مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی

جہانگیر خان ترین کی کامیابی پر عمران خان کی خوشی دیدنی ہے۔ گزشہ رات فون پر بات ہوئی تو وہ الحق الحق کا ورد کر رہا تھا۔ جہانگیر ترین اور ووٹروںنے اس کے اعتماد کی لاج رکھی اور تحریک انصاف کے علاوہ سیاست میں اپنے مخالفین کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔میں مگر متاثر کامیابی کی خوشی میں عمران خان کے خطاب سے ہوا۔ اسوۂ رسول ﷺ سے کارکنوں کو سبق حاصل کرنے کی تلقین اور جشن ولادت مصطفی ﷺ کا بار بار ذکر۔
جہانگیر ترین کی شہرت ارب پتی کی ہے مگر مقابلے میں بھی کوئی حسرت موہانی‘ یا ڈاکٹر نذیر احمد نہ تھا۔ درویش خدا مست وفقیر بے نوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے جملہ وسائل۔ دھن دولت کے انبار‘ گیس اور بجلی کے کنکشن پٹواری‘ نائب تحصیلدار‘ کانسٹیبل اور اے ایس آئی کی نوکریاں زکوٰۃ فنڈ‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور کسان پیکیج کی نقد رقوم۔ ایک سال پہلے بننے والی سڑکیں گلیاں کھود کر دوبارہ تعمیر ہوئیں تاکہ ٹھیکیداروں کو مالی فائدہ ہو اور وہ صدیق بلوچ کی انتخابی مہم میں درمے‘ درمے ‘ سخنے حصہ لے سکیں۔
تھانے‘ کچہری میں جتنی سرکاری امیدوار اور اس کے حمایتی ایم این ایز‘ ایم پی ایز اور منتخب کونسلروں کی چلتی ہے وہ جہانگیر ترین تو درکنار‘ اس سے بڑے سرمایہ دار اورجاگیر دار کی نہیں چل پاتی کہ بہرحال تعلق اپوزیشن سے ہے۔ کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والے بہت سے عوامل کا ذکر برادرم ہارون الرشید اور سلمان غنی نے اپنے تجزیوں میں کر دیا۔ دو چار مزید ہیں جن پر اگر غور نہ کیا جائے تو جہانگیر ترین کی کامیابی محض دولت کی ریل پیل کا نتیجہ نظر آتی ہے اور لودھراں کی حلقہ جاتی سیاست کا مکمل ادراک نہیں ہو پاتا۔
جہانگیر ترین ‘ چودھری سرور اور ان کے ساتھیوں نے پہلی بار یہ الیکشن صرف جیتنے کے جذبے سے لڑا۔ عمران خان نے بھی پوری توجہ دی‘ لودھراں میں ٹک کر بیٹھے اور سنجیدگی دکھائی۔ شائد گھریلو مسائل سے چھٹکارا پانے کے بعد اب وہ انتخابی سیاست میں یکسو ہیں ۔ جہانگیر ترین نے ارائیں برادری‘ رانا برادری‘ کانجو برادری اور سادات بخاری کو اپنے اثرورسوخ ‘ میل ملاپ اور منکسر مزاجی سے دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا غالب حصہ ترین کا طرفدار تھا۔ یہ تقسیم چمک کا نتیجہ نہیں بعض زمینی سیاسی حقائق و حالات کا جبر تھا۔
مجھے ملتان میں روزنامہ دنیا کے اجراء کی تقریب کے دوران عبدالرحمن خان کانجو نے بتایا تھا کہ مقابلہ ہو گا اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت صدیق خان بلوچ کی کامیابی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں مگر سیاست دنیا بھر میں مفادات اور سنگدلی کا کھیل ہے۔ عبدالرحمن کانجو‘ رفیع الدین بخاری اور احمد خان بلوچ اگرچہ صدیق خان بلوچ کے ساتھ مسلم لیگ کی کشتی میں سوار ہیں مگر اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدیق خان بلوچ کی کامیابی کا مطلب کیا ہے؟ مقامی مخالفین کی سودے بازی پوزیشن کمزور اور حلقہ بدری۔ پرویز مشرف دور میں وفاداری کی تاریخ رقم کرنے والے اختر کانجو اور پیر رفیع الدین بخاری سے مسلم لیگ (ن) کی بے وفائی اور آزاد امیدواروں بلکہ پرویز مشرف کے ساتھیوں کی سرپرستی نے خالص مسلم لیگی کارکن کو بددل کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اور سابقہ ارکان اسمبلی زبانی کلامی صدیق بلوچ کے ساتھ کھڑے رہے مگر دل میں جہانگیر خان ترین کی کامیابی کے خواہاں۔ مسلم لیگی قیادت کو احساس دلا نے کے لیے کہ محض مسلم لیگ کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت ہے نہ بار بار وفاداریاں بدل کر مسلم لیگ کے حقیقی اور جانثار کارکنوں کی حق تلفی کرنے والے دھن‘ دھونس ‘ دھاندلی کے زور پر انتخابی معرکہ جیت سکتے ہیں۔
جہانگیر ترین نے مسلم لیگ اور صدیق بلوچ کے تمام مخالفین کو اکٹھا کیا اختر کانجو‘ نواب حیات اللہ ترین اور طاہر ملیزئی کو بلدیاتی انتخابات میں بھر پور سپورٹ دی اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں صدیق بلوچ کی بحالی کے باوجود نہ صرف اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہے ‘ بلکہ ان کے نامزد امیدواروں کی مہم چلانے کے علاوہ رابطہ عوام مہم جاری رکھی جبکہ سپریم کورٹ سے حکم امتناعی ملنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے اکثر وابستگان ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں میں گم اپنے وعدے و عید بھول گئے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے لیے تازیانہ تھے اور مسلم لیگ نون کے لیے نشہ آور مشروب‘ حکومتی اُمیدواروں کی کامیابی نے تنظیمی حوالے سے مسلم لیگ کو کمزور کیا اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے شیر اور بالٹی نے رہا سہا ڈسپلن بھی تباہ کر دیا۔ ہر جیتنے والے امیدوار کو گلے لگانے کی پالیسی نے ہارنے والے مسلم لیگی امیدواروں کو جہانگیر ترین کی اعانت پر آمادہ کیا جبکہ چار بڑی برادریوں کے پرانی سیاست سے متنفر نوجوان بھی اپنے اہل خانہ کو تحریک انصاف اور جہانگیر ترین کی طرف مائل کرتے رہے۔ جہانگیر ترین کی شہرت صدیق بلوچ سے بہرحال بہتر ہے وہ بڑے زمیندار اور ارب پتی سرمایہ دار ضرور ہیں مگر ان کا شمار علاقے میں کُتّے اور ریچھ کی لڑائی اور مُجرے کرانے والے نودولتیوں میں نہیں ہوتا۔
لاہور میں علیم خان کے مقابلے میں سردار ایاز صادق کی کامیابی کا ایک اہم فیکٹر حمزہ شہباز شریف کو قرار دیا جاتا رہا مگر لودھراں میں حمزہ شہباز شریف کے علاوہ لاہور‘ شیخو پورہ اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے جمع ہونے والے مختلف برادریوں کے سرخیل صدیق بلوچ کی ناکامی کو کامیابی میں نہ بدل سکے حتیٰ کہ دونوں اُمیدواروں کے مابین ووٹوں کے تفاوت کو بھی کم کرنے میں ناکام رہے جس کا مطلب ہے کہ انتخابی عملہ پولیس‘ انتظامیہ اور سرکاری وسائل مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کے حق میں فیصلہ کن عامل ہیں جبکہ فوج کی نگرانی میں غیر جانبدارانہ الیکشن تحریک انصاف کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ اگر لاہور میں ایاز صادق کی کامیابی حمزہ شہباز کی ریاضت‘ شریف برادران کی مقبولیت اور مسلم لیگ(ن) کی موثر انتخابی تکنیک کی مرہون منت تھی تو پھر صدیق بلوچ کی ناکامی کا بوجھ بھی ان تمام کو اٹھانا چاہیے۔
لودھراں میں کامیابی تحریک انصاف کے مایوس و مضطرب کارکن کے لیے پیام اُمید ہے‘ عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی اور شریف برادران کی انتخابی سیاست پر گرفت کا پروپیگنڈا غلط ثابت ہوا اور نئے پاکستان کے علمبرداروں کے سوکھے دھانوں پر کامیابی کی اوس پڑی تاہم یہ آخری اور فیصلہ کن معرکہ ہے نہ مسلم لیگ کی ناکامی اور تحریک انصاف کی کامیابی کا استعارہ۔ تحریک انصاف کو مزید ریاضت اور مسلم لیگ کو حقیقت پسندی درکار ہے تاکہ وہ اس معرکے کا تجزیہ زمینی حقائق کی روشنی میں کر سکیں۔ جنوبی پنجاب میں مخدوم جاوید ہاشمی کے بعد یہ دوسرا ضمنی انتخاب تھا جہاں تحریک انصاف کو کامیابی ملی۔
عمران خان نے جہانگیر ترین کی کامیابی پر بڑھکیں مارنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کامیابی کو حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ اور جشن ولادت کی خوشی کے ساتھ ملا کر ایک لحاظ سے اپنے کارکنوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وقتی ناکامیاں‘ رکاوٹیں‘ تکلیفیں اور مخالفتیں ان کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں اور وہ اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق مزید عزم‘ حوصلہ اور جدوجہد سے ان کا مقابلہ کریں گے۔ انتخابی کامیابی کا جشن منانے والوں کو اسوۂ رسولؐ پر چلنے کی تلقین مجھ ایسے خطا کار اور طلب گار شفاعت‘ انسان کے لیے متاثر کن ہے پاکستان میں کوئی لیڈر تو ایسا ہے جو اپنی کامیابی اور ناکامی کا تجزیہ حضور ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی کی روشنی میں کرتا اورذات رسالت مآب ؐسے جذبہ کشید کرتا ہے۔ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی اگر کامیابی اور ناکامی کے دنیوی معیارات سے ماورا ہو کر اسوۂ رسولؐ کو حرز جاں بنا لیں اور شکوہ وشکایت‘ طعن و ملامت سے بالاتر ہو جائیں تو شائد کیا‘ واقعی اپنی اور پاکستان کی تقدیر بدل دیں مگر؟ یہ باتیں پھر سہی 
فی الحال مولانا حسن رضا خان بریلوی کے چند نعتیہ اشعار : 
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو تراہاتھ دھرا ہو
آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتے کا بھلا ہو
یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو‘ وہ عطا ہو
وہ دو کہ ہمیشہ ہی مرے گھر کا بھلا ہو
منگتا تو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے
جس کو مرے سرکارؐ سے ٹکڑا نہ ملا ہو
مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی
جب خاک اُڑے میری‘ مدینے کی ہوا ہو
آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے 
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو
کبھی ایسا نہ ہوا ‘ اُن کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو
آسمان گر تِرے تلووں کا نظارا کرتا
روز اک چاند تصدّق اُتارا کرتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں