد‘ جذبہ اور عزم یکساں‘ کوئی بھارتی فوج اور مکتی باہنی کی گولی کا نشانہ بنا‘ کسی کو قاتل حسینہ کے جذبہ انتقام نے نخل دار پر لٹکایا اور کچھ خودکش حملہ آوروں کا ہدف بنے۔ اتنی شہادتوں سے دشمن کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا ہے نہ خطۂ بنگال سے ارض پشاور تک کسی کے آنسورکے نہ سر جھکے نہ عزم و ارادے کمزور پڑے۔ کم عمر خولہ سے نوّے سالہ غلام اعظم تک بزدل و مکار دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔
افسوس یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم ان قربانیوں کی صحیح معنوں میں قدر کی نہ اتنے بڑے سانحات سے قرار واقعی سبق سیکھا۔نظریہ کو یوں بھولے کہ آصف زرداری‘ میاں نواز شریف اور عمران خان تینوں کو پاکستان اور بھارت کے کلچر میں کوئی فرق نظر آتا ہے نہ تاریخ‘ ورثے اور کھانے پینے میں۔ لوگ کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے کہ جس قوم کو جگانے اور اتحاد و یکجہتی ‘ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنے کے لیے 1965ء کی جنگ سقوط مشرقی پاکستان‘ بشام‘ مظفر آباد اور بالا کوٹ کے زلزلے‘ 2010ء کے تباہ کن سیلاب اور 2014ء کے سانحہ آرمی پبلک سکول کی ضرورت پڑے اس کی زود فراموشی اور زیاں کاری میں کیا کلام۔1971ء سے اب تک قوم کی آہوں اور سسکیوں سے سنگ صفت فیصلہ سازوں کا دل موم ہوا نہ آنسوئوں کی بارش سے صحرائے وطن گلزار ہوئی۔ایک سال پہلے بلکہ چوالیس سال پہلے بھی ریاست میں سیاست کا کھیل قومی مفاد پر غالب تھا اور آج بھی صورتحال مختلف نہیں۔
1957ء میں سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے تعلقات خراب ہوئے تو سوویت قیادت نے چین میں کام کرنے والے اپنے تمام انجینئروں ڈاکٹروں‘ کاریگروں اور سائنس دانوں کو واپس بلا لیا اور چاہا کہ چین اس کے سامنے سجدہ ریز ہو مگر مائوزے تنگ نے فیصلہ کیا ہم خود انحصاری اور خود کفالت کی راہ اپنائیں گے اور اگلے دس سال میں دس بڑے منصوبے مکمل کریں گے۔ جن میں سے ایک ایٹمی قوت بننا بھی تھا۔1959ء میں انقلاب چین کی دسویں سالگرہ تھی۔ یہ تقریبات منانے کے لیے گریٹ پیپلز ہال کی تعمیر کا فیصلہ ہوا جوبغیر ستونوں کے وسیع و عریض چھت کی وجہ سے دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔اکتوبر 1959ء میں تقریبات اس عمارت میں ہوئیں جو اڑھائی سال کی مختصر مدت میں مکمل ہوئی۔ جبکہ اگلے تین چار سال میں چین ایٹمی قوت بھی بن گیا۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جو قومی اتفاق رائے وجود میں آیا اسے دیکھتے ہوئے ہر پاکستانی کی یہ آرزو تھی اور توقع بھی کہ اب یہ معاشرہ بدلے گا‘ اس کے لیل و نہار میں جوہری تبدیلی آئے گی سیاست‘ معیشت‘ حکومت ‘ معاشرت اور انداز فکر مختلف ہو گا اور 16دسمبر1971ء کا بھولا ہوا سبق اب یاد آیا ہے تو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے مگر گزشتہ ایک سال میں کیا بدلا بقول جالب ؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اپنا حلقہ ہے‘ حلقہ زنجیر
اور حلقے ہیں سب وزیروں کے
1971ء میں محب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو مغربی پاکستان میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ 1962میں جواہر لال نہرو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی پیشکش کرنے اور مشہور زمانہ اگر تلہ سازش کے ذریعے پاکستان میں بغاوت کے بیج بونے والے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ فوجی آپریشن پر تبّرا ہوا اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو فوج کا ایجنٹ قرار دے کر بدنام کیا گیا۔2014ء میں آپریشن ضرب عضب اور سانحہ اے پی ایس کے بعد کراچی میں رینجرز آپریشن کو جمہوری اورآئینی حقوق کے نام پر ناکامی سے دوچار کرنے کی سازشیں جاری ہیں اور سندھ کی منتخب حکومت کے علاوہ صوبائی اسمبلی ان سازشوں کا حصہ ہے جبکہ فوجی قیادت کے انتباہ کے باوجود رینجرز کے ہاتھ پائوں باندھے جا رہے ہیں۔رینجرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں کو ازخود گرفتار نہیں کر سکتی اور صوبائی حکومت کورینجرز کے پیش کردہ ثبوتوں کو مسترد کرنے کا اختیار ہو گا۔
سانحہ اے پی ایس کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بھی نمائشی اقدامات پر زور ہے۔148سرکاری سکولوں کو شہداء سے منسوب کیا گیا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان کے ہر ضلع میں آرمی پبلک سکول معیار کے نئے تعلیمی ادارے قائم ہوتے۔کم از کم تین سال تک ترقیاتی منصوبے منجمد کر کے سارے وسائل دہشت گردی‘ جہالت اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے مختص کیے جاتے کیونکہ تعلیم اور شعورو آگاہی کے علاوہ غربت و افلاس کے خاتمے سے ہی دہشت گردی اور سنگین جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: کادالفقران یکون کفراً(مفلسی انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے) مگر ہمارے ہاں نمائشی منصوبوں کے لیے وسائل ہیں جن سے حکمران اشرافیہ کے بنک اکائونٹس اور اثاثوں میں اضافہ ہو سکے تعلیم‘ صحت ‘ روزگار اور ازالۂ غربت کے لیے خزانہ خالی ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کے جن بنگالیوں اور بہاریوں نے علیحدگی اور بغاوت کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی‘ پاک فوج کا ساتھ دیا اور بھارت نواز عناصر کی دشمنی مول لی وہ نشان عبرت بن گئے۔ قاتل حسینہ اب تک ان سے انتقام لے رہی ہے ہر ہفتے دو ہفتے بعد پاکستان کا کوئی نہ کوئی وفادار‘ دار کی ٹہنی پر لٹکایا جاتا ہے۔ بہاریوں کو جس قدر ذلت اور اذیت کی زندگی بسر کرنا پڑ رہی ہے اس کا تصوّر کر کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں اور فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے حکیم سعید‘ سید صلاح الدین اور دیگر محب وطن شہریوں کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو بہاریوں اور بنگالیوں سے مکتی باہنی‘ عوامی لیگ کے غنڈوں اور حسینہ واجد کی حکومت نے روا رکھا اور آج بھی سندھ حکومت و اسمبلی محض چند لٹیروں کو بچانے کے لیے رینجرز کے ہاتھ پائوں باندھ کر دہشت گردوں‘ ان کے مالی سہولت کاروں اور ٹارگٹ کلرز کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب پر قومی اتفاق رائے سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور دسمبر ایک بار پھر دکھ‘ درد‘ صدمے اور تاسف کا استعارہ بنتا نظر آتا ہے، خدا نہ کرے کہ ہم ایک زیاں کار اور زود فراموش قوم کے طور پر اس اتفاق رائے ‘ عزم و ارادے اور جذبہ و احساس کو ضائع کر بیٹھیں جو آرمی پبلک سکول کے خون کا صدقہ اور شمالی وزیرستان سے کراچی اور بلوچستان تک جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ کیاہم ان قربانیوں‘ جذبوں‘ عزائم اور احساسات کو ضائع کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں