شرم تم کو مگر نہیں آتی

سچا کون؟ رینجرز کے تفتیش کار؟ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم؟ ڈی ایس پی الطاف حسین؟ سندھ حکومت یا اس کے موقف پر انگوٹھا لگانے والے عوامی نمائندے؟ فاضل عدالت نے تفتیشی افسر الطاف کی رپورٹ مسترد کر کے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ اصول‘ اور قوانین عرصہ درازسے رائج ہیں۔ انگریز سے آزادی حاصل کرتے وقت عوام کو اُمید تھی کہ اب ملک میں عدل و مساوات کا دور دورہ ہو گا‘ گورے اورکالے میں تمیز ہو گی نہ کمزور اور طاقتور میں کوئی تفریق روا رکھی جائیگی مگر انگریز کے گھوڑے نہلانے اور ان کے کتوں کا منہ چاٹنے کے عادی ہمارے اپنے حکمرانوں نے انصاف کا وہ نظام بھی غارت کر دیا جس میں سنگین جرائم میں ملوث بڑے اور چھوٹے کو یکساں نوعیت کی سزا ملتی تھی۔
بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اشرافیہ نے آزادی غیر ملکی استعمار اور استبداد سے نہیں‘ بہتر طرز حکمرانی اور اچھے بھلے نظام انصاف سے حاصل کی تھی ۔راجوں‘ راجواڑوں کی بحالی اور دور ملوکیت میں رائج ظلم وناانصافی کے غیر انسانی نظام کا احیا ان کا مطمح نظر تھا چنانچہ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ان ظالموں نے ڈھٹائی اور بے حیائی سے کبھی جمہوریت اور کبھی فوجی آمریت کے پردے میں اپنے عزائم پورے کئے۔ جو تھوڑی بہت جھجک باقی تھی وہ موجودہ برسر اقتدار مافیا کے گٹھ جوڑ سے ختم ہو گئی۔ بے حیا باش و ہرچہ خوا ہی کن۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ڈاکٹر عاصم حسین کے تفتیشی افسر الطاف حسین نے جو کہا وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ ''ملزم نے الزامات کو غلط قرار دیا ہے ‘‘ ''سابقہ تفتیشی جانبدار تھا ‘‘اور ''مجھے ملزم کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ گویا دیگر مقدمات میں ملزمان اپنے خلاف الزامات کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ تفتیشی ہمیشہ الطاف حسین کی طرح ''غیر جانبدار‘‘ ہوتا ہے اور جونہی کوئی ملزم کسی تفتیشی افسر کے سپرد ہوتا ہے کسی قسم کی تگ و دو اور تفتیش کیے بغیر ثبوت مل جاتے ہیں ۔اسی بنا پر جیلیں سزا یافتہ لوگوں سے بھری پڑی ہیں اور معمولی مرغی چور‘ موبائل چور اور کسی خونخوار وڈیرے کے کھیت سے گنا یا گاجر مولی چوری کرنے والے برس ہا برس سے ضمانت کے منتظر ہیں۔ بعض مرد و خواتین تو ایسے بھی ہیں جو پوری سزا بھگتنے کے باوجود کاغذی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے جیلوں میں پڑے موجودہ سیاسی‘ جمہوری‘ سماجی ‘معاشی‘ تفتیشی اور عدالتی نظام کو ''دعائیں‘‘ دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے معلوم نہیں کس ترنگ میں آ کر کہا کہ صرف ''میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے سے کام نہیں چلے گا‘ عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے‘‘ مگر میاں صاحب کو کون یاد دلائے کہ عرصہ دراز سے تو عوام کو یہی لوری سنائی جا رہی ہے کہ عوام کے جملہ امراض کا علاج موجودہ بسیار خور جمہوریت ہے یا پھر میٹرو بسیںاور اورنج ٹرینیں۔ خوراک‘ تعلیم‘ صحت‘ انصاف‘ روزگار اور امن کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے نہ عوام کی ضرورت۔ پنجاب میں گورننس سندھ سے کہیں بہتر ہے مگر یہاں بھی صورتحال یہ ہے کہ لاہور شہر میں بچوں کے اغوا میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پولیس اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگی ہے۔ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں براتیوں کی بس دن دیہاڑے لوٹ لی گئی اور تاحال ڈاکوئوں کا پتہ نہیں چلا۔ لوگ بچوں کو سکول اور بازار بھیج کر سولی پر لٹکے رہتے ہیں کہ اللہ کرے خیرو عافیت سے واپس پہنچ آ جائیں۔
سندھ میں تو حالت کئی گنا خراب ہے۔ تھانے پنجاب میں بھی بکتے ہیں مگر سندھ میں زیادہ تعداد میں اور 1989ء سے اب تک کراچی میں رینجرز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس عوام کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے نہ شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کے قابل اور نہ تاجروں‘ صنعت کاروں کو اغوا کاروں ‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرزسے بچانے پر قادر۔ اس سندھ پولیس کے ہنر کا شاہکار تفتیشی الطاف حسین ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی خوش نصیبی میں تو کسی کو کلام نہیں کہ وہ آصف علی زرداری کے یار وفادار اور حد درجہ مالدار ہیں مگر ان کی خوش قسمتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رینجرز اور نیب کے قیدی ہیں جو پاکستانی روایت کے مطابق طاقتور لوگوں سے دوران حراست بھی وہ سلوک نہیں کرتی جو کمزوروں سے سندھ پولیس کرتی ہے۔ اگر حکومت پیپلز پارٹی کے بجائے قاعدے قانون اور آئین کی پابند کسی پارٹی کی ہوتی‘ ڈاکٹر صاحب الطاف حسین سے بھی نچلے درجے کے کسی تفتیشی کے ہاتھ چڑھتے اور ان کی خاطر ریاست‘ وفاق‘ فوج اور رینجرز کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا کوئی مرد حُر سفارشی نہ ہوتا تو لوگ دیکھتے کہ انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع کون فراہم کرتا ہے۔ غلام حسین انہڑ تو ظلم کی داستان بیان کرنے کے لیے زندہ نہیں مگر کئی دوسرے موجود ہیں جو سندھ پولیس کی ''غیر جانبداری ‘‘اور'' انسان دوستی‘‘ کا مزہ چکھ چکے ہیں۔
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ شہادتوں اور ثبوتوں کے بغیر کسی کو لٹکا دیا جائے ۔ جس نے جرم نہیں کیا اس سے زیادتی رینجرز کوکرنی چاہیے نہ پولیس اور نیب کو مگر جس انداز میں ڈاکٹر عاصم حسین کو اس پولیس کی طرف سے ریلیف مل رہا ہے جس کا سامنا کرتے ہوئے شریف شہری سو بار سوچتے اور اللہ کی پناہ مانگتے ہیں وہ محل نظر ہے۔ اپنے ایک یار وفادار کی خاطر کراچی کے شہریوں کو جس طرح اسی پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے ارادے ہیں جو اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی شریک جرم ہے‘ اس سے پاکستان کی اقتصادی و معاشی شہ رگ کا ہر باسی خوفزدہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے پولیس پر اعتماد کیا۔اب سید قائم علی شاہ کو چاہیے کہ وہ بھی اتنی اچھی کار گزاری دکھانے والی پولیس کو شہر کا امن و امان وزیر اعلیٰ ہائوس اور بلاول ہائوس کی سکیورٹی سونپیں اور ثابت کریں کہ وہ رینجرز کے محتاج نہیں ۔مگر سب جانتے ہیں کہ شاہ جی اتنے سادہ لوح نہیں کہ وہ اپنی ناتواں جان خطرے میں ڈالیں یا رینجرز کو واپس بھیج کر اپنی حکومت کو ایکسپوز کریں۔
ناانصافی اور جبرو استحصال کا یہ نظام اس بنا پر پھل پھول رہا ہے کہ یہاں سندھ‘ پنجاب اور وفاق کے چہیتے ڈاکٹر عاصم حسینوں کے لیے قوانین الگ ہیں اوربے آسرا غریب غلام حسین کے لیے بالکل الگ۔ لوگوں کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان میں ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی بسر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حلال حرام کی تمیز روا رکھے بغیر خوب مال بنائو‘ قومی خزانہ لوٹو‘ بینکوں اور قومی اداروں کو کنگال کرو‘ عوام کی بچتوں پر ڈاکہ ڈالو ‘کسی طاقتور خاندان کو دے دلا کر قربت حاصل کرو‘ پارلیمنٹ کی رکنیت‘ وزارت‘ مشاورت اینٹھو اور پھر ریاست‘ آئین‘ قانون کی ایسی تیسی پھیر دو‘ کوئی پوچھ سکتا ہے نہ قانون بال بیکا کرنے کے قابل۔ مہنگا وکیل صفائی اور دست بستہ تفتیشی افسر بے گناہی کے دلائل و شواہد دینے کے لیے حاضراور ہاں بھاری معاوضے پر کسی دہشت گرد گروہ کی طرف سے تحفظ کی ضمانت بھی۔دوران اقتدار حسن سلوک سے متاثر میڈیا بھی یقیناً حق دوستی ادا کریگا کہ رسم دنیا بھی ہے‘ موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب پر الزام ان دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو ہسپتال میں پناہ دینے اور علاج معالجے کا ہے جن کے ہاتھ کراچی کے بے گناہ شہریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گناہگار ہیں یا بے گناہ؟ یہ فیصلہ تو عدالتیں کریں گی مگرزیر علاج ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کی گولیوں اور بموں کا نشانہ بننے والے سارے بے گناہ تھے اور ان کا لہو محض اس بنا پر رزق خاک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خاک نشیں تھے۔ غالباً یہی احساس کرتے ہوئے عدالت نے تفتیشی افسر کی بے سروپا رپورٹ مسترد کر دی ۔ڈی ایس پی الطاف حسین کی ساری محنت اکارت گئی اور مولا بخش چانڈیو کو مایوسی ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب نے پیشی کے موقع پر مجروح سلطان پوری کا انقلابی شعر پڑھا ؎
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
سندھ حکومت اور پولیس کی تمام تر مہربانیوں کے باوجود عاصم حسین کو ظلم کی سیاہ رات کا شکوہ ہے۔ اخبار نویسوں میں کوئی سخن شناس ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کو انسان دوست شاعر فیض احمد فیض کی طرف متوجہ کرتا ؎
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا‘ نہ دماغ 
نہ مدعی‘ نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
ساحل سمندر پر چُلّو بھر پانی میں ڈوبنے کا مشورہ آدمی کس کو دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں