یہ بروس ریڈل کیا بولا…

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے مشیر برائے سلامتی بروس ریڈل پاکستان پر ہمیشہ مہربان رہتے ہیں۔ جولائی 1999ء میں کارگل کا تنازع حل کرانے کے لیے نوازشریف‘ بل کلنٹن ملاقات ہوئی تو موصوف اس میں موجود تھے اور سب سے پہلے انہوں نے نواز‘ کلنٹن ملاقات کی اندرونی کہانی بیان کی۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ اُن کے حوالے سے بروس ریڈل نے جو لکھا وہ سو فیصد غلط تھا۔ 
حال ہی میں اُنہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ اُنہوں نے 1962ء میں بھارت چین آویزش کے موقع پر جموں و کشمیر آزاد کرانے کا موقع ضائع کر دیا۔تاثر اُنہوں نے یہ دیا کہ وہ کوئی تاریخی راز افشا کر رہے ہیں حالانکہ ایک چینی طالب علم کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب مرحوم یہ بات اپنی مشہور زمانہ کتاب شہاب نامہ میں لکھ چکے ہیں اور ایوب خان کا بھارت پر حملہ نہ کرنے کا جوازبھی۔
گزشتہ روز پٹھان کوٹ حملہ کے حوالے سے بھارتی فوج‘ پولیس اور دیگر ایجنسیاں سرجوڑ کر بیٹھی یہ سراغ لگانے میں مصروف رہیںکہ چھ مسلح اور تربیت یافتہ افراد ایس پی سلویندر سنگھ کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پٹھان کوٹ ایئربیس میں کیسے گُھس گئے؟ انہیں اندر اور باہر سے کس کس کی مدد حاصل تھی اور یہ مقامی تھے یا گُھس بیٹھیے وغیرہ وغیرہ۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے جب نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل شردکمار سے پوچھا کہ کیا چھ جنگجو پاکستانی تھے تو اُنہوں نے ان کی قومیت اور شہریت کے بارے میں کوئی واضح جواب دینے سے انکار کیا اور کہا کہ مُجھے اس بارے میں شک ہے۔ شردکمار نے اس واقعہ میں پاکستان کی پرائم خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کردار کو کنفرم نہیں کیا مگر امریکی سی آئی اے کے سابق عہدیدار اور امریکی صدر کے مشیر سلامتی بروس ریڈل نے ایک مضمون میں نہ صرف پٹھان کوٹ واقعہ بلکہ مزارشریف میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ کو بھی آئی ایس آئی کا کارنامہ قرار دیا۔اسے کہتے ہیں ''چور نالوں پنڈ کاہلی‘‘ (مدعی سُست گواہ چُست)
حملے کا مقصد ریڈل نے یہ بتایا کہ نوازشریف کی ''دیتانت‘‘ پالیسی فوج کو پسند نہیں اور وہ آئی ایس آئی کے ذریعے اس پالیسی کی مزاحمت کر رہی ہے۔ریڈل کا پٹھان کوٹ واقعہ کے تانے بانے 25 دسمبر کی نواز مودی ملاقات سے جوڑنا اس بنا پر درست نہیں کہ اس طرح کے واقعات کی منصوبہ بندی ایک ہفتہ یا ایک ماہ میں ممکن نہیں۔ بھارت کے ایک آپریشنل ایئربیس میں گُھس کر چار دن تک فوج‘ ایئرفورس‘ پولیس‘ بارڈر ملٹری فورس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو الجھائے رکھنا ایک بڑا اور بہت سی خامیوں سے پاک منصوبہ تھا۔ چار دن تک چھ حملہ آور ایئربیس میں بیٹھ کر نہ تو شطرنج کھیلتے رہے نہ اپنے خالصتانی یا کشمیری دوستوں سے چیٹنگ کرتے رہے۔حیران کُن بات ہے کہ بھارتی ایجنسیاں جن فون کالوں کو ناقابل تردید شہادتیں قرار دے رہی ہیں وہ بھی ایس پی سلویندر سنگھ کے ڈرائیور نے اپنے یا ایس پی کے فون سے کیں ۔ این آئی اے کو شک ہے کہ یہ حملہ دہشت گردوں اور سمگلروں کے مابین تال میل کا نتیجہ ہے‘ جس سے یہ مفہوم اخذ کرنا آسان ہے کہ یہ کالیں ایس پی یا ڈرائیور نے اپنے کسی سمگلر دوست کو کی ہوں گی۔جب بھارتی حکومت ‘کوئی سرکاری اور تفتیشی ایجنسی ‘آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے تیار نہیں اور ابھی تک کُھرا ببرخالصہ کی طرف جا رہا ہے تو بروس ریڈل کو یہ الہام کیسے ہو گیا کہ واقعہ کے پیچھے آئی ایس آئی ہے؟ 
پٹھان کوٹ واقعہ میں بھارتی ایجنسیوں اور اداروں کی نالائقی‘ نااہلی اور غفلت کا اعتراف بھارتی ذرائع ابلاغ‘ حکومتی ارکان اور اپوزیشن کے علاوہ ذی شعور بھارتی شہری کر رہے ہیں۔ اب تک گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق بھی فوج اور پولیس سے ہے‘ یا پھر سابق وزیراعلیٰ پنجاب بے انت سنگھ کے قتل میں ملوث افراد اور گروہ ہی تفتیشی ٹیم کا ہدف ہیں۔ مگر ایس پی کی گاڑی سے ملنے والی ایک پرچی کو بنیاد بنا کر پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر سے تفتیش کرے‘ صاف لگ رہا ہے کہ ابھی تک تفتیشی ایجنسیوں اور حکومت کو پاکستان کے خلاف کُچھ نہیں ملا ‘اسی بناپر ماضی کی طرح مودی نے زہر اگلا نہ اجیت دول اور منوہر پاریکر کے مُنہ سے آگ کے شعلے نکلے۔ سب شانت رہے۔ البتہ بھارتی میڈیا اپنے خبث باطن کا کُھل کر مظاہرہ کرتا رہا۔ مذاکرات ملتوی کرنے اور پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ میڈیا اور مختلف چینلز میں بیٹھے تنگ نظر دانشوروں اور عسکری ماہرین نے ڈھٹائی سے کیا۔
فون کالوں کا معاملہ بھی مشکوک ہے۔ جس ایس پی کو یہ یاد نہیں کہ اُسے پکڑنے والے افراد چار تھے یا پانچ اور جسے اُردو بولتے ہوئے اُردو سمجھ نہیں آتی ‘وہ اپنے ڈرائیور اور باورچی کے حوالے سے بتاتا ہے کہ چاروں افراد پاکستان میں کسی کمانڈر سے بات کر رہے تھے۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی بھی ان 9 فون کالوں کو بنیادی شہادت قرار دے رہی ہے جن میں سے ایک پاکستان سے آئی اور باقی پاکستان میں کسی کو کی گئیں؛ حالانکہ عقل سلیم ہو تو معاملہ بآسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان‘ فاٹا اور کراچی میں عرصہ دراز سے ''را‘‘ کے تربیت یافتہ اور بھارتی حکومت سے مالی مدد حاصل کرنے والے نسلی‘ لسانی اور مسلکی دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلرز سرگرم عمل ہیں اور پاکستان کی اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ پاکستان نے ان کی عالمی فورم پر نشاندہی کر کے بھارت کو مذاکرات اور مفاہمت پر مجبور کر دیا ہے۔ 
پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کا منصوبہ بھارت میں بن سکتا ہے اور بھارتی حکومت و عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے ان حملہ آوروں کی رہنمائی کے لیے پاکستان میں موجود کسی فرد یا گروہ کو عملدرآمد کی ڈیوٹی سونپی جا سکتی ہے تاکہ پکڑے جانے کی صورت میں موقع واردات پر پاکستان سے رابطوں کے ثبوت ملیں اور دونوں ممالک میں کشیدگی ایک بار پھر بڑھ جائے۔ اگر بھارتی فوج کا میجر‘ بے انت سنگھ کے قتل میں ملوث جگتا رسنگھ حوارا اور سلویندر سنگھ مشکوک ہیں تو پھر بھارت کو اپنے اندر جھانکنا چاہیے۔ ببرخالصہ اور ''را‘‘ کا محاسبہ کرنا چاہیے اور این آئی اے کے ڈی جی کی طرح پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے تفتیش مکمل کرنے کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ ''دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہو۔جنہیں پولیس‘ فوج اور خالصتانی رضا کار میسر ہوں انہیں پاکستان سے فدائی بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ ممکن ہے یہ نوازشریف اور مودی دونوں کے خلاف سازش ہو اور اس میں پاکستان کا کوئی فرد‘ گروہ یاادارہ نہیں بلکہ پاکستان دشمنی میں اندھے ہو جانے والے وہی عناصر ہوںجو ''را‘‘ اور بھارتی حکومت کے ایجنٹ اور وظیفہ خوار ہیں۔اور دونوں ممالک میںجنگ کے خواہاں۔
میاں نوازشریف نے اچھا کیا ‘جلتی پر پانی ڈالنے کی کوشش کی اور مودی کو فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا مگر مستند شواہد اور قابل یقین و پُراعتماد ثبوتوں کے بغیرکیسی تحقیقات اور کس قسم کا تعاون؟ جب این آئی اے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی‘ کُھرا بھارتی فوج‘ پولیس اور ببرخالصہ تحریک کی طرف جا رہا ہے تو جیش محمد کی آڑ میں پاکستان پر الزام تراشی اور حکومت پر دبائو چہ معنی دارد؟ کیا یہ مذاکرات سے فرار کا بہانہ ہے یا بروس ریڈل ٹائپ امریکی سپائی ماسٹرز کی دی ہوئی لائن تاکہ پاکستان اور آئی ایس آئی پر دبائو بڑھا کر امریکہ و بھارت کے مشترکہ مقاصد کی تکمیل ممکن بنائی جا سکے۔
جیش محمد کے بارے میں ہر پاکستانی جانتا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے ٹکڑوں میں بٹ کر کمزور اور محدودہو چکی ہے۔ مولانا مسعود اظہرکو گزشتہ چار پانچ سال سے کسی نے دیکھا نہ سُنا ‘مگر بروس ریڈل اور اس کے زیراثر بھارتی لیڈر جیش محمد کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔ بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں‘ فوج اور دیگر اداروں کو ناکوں چنے چبوانے اور چار روز تک ایک منی سُپر پاور کی بھد اڑانے کی اہل ایسی تنظیم جس کے فدائیوں کا ایئربیس میں داخلہ تک کا کسی کو علم ہو سکا نہ چار دن تک کوئی ایک زندہ پکڑا گیا۔ واقعہ کا ذمہ دار کوئی بھی ہو ببرخالصہ‘ ''را‘‘ یا کوئی مقامی کشمیری تنظیم‘ بھارت اپنے سرپرست امریکہ کے ساتھ مل کر آئی ایس آئی اور پاک فوج کو دبائو میں لانا چاہتا ہے۔ عین ممکن ہے 1999ء کی طرح میاں نوازشریف اور فوجی قیادت کے مابین اختلافات پیدا کرنا اور کوئی نیا کھیل کھیلنا مقصودہو‘ لہٰذا سیاسی اور فوجی قیادت خبردار! ہوشیار !!بروس ریڈل نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ نواز‘ کلنٹن ملاقات کے بعد بھی پہلا مضمون انہی موصوف نے لکھا تھا ''تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں