لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ایک بار پھر پاکستان کو کھل کر دھمکی دی ہے:''بھارت کا صبر ختم ہو چکا اور دنیا ایک سال میں نتائج دیکھے گی‘‘۔حالات نے ایک بار پھر پاکستان اور اس کے حکمرانوں کو گہرے سمندر اور شیطان (Between the Devil and the deep Sea)کے درمیان لاکھڑا کیا ہے۔ ایک طرف شرق اوسط کی الجھی ہوئی صورتحال میں پاکستان کی فوجی قوت اور آپریشن ضرب عضب ‘اقتصادی راہداری کی شکل میں گیم چینجر منصوبہ اور دوسری طرف پٹھان کوٹ واقعہ کی بنیاد پر بھارت کا پاکستان پر دبائو۔ امکانات کا ایک جہاں آباد مگر درمیان میں بھارت کے ایسے مطالبات جنہیں آنکھیں بند کر کے منظور ہم نہیں کر سکتے‘ اور رد کرنے کی اجازت امریکہ نہیں دیتا۔ بھارت اکیلا نہیں، امریکہ اس کی پشت پر ہے۔ مظفر رزمی نے غالباً ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی‘ صدیوں نے سزا پائی
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف سے یہی خطا ہوئی۔ وہ امریکہ کے غصے کی تاب نہ لا سکا اور دور بینی و دور اندیشی کو بالائے طاق رکھ کرغلط راہ پر چل نکلا‘ جس نے پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے کے لیے پاک فوج ڈیڑھ سال سے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے اور معلوم نہیں مزید کتنا عرصہ اس دلدل سے نکلنے میں لگے گا۔ بھارت امریکہ ہے نہ پاکستان کے موجودہ حکمران فوجی آمر جواپنے اقتدار کا جواز کسی بیرونی طاقت کی سرپرستی میں ڈھونڈتے ہیں مگر پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد بھارتی حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور اپنے اداروں کی نالائقی کا ملبہ پاکستان پر ایسے ہی ڈالا ہے جس طرح امریکہ نے افغانستان اور پاکستان پر ڈالا تھا۔
مولانا مسعود اظہر بھارت کو عرصہ دراز سے مطلوب ہیں ۔وہ بھارت کیا کرنے گئے‘ کس طرح کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کا حصہ بنے اور پھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد کیسے رہا ہوئے؟کوئی مخفی معاملہ نہیں۔ دو روز قبل بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی خاتون تجزیہ کار ہریندر بیویجہ نے ماضی کے جھروکوں سے جھانکا ہے اور مسعود اظہر کی بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایودھیا آمد اور منہدم مسجد کے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک نئی زندگی شروع کرنے کے عزم کی تصویر کشی ہے۔ ہریندر بیویجہ کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد کی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بے حرمتی اور انہدام نے مسعود اظہر کو ''دہشت گردی‘‘ پر مائل کیا ۔ہریندر کے مضمون کا عنوان ہے :
Making of a Terrorist: Babri demolition Triggered Masood Azhar`s Jihad.
ہریندر نے ایودھیا سے مسعود اظہر کی سرینگر آمد‘ سجاد افغانی سے ملاقات اور بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کی تفصیل بیان کی ہے۔
اگر مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں میں سے کوئی قانون شکنی کا مرتکب ہوا‘ انہوں نے دو ایٹمی قوتوں کے مابین جنگ کرانے کی سازش کی تو یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے سختی کے ساتھ نمٹے مگر محض شکوک و شبہات اور بھارتی دبائوکی بنا پر چھاپوں اور گرفتاریوں سے یہ تاثر پھیلنے کا اندیشہ ہے کہ جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف امریکہ کے سامنے بچھ گیا‘ اب ہم بھارت کا دبائو برداشت کرنے سے عاری ہیں اور یہی تاثر انتہا پسندوں کے بیانیے کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ممبئی واقعہ سے لے کر مودی کے دورہ جاتی امرا تک بھارت لشکر طیبہ ‘ جماعتہ الدعوۃ اور حافظ سعید کے خلاف ننگی تلوار بنا رہا ‘حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے لشکر طیبہ ‘ جماعتہ الدعوۃ اور حافظ سعید کو دہشت گرد ڈیکلیئر کر دیا‘ اب جیش محمد اور مسعود اظہر ٹارگٹ ہے۔
اگر بالفرض بھارت کے اطمینان اور تسلی کے لیے ہم مسعود اظہر کو واقعتاً گرفتار کر کے فراہم کردہ ناکافی ثبوتوں کی بنا پر سزا سنا بھی دیں تو کہاں لکھا ہے کہ بھارت ان کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کریگا ۔مسعود اظہر کی حوالگی کے بعد حافظ سعید کے خلاف اس کا کیس مزید مضبوط ہوگا اور وہ ان کی حوالگی پر بھی اصرار کریگا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بھارت ان سے جھوٹی سچی تفتیش کے بعد پاک فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دے‘ ان کے اعترافی بیانات کا ڈھنڈورا پیٹے اور ہم صفائی دینے کی پوزیشن میں بھی نہ ہوں۔ اب تک ہمارے بیانِ صفائی کو بھارت نے قبول کیا ہے نہ امریکہ اور اس کے دیگر بھارت نواز اتحادیوں نے۔ کیاڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعترافی بیان کے بعد ہمارے ایٹمی و میزائل پروگرام کے خلاف پروپیگنڈہ بند ہوا ہے؟
ایک اور امکان بھی موجود ہے کہ بھارت کا اصل مقصد سانحہ پٹھان کوٹ اور ممبئی کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے نہ حافظ سعید اور مسعود اظہر تک رسائی‘کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گی۔ البتہ وہ ان خود ساختہ واقعات کی آڑ میں پاکستان کی ان دو سابقہ جہادی تنظیموں کو جو کشمیر میں سرگرم عمل رہی ہیں اور ان میں سے کسی کا کارکن اندرون ملک دہشت گردی میں ملوث نہیں ‘اس قدر اشتعال دلانا اور ریاست پاکستان کے خلاف اکسانا چاہتا ہے کہ یہ بھی موجودہ حکومت اور اس کے اداروں کے بارے میںسنگین غلط فہمی کا شکار ہو جائیں اور اب تک اختیار کی گئی تحمل و برداشت کی پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی جنرل(ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں جنوبی وزیرستان میں پرویز مشرف کی کارروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں کے بعد پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے والے بعض سابقہ جہادیوں کی قلب ماہیت کی تفصیل بیان کی ہے جس نے بالآخر پاکستان کے پرامن قبائلی علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی کی آگ بھڑکائی۔ دونوں صورتوں میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور حالات اس عدم استحکام کی طرف جائیں گے جس کی طرف امریکی صدر اوباما نے اپنی سالانہ تقریر میںاشارہ کیا ہے۔
بھارت خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا اور پاکستان سے مخلصانہ تعاون کا طلبگار ہوتا تو وہ ممبئی واقعہ کے ایک اہم کردار اجمل قصاب تک پاکستانی اہلکاروں کو رسائی دیتا‘ سمجھوتہ ایکسپریس کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچاتا اور فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی میں سرگرم عمل دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور ٹارگٹ کلرز کو پروان چڑھاتا نہ انہیں جدید اسلحہ ‘ تربیت اور مالی امدادفراہم کرتا۔ پراکسی وار کو بطور ہتھیار 1970ء سے اب تک بھارت نے استعمال کیا ہے اور اب بھی وہ یہ حربہ پاکستان پر آزما رہا ہے مگر اس کی خارجہ پالیسی اور پروپیگنڈہ مشینری کا کمال ہے کہ الزام پاکستان پر لگتا ہے اور پاکستان میں بھارت کے گن گانے والوں کو بھی شیو سینا ‘ بجرنگ دل اور دیگر تنظیمیں نظر نہیں آتیں ‘ان کی تان جماعتہ الدعوۃ‘ فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جیش محمد پر ٹوٹتی ہے ۔سرکاری ادارے بھی قابل داد ہیں کہ بارہ چودہ سال قبل کالعدم ہونے والی تنظیم کے دفاتر اسے پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد یاد آئے ۔پہلے ہمارے حکمران اور ادارے دھتورا پی کر سوئے ہوئے تھے۔
اگر ملک میں استحکام مطلوب ہے اور امن و امان عزیز تو معاملات کو نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں سدھارنے کی ضرورت ہے جو لوگ بندوق چھوڑ کر فلاح انسانیت فائونڈیشن یا کسی دوسرے رفاہی ادارے کے ذریعے خدمت خلق میں مشغول ہیں انہیں دیوار سے نہ لگایا جائے۔ پنجاب اب تک امن کا جزیرہ ہے جو ہمارے مہربانوں کو پسند نہیں‘ اسے بھی فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان کی طرح بدامنی اور انتشار کی نذر کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ مگر امریکہ اور بھارت کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ پاک فوج اور اس کے دیگر ادارے بلوچستان‘ فاٹا اور کراچی سے فارغ ہوئے بغیر پنجاب میں بھی ان تنظیموں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیں جن سے پاکستان کو خطرہ ہے نہ جنہیں ریاست سے کوئی شکایت ہے۔ بھارت کے دشمن ہمارے دشمن ہیں نہ اس کے مفادات کی تکمیل ہمارا فرض ہے۔ کوئی پاکستان کے خلاف جرم کا مرتکب ہوا ہے تو سزا بھگتے مگر بھارت کی خوشنودی کے لیے کوئی نیا محاذ کھولتے ہوئے ہمیں سو بار سوچنا پڑیگا کہ کہیں وہ ہمیں 1971ء کی طرح کسی دلدل میں تو دھکیل نہیں رہا؟اوباما کی پیش گوئی کسی نئی منصوبہ بندی کا حصہ تو نہیں؟
جب بھارت پاکستان کی تفتیشی ٹیم کو پٹھان کوٹ ایئر بیس میں داخل ہونے دیگا نہ گرفتار ملزموں تک رسائی تو یہ ٹیم کیا پٹھان کوٹ میں ہلدی رام کی مٹھائی کھانے جائے گی یا منوہر پاریکر کے چرنوں کو چھونے۔ ٹیم کو روکنے کی وجہ؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بھارت دبائو کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ مفاہمت کی پالیسی پر نہیں‘ لہٰذا مشتری ہوشیار باش!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں