کاری وار

منوہر پاریکر نے ہمیں قبل از وقت خبردار کر دیا تھا مگر ہم دھمکی کو گیدڑ بھبھکی سمجھے اور مودی کی مسکراہٹ کے سحر میں گرفتار مناسب حفاظتی انتظامات نہ کر سکے۔ قصور ہمارا ہے مگر قاتل کو تلاش کرنا تو پڑے گا۔
باچہ خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کی کارروائی کو کوئی اور دیکھے نہ دیکھے‘ میں پٹھان کوٹ حملہ کے تناظر میں دیکھنے پر مجبور ہوں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے دونوں بیانات کو ہمارے فیصلہ ساز شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے مگر شہید ہونے والے معصوموں کا دُکھ اور نڈھال والدین کا درد پوری قوم کو ان بیانات کی یاد دلاتا اور رُلاتا ہے۔
ہم نے پٹھان کوٹ واقعہ پر شور مچایا کہ نواز مودی ملاقات کے بعد پاکستان کا کوئی ادارہ اور نان سٹیٹ ایکٹر آخر اس طرح کی بڑی کارروائی کیوں کرے گا‘ وہ بھی صرف چار دن بعد‘ مگر بھارت نے مان کر نہیں دیا وہ مسلسل پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں‘ فلاں ابن فلاں کو پکڑ کر مودی سرکار کے حضور پیش کرے۔ ایک ڈوزیئر بھی ہمیں موصول ہو چکا ہے مگر ہمیں یہ کہتے‘ لکھتے‘ سوچتے‘ پوچھتے شرم محسوس ہوتی ہے کہ پٹھان کوٹ حملہ کے بعد پاکستان میں اچانک دہشت گردی کیوں بڑھ گئی؟ روزانہ کارروائیاں کیوں ہونے لگی ہیں؟ اور ہمارے خاصہ دار ہوں‘ عام شہری یا طالب علم و اساتذہ‘ کیوں موت کے گھاٹ اُترنے لگے ہیں؟ ہمارے فیصلہ ساز آخر کنفیوز کیوں ہیں؟ ع
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
خدا جانے کسی کو یہ احساس بھی ہے کہ نہیں‘ مسعود اظہر‘ حافظ سعید‘ دائود ابراہیم اور دیگر محض بہانہ ہیں اصل نشانہ تو آئی ایس آئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان نے دہشت گردوں کی کمر توڑی اور انہیں چوہوں کی طرح بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ان میں سے کتنے دیگر صوبوں اور شہروں میں چھپے‘ کتنے سرحد پار کر کے افغانستان میں روپوش ہوئے اور کتنوں کو بھارت میں پناہ ملی؟ کوئی وثوق سے بتا نہیں سکتا‘ ہماری مشرقی سرحد پر موجود امریکی اور اتحادی فوج نے انہیں روکنا کیوں مناسب نہ سمجھا جبکہ فوجی قیادت سے یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ افغانستان پر قابض قوتوں نے انہیں سرحد سے ملحقہ صوبوں کنڑ اور نورستان میں پناہ لینے کا موقع کیوں فراہم کیا؟ یہ آسانی سے سرحد پار کر کے کبھی پشاور‘ کبھی چارسدہ اور کبھی جمرود کو نشانہ کیسے بناتے ہیں؟ اور شمالی وزیرستان میں ڈرون برسانے والوں کو ان علاقوں میں اپنی جدید ٹیکنالوجی آزمانے سے کس نے روک رکھا ہے؟ کسی نے پوچھا نہ جواب ملا۔
آرمی پبلک سکول پر حملے کے دوران حملہ آوروں اور ان کے بیرون ملک سرپرستوں کے علاوہ سہولت کاروں کا علم ہوا مگر اشرف غنی حکومت اور اتحادی فوجوں نے ہم سے اتنا تعاون بھی نہیں کیا جتنا ہم نے پٹھان کوٹ حملہ کے بعد اپنے دیرینہ دُشمن بھارت سے کیا‘ ناکافی ثبوت کے باوجود درجنوں افراد گرفتار کر لیے اور بھارت کو خوش کرنے میں لگ گئے۔ ظاہر ہے کہ مُلاّ فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ شمالی وزیرستان کے مفروروں کو جن قوتوں نے افغانستان میں پناہ دی وہ انہیں گزند کیسے پہنچنے دیں گے‘ ہم پراکسی وار سے دستبردار ہو گئے مگر ہمارا دُشمن؟ 
چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہو یا اس طرح کے دیگر المناک واقعات‘ حملہ آوروں کے مقاصد واضح ہیں۔ استعمال یقیناً ہمارے اپنے گمراہ اور ناعاقبت اندیش لوگ ہوئے ہوں گے۔ پاکستانی‘ افغانی یا چیچن و اُزبک جنہیں نفرت‘ درندگی اور انتقام کے جذبے نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ انہیں برصغیر بلکہ جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ پاکستان میں تباہی پھیلانے اور بیگناہ کلمہ گو انسانوں پر گولیاں‘ بم چلاتے وقت ہرگز یاد نہیں رہتا کہ وہ کس کے ہاتھوں‘ کس کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ ان حملہ آوروں کا اصل ٹارگٹ صرف باچہ خان یونیورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم یا خاصہ داراور ایف سی کے اہلکار نہیں حقیقتاً و واقعتاً آپریشن ضرب عضب ہے‘ کیونکہ اس آپریشن سے ہمارے کئی مہربانوں کے دیرینہ عزائم اور احتیاط سے تیار کئے گئے منصوبوں کو دھچکا لگا ہے‘ پاکستان کے خلاف ناکام ریاست کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں ''کمزور‘‘ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام تک رسائی کے خواہش مندوں‘ افغانستان میں قائدانہ کردار کے طلب گاروں اور خطے میں بالادستی کے آرزومند علاقائی و عالمی تھانیداروں کو اس آپریشن سے تکلیف بہت ہے اور صدمہ ناقابل برداشت۔
پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر تنہا کرنے کی بھارتی خواہش کسی مُحب وطن پاکستانی سے مخفی نہیں یہ پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کیے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان میں نسلی‘ لسانی‘ مسلکی اور علاقائی اختلافات اور تعصبات‘ سیاسی کشمکش‘ اقتصادی و معاشی عدم استحکام اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ہماری وہ کمزوریاں ہیں جس کا بھارت اور ہمارے دوسرے دُشمنوں کو ادراک ہے۔ گوادر بندرگاہ‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور کشمیر میں عسکریت پسندی کی جگہ پُرامن سیاسی جدوجہد میں تیزی سے پاکستان کو سیاسی‘ معاشی اور خارجہ پالیسی کی سطح پر جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں وہ بھارت کے لیے سوہان روح ہیں۔ شرق اوسط میں اُمڈتے ہوئے بحران کی سنگینی کم کرنے کے لیے پاکستان کا کامیاب مصالحتی مشن اس درد میں مزید اضافہ کرتا ہے جس کا اظہار منوہر پاریکر نے پٹھان کوٹ واقعہ کے ضمن میں کیا‘ یہ پاکستان کے علاقائی کردار میں اضافہ اور سفارتی تنہائی میں دور رس کمی کے واضح آثار ہیں جس میں پاکستان کی منتخب حکومت کے علاوہ فوج اور اس کی آنکھ و کان خفیہ ایجنسیوں کی ریاضت یکسوئی اور مستقبل شناسی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے‘ جس سے اجیت دول‘ منوہر پاریکر اور اُن کے سرپرست و اتحادی سب پریشان ہیں‘ صرف پرپشان نہیں‘ جذبہ انتقام سے مغلوب۔
سارا ملبہ دُشمنوں اور مخالفین پر ڈال کر ہم اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں نہ اپنی کوتاہیوں‘ کمزوریوں اور نالائقی پر پردہ ڈال کر سرخرو۔ آپریشن ضرب عضب شروع اور نیشنل ایکشن پلان منظور کرنے کے بعد سویلین اداروں نے اپنے شب و روز بدلے نہ اپنی اہلیت و صلاحیت بڑھانے پر توجہ دی اور نہ سیاست پر ریاست کو ترجیح دینے کا وتیرہ اپنایا۔ پولیس و دیگر سویلین اداروں کا حال پتلا ہے۔ وسائل‘ تربیت اور حوصلہ افزائی کی کمی عیاں ہے اور ان کا سیاسی استعمال بدستور جاری۔ آرمی پبلک سکول کے بعد تعلیمی اداروں کی حفاظت کا اہتمام ہم نے یوں کیا کہ جس گیٹ پر ایک سپاہی اونگتا تھا وہاں اب دو تین بندوق بردار بیٹھ کر گپیں لگاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز ہیں‘ نیکٹا کے لیے رقم نہیں‘ سیاسی لڑائی جھگڑے کم ہوئے نہ قومی وسائل کا ضیاع اور لوٹ مار کا کلچر ختم ہوا۔ ٹیرر فنانسنگ میں ملوث سیاست دانوں پر ہاتھ پڑا تو سیاسی عصبیّت اور ذاتی و گروہی مفادات قومی تقاضوں پر غالب آنے لگے اور بے رحمی سے نیشنل ایکشن پلان پر نون لیگ ایکشن پلان کا لیبل لگا دیا گیا۔ شمالی وزیرستان‘ بلوچستان اور کراچی میں ''را‘‘ کے ملوث ہونے کا چرچا رہا‘ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے سامنے کُچھ ثبوت بھی پیش کئے مگر پھر مودی کے دورہ لاہور نے ہماری زبانیں گنگ کر دیں۔ یہی شاید دورہ لاہور کا مقصد تھا کہ ہم مروّت دکھائیں اور لالہ اپنا کام۔ اب بھارت ہم پر دراندازی اور پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے مگر ہم اس کی خیرسگالی کے گن گاتے ہیں بھارتی سکرٹری خارجہ سے مذاکرات کے لیے مرے جاتے ہیں۔ حالت جنگ میں بھی ہمیں یہ عقل اور توفیق نہیں کہ ایک ڈیڑھ سال کے لیے سارے ترقیاتی منصوبے منجمد کر کے پوری قوم کی توانائیوں اور جملہ وسائل کو صرف دہشت گردوں کی سرکوبی پر لگا دیں۔ 
ہمارے پاس کوئی منوہر پاریکر ہے نہ اجیت دول جو بیس شہدا کے ورثا کو یہ کہہ کر حوصلہ دے سکے کہ جس نے ہمیں درد دیا ہے ہم بھی اُسے دوگنا‘ چار گنا درد دیں گے۔ جس نے آرمی پبلک سکول اور چارسدہ یونیورسٹی میں ہمارے معصوم‘ بے قصور اور پھول سے بچوں کو نشانہ بنایا ہم اُسے وہاں سے نشانہ بنائیں گے جہاں سے وہ تصور نہیں کر سکتا‘ یہ وحشی اندر سے حملہ آور ہوں یا باہر سے‘ مغرب میں چھپے ہوں یا مشرق میں زیر تربیت‘ یہ جدید تعلیمی اداروں میں پائے جائیں یا قدیم طرز کے دینی مدارس اور مساجد میں حتیٰ کہ کعبہ کے پردوں سے لپٹے ہوں کسی صورت میں قابل معافی نہیں مگر پہلے ہم دُشمن کا تعین تو کریں اور اس سے نمٹنے کی تیاری بھی۔ دُکھ اور درد کی اس گھڑی میں حواس اپنے بحال رکھیں اور کمزوریوں کی تشخیص ضرور کریں مگر کسی ابہام کا شکار نہ ہوں کہ دُشمن ہم سے یہی چاہتا ہے چانکیہ کا پیروکار اور میکیاولی فکر پر عمل پیرا‘ چالاک‘ مکّار اور فریب کار ...
بَغل میں چُھری مُنہ میں رام رام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں