بُتوں سے تجھ کو اُمیدیں

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی چکنی چپڑی باتیں سن کر مجھے یوں لگا کہ پاکستانی اقدامات کو احسن قرار دینے کے باوجودبھارت مولانا مسعود اظہر کی نظر بندی پر مطمئن ہے نہ جیش محمد کے دفاتر کی بندش اور کارکنوں کی گرفتاری سے خوش ۔ تبھی اس نے 15جنوری کے سیکرٹری خارجہ مذاکرات کو ملتوی کر دیا ہے۔ ہمارے حکمران اس بات پر خوش ہیں کہ مذاکرات موخر ہوئے ہیں‘ منسوخ نہیں۔ ورنہ امریکہ کو کیا مُنہ دکھاتے۔
پاکستان میں کسی کو معلوم نہیں کہ مولانا مسعود اظہر اور جیش محمد کے خلاف بھارت نے کیا ثبوت پیش کئے۔ وزیر اعظم ہائوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد یہ کہا گیا کہ ثبوت ناکافی ہیں۔ اسی بناء پر ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل پائی جو پٹھان کوٹ جا کر ثبوت اکٹھے کرے گی اور اس کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہو گی‘ اس کے باوجود گرفتاریاں جاری ہیں اور یقین دہانیاں بھی‘ مگر بھارت اپنی بات پر اڑا ہے‘ پہلے تسلی بخش اقدامات پھر مذاکرات۔زبان سے نہیں یہ بات وہ عمل کے ذریعے کہہ رہا ہے۔
نواز مودی ملاقات کے بعد اگر کسی نان سٹیٹ ایکٹر نے پٹھان کوٹ حملہ میں حصہ لیا تو اس پر صرف وزیر اعظم نہیں‘ قومی اداروں کی تشویش بجا ہے۔ یہ دو جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کی سازش اور وزیر اعظم نواز شریف کو شرمندگی سے دوچار کرنے کی حرکت ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیاتین حصوں میں تقسیم اور غیر فعّال جیش محمد اتنا بڑا منصوبہ بنانے اور اس پر کامیابی سے عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یا مقصد کچھ اور ہے۔ جیش محمد کے بہانے پاکستان کی پرائم ایجنسی کو مطعون کرنا اور آپریشن ضرب عضب میں مصروف پاک فوج کی توجہ ہٹانا۔
اوّل تو ڈھاکہ میں نریندر مودی کی طرف سے اس انکشاف کے بعد کہ وہ پاکستان توڑنے کی جنگ میں بذات خود حصہ لے چکے ہیں‘ یہ توقع عبث ہے کہ نریندر مودی واقعی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان کا کوئی لیڈر یہ اعلان کر دے کہ اُس نے کشمیریوں کی جدوجہد میں حصہ لیا یا خالصتان تحریک میں شریک رہا تو بھارت کبھی اُسے اپنی سرزمین پر قدم نہیں دھرنے دے گا۔ لیکن بالفرض اگر نریندر مودی کی اس قلب ماہیت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو پٹھان کوٹ واقعہ پر جس دبائو کا ہم شکار نظر آتے ہیں‘ اس کی کوئی تُک نہیں۔ بھارت کے کہنے پر ہم کسی کو فی الفور پھانسی لگا سکتے ہیں نہ مستند اور ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی کو پکڑ کر بھارت کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ نظر بندی اور گرفتاریوں پر بھارت کو مطمئن ہونا چاہیے مگر وہ نہیں جس سے دال میں کالا نظر آتا ہے۔
پاکستان اس وقت جن اندرونی خطرات سے دوچار ہے اس کا اندازہ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے امریکی صدر بارک اوباما کے خطاب سے لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف نے اگلے کئی عشروں تک پاکستان میں عدم استحکام کی پیش گوئی کی جبکہ اس عدم استحکام میں امریکہ کی علاقائی اوربین الاقوامی پالیسیوں‘ افغان جنگ اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے ۔ داعش عراق جنگ کا تحفہ ہے مگر آہستہ آہستہ یہ پاکستان تک پہنچ گئی ہے۔ شیخ رشید احمد نے گزشتہ روز یہ کہہ کر قوم کو چونکا دیا کہ وفاقی دارالحکومت میں بھی داعش پرپرزے نکال رہی ہے اور بھتہ خوروں نے راولپنڈی میں تاجروں اور خوشحال شہریوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ بعض تجزیہ نگار پٹھان کوٹ کے واقعہ کو بھی اس سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں جس میں بھارت کے بعض ادارے‘ اندرون ملک ان کے گماشتے اور ممکنہ طور پر (اگر کوئی ثبوت ملتا ہے تو) پاکستان میں بعض ناسمجھ عناصر ملوث ہیں۔
اگر لشکر جھنگوی‘ جند اللہ‘ تحریک طالبان پاکستان کے بعد اب داعش بھی پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں سرگرم عمل ہے تو پھر وفاقی و صوبائی حکومت اور اداروں کو اس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ پانی سر سے گزرنے لگے اور 2016ء کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال سمجھنے والے عوام کو ایک بار پھر مایوسی و پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے۔ حالیہ گرفتاریوں سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے اور حیران کن طور پر اس بار گرفتاریاں کسی مسجد اور مدرسے سے نہیں جدید تعلیمی اداروں سے سائنس و ٹیکنالوجی کے اساتذہ اور طلبہ کی ہوئی ہیں جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جدید تعلیمی اداروں کے ذہین افراد اس راہ پر کیوں چل پڑے‘ یہ بحث و تمحیص اور غور و خوض کا الگ اور سنجیدہ موضوع ہے اور محض کسی مسعود اظہر یا مولانا عبدالعزیز کی برین واشنگ کا نتیجہ نہیں‘ Root Causeتلاش کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ پھر سہی۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق گزشتہ روز وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ پنجاب میں دہشت گردی‘ بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم کے خاتمے کے لیے رینجرز کو سندھ کی طرح طلب کیا جائے اور انہی اختیارات کے تحت کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے جو سندھ رینجرز کو حاصل ہیں۔ میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کا یہ موقف ہے کہ کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی)ایلیٹ فورس اور پولیس کی بہتر کارگزاری کے پیش نظر رینجرز کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ان اداروں کو جدید اسلحہ درکار ہے اورفوج کا مکمل تعاون مطلوب۔ مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف اداروں کی رائے میں ان اداروں کی کارگزاری پر اعتماد شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ ادارے اتنے ہی اہل‘ قابل اعتماد اور فعال ہوتے تو داعش کو پنجاب کی حدود میں داخل ہونے کا موقع ملتا‘ نہ بھارتی حکومت کو یہ الزام لگانے کا کہ پٹھان کوٹ حملہ میں جیش محمد کے عناصر ملوث ہیں جو بہرحال پنجاب میں کام کرنے والی تنظیم ہے۔
یہ کہنا تو زیادتی ہو گی کہ پنجاب حکومت رینجرز کو اس بنا پر طلب نہیں کر رہی کہ وہ صوبے سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں چاہتی یا جنوبی پنجاب میں موجود بعض تنظیموں سے اسے ہمدردی ہے‘ پنجاب حکومت نے دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر اقدامات کئے اور اپنے اداروں کو موثر و فعال بنایا تاہم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد وہ تحفظات کا شکار ہے اور ڈرتی ہے کہ کہیں رینجرز عرب کے اونٹ کی طرح خیمے میں پوری طرح داخل ہی نہ ہو جائے کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسینوں کی تعداد یہاں بھی کم نہیں اور یہ شائد ڈاکٹر عاصم حسین کی طرح سخت جان بھی ثابت نہ ہوں۔ بہرحال بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ۔تجویز کب مطالبے کی شکل اختیار کرتی ہے اور مطالبہ کس طرح پورا ہوتا ہے؟ دیکھنا پڑے گا۔Where There`s a Will,There`s a way جہاں چاہ‘ وہاں راہ۔
پاکستان بھارت سے بامقصد مذاکرات چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے علاوہ خطے میں پُرامن ماحول بھی۔ مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے بھارت کو بھی حیلوں بہانوں سے دبائو ڈالنے اور ہر بار مذاکرات ملتوی کر کے میں نہ مانوں کی روشنی ترک کرنی پڑے گی۔ بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معلوم نہیں یہ کہنا کیوں ضروری سمجھا کہ ہم نے پٹھان کوٹ سے سبق سیکھا ہے بھارتی حکومت ہمیں حکم دے تو ہم فوجی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک یا کسی دوسری کارروائی پر غور ہوا ہے‘ ورنہ دلبیر سنگھ کو یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔مگر ہماری طرف سے مکمل خاموشی ہے۔ ہم صرف اور صرف بھارتی احکامات کی تعمیل میں مصروف ہیں اور یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ اگر ہماری تمام ترنیک نیّتی اور تابعداری کے باوجود بھارت بامقصد مذاکرات اور دیرینہ تنازعات کے حل پر آمادہ نہ ہوا تو ہمارا لائحہ عمل کیا ہو گا۔فی الحال وہ اندرونی و بیرونی دبائو کا شکار ہے‘ دبائو سے نکل کر سابقہ روش اختیار کرلی تو؟
کئی سال تک ہم حافظ سعید کے حوالے سے بھارت کے پروپیگنڈے اور مطالبات کا مقابلہ کرتے رہے اور اب تازہ شکار مسعود اظہر ہے جبکہ بھارتی میڈیا نے دائود ابراہیم کی لاہور کی ایک شادی میں شرکت کا شوشہ بھی چھوڑا ہے۔ معلوم نہیں ہم کب تک نریندر مودی اور ان کے انتہاپسند ساتھیوں کی لن ترانیوں کو برداشت اور دبائو کو قبول کرتے رہیں گے ‘کوئی حد بھی ہے؟ بہتر نہیں ہم اوباما کی چتائونی پر توجہ دیں اور پاکستان میں استحکام کے لیے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کریں؟ بھارت سے اُمیدیں کبھی ماضی میں پوری ہوئی ہیں نہ اب ہو سکتی ہیں‘ وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟
بتوں سے تجھ کو اُمید یں خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں