کامیاب ترکیب

خدا بدگمانی سے بچائے‘ یہ ترکیب جس کسی کی بھی تھی کامیاب رہی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دس ماہ قبل اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ اگر ان کی ملازمت میں توسیع کا شوشہ نہ چھوڑا جاتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ 
چند ہفتے قبل اسلام آباد سے واپسی پر جناب عارف نظامی نے یہ خبر افشاء کی کہ حکومت کی طرف سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش جنرل راحیل شریف کی میز پر ہے تو یار لوگوں نے مختلف النوع قیاس آرائیاں کیں۔ عمران خان کی شادی اور ریحام خان کی طلاق والی Exclusive خبروں کے بعد عارف صاحب کی خبر پر کون شک کرتا۔ کسی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یاد کیا اور کوئی جنرل وحید کاکڑ کا ذکر لے بیٹھا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے توسیع کی پیشکش قبول نہ کی۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تذبذب بزرگ صحافی نے ختم کیا۔
میاں نوازشریف کا بیان منظر عام پر آ چکا تھا کہ آرمی چیف کو حکومت کی طرف سے توسیع کی پیشکش قبول نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل کاکڑ نے مدیران اخبارات کو بریفنگ کے لیے بلایا اور قومی و بین الاقوامی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ بریفنگ قریب الاختتام تھی جب بزرگ مدیر نے اچانک پوچھا جنرل صاحب! آپ توسیع کی پیشکش قبول کر رہے ہیں یا نہیں؟ جنرل اس سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا ‘قدرے گڑبڑا گیا اور کہا میں تو سامان باندھ کر بیٹھا ہوں‘کب مدت پوری ہو اور میں اپنے گھر سدھار جائوں۔ یہ کہہ کر بریفنگ ختم کر دی۔ تھوڑی دیر بعد ملٹری سیکرٹری بزرگ مدیر کے پاس آیا اور اُس کمرے میں چلنے کی دعوت دی‘ جہاں آرمی چیف اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ مدیر محترم سے آمنا سامنا ہوا تو کاکڑ نے کہا‘ آپ نے یہ کیا سوال کر دیا؟ میں تو توسیع کے حق میں نہیں مگر دبائو بہت ہے‘ حکمران توسیع چاہتے ہیں اور میں عزت و وقار کے ساتھ ریٹائرمنٹ۔ اس دبائو کی وجہ سے میں بعض اوقات تذبذب کا شکار ہو جاتا ہوں مگر آج آپ نے بھری بزم میں سوال کر کے میرا تذبذب ختم کر دیا ۔
ذاتی طور پر میں نہیں سمجھتا کہ نشان حیدر یافتہ دو شہیدوں‘ میجر عزیز بھٹی اور میجر شبیر شریف کے وارث جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت کے سلسلے میں کبھی تذبذب کا شکار ہوئے ہوں گے ۔ اپنی اننگز کھیل کر عزت سے ریٹائر ہونا اور اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں سے خوش گپیاں کرنا‘ دوستوں کے ساتھ گالف کھیلنا اور اہلخانہ کے ساتھ بیٹھ کر سنہری یادیں تازہ کرنا ہر کامیاب شخص کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ہر کمالے رازوال کا فارسی محاورہ اگر ہر شخص یاد رکھے اور کسب کمال کن کہ عزیزجہاں شوی کا نسخہ حر زِجان بنائے تو کبھی توسیع کی خواہش نہ کرے۔ جنرل کیانی اپنے فیصلوں اور اقدامات کے حوالے سے صرف جنرل پرویز مشرف ہی نہیں اپنے دیگر کئی پیشروئوں سے ممتاز تھے۔ مگر ملازمت میں توسیع قبول کر کے اُنہوں نے بدنامی مول لی‘ رہی سہی کسر اُن کے باصلاحیت بھائیوں نے پوری کر دی۔
فوج پاکستان میں سیاسی آلائشات سے پاک واحد ادارہ ہے اور معاشرے میں در آنے والی نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور مسلکی عصبیتوں سے مبرّا۔ یہاں اُوپر سے نیچے تک پروموشن کے ایک فول پروف نظام اور میرٹ پر فیصلوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے جو کافی حد تک درست ہے ۔ غلطی کا امکان ہر انسانی معاشرے میں ہوتا ہے اور فوج اس سے پاک نہیں‘ اسی بنا پر بعض اوقات پاک فوج میں یحییٰ خان اور پرویز مشرف بھی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو کر فوج کے علاوہ قوم کو شرمندگی سے دوچار کرتے ہیں ورنہ بالعموم بہترین صلاحیتوں کے مالک افراد کو اعلیٰ مناصب سونپے جاتے ہیں۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بالواسطہ طور پر فوج کے نظام انتخاب اور میرٹ پر ترقی کے اُصول پر عدم اعتماد ہے۔ فوج میں توسیع کو ویسے بھی پسند نہیں کیا جاتا کہ اس سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی ہوتی اور اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ادارہ نہیں جہاں افراد کے آنے جانے سے کوئی فرق نہ پڑے‘ بلکہ اس کا انحصار بھی ایک فرد یا چند افراد پر ہے۔ توسیع کے اس مرض نے ہماری بیورو کریسی کو تباہ کیا اور افراد اور خاندانوں پر انحصار نے سیاسی نظام کو مکروہ موروثی و خاندانی نظام میں بدل کر جمہوریت کا راستہ روکا۔
جنرل راحیل شریف نے ایک سچے اور پیشہ ور سپاہی کی طرح ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی طرح ناگزیر سمجھتے ہیں نہ شخصی وقار پر عہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ نے توسیع کی بحث چھیڑ کر جنرل راحیل شریف کو آزمائش میں ڈالا‘ یہ سوچی سمجھی سازش تھی جس کا مقصد اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے علاوہ قوم کے محبوب نظر سپاہی کی مقبولیت اور محبوبیت میں کمی لانا اور ان کی ساری کاوشوں کو محض توسیع کی خواہش سے نتھی کرنا تھا۔ جنرل اس جال میں نہیں پھنسے مگر ابھی وہ کمرہ امتحان میں ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے قوم اُن سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر چکی ہے ۔ جن لوگوں نے سر پر کفن باندھ کر دہشت گردوں‘ ان کے سہولت کاروں اور مالیاتی مددگاروں کیخلاف فوج اور رینجرز کا کھل کر ساتھ دیا وہ اس جنگ کو ادھورا چھوڑنے کے حق میں نہیں۔
گزشتہ روز لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہوئے انہیں عبرتناک انجام سے دو چار کرنے کی یقین دہانی کرائی جو لوگ دہشت گردوں کو اپنے گھروں میں پناہ دیتے‘ انہیں ریکی اور اسلحہ کی خریداری میں مدد دیتے ہیں‘ وہ بلاشبہ سہولت کار ہیں اور سنگین سزا کے مستحق‘ مگر یہ ان خودکش بمباروں اور اُن کے ہدایتکاروں کے سہولت کار ہیں جو آمادہ فساد ہیں اور خودکشی کی حرام موت کو گلے لگانے والے۔ دہشت گردی کی فصل بونے میں بنیادی سہولت کار یہ نہیں‘ دہشت گرد ان کی پیداوار ہیں نہ ان کے بل بوتے پر روبہ عمل۔ یہ ناانصافی پر مبنی ہمارا نظام قانون ہے‘ ظلم کو پروان چڑھانے والی پولیس و انتظامیہ اور اس کی سرپرست حکمران اشرافیہ جس نے غریب آدمی سے جینے کا حق چھین لیا ہے اور جس کی سفاکی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ کُھل کر ظالم کی حامی و مددگار اور مظلوم کی دُشمن ہے۔
جس معاشرے میں ایک غریب آدمی تو تھیلیسیمیا‘ کینسر‘ تپ دق اور دیگر مہلک امراض میں مبتلا بیوی بچوں کے علاج کی سکت رکھتا ہو نہ انہیں مناسب خوراک کھلانے پر قادر‘ تھر میں بچے کم خوراکی سے مر رہے ہوں اور لاہور میں خناق سے‘ حکمرانوں میں کروڑوں روپوں کی گاڑیوں‘ گھڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کے ملبوسات کا مقابلہ چل رہا ہو‘ ان کی بلیاں خصوصی جہازوں میں سفر کر رہی ہوں اور کُتّے درآمدی خوراک سے لُطف اندوز‘ وہاں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بے رحمانہ احتساب کے ذریعے دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کو رینجرز کے شکنجے سے نکال اور پنجاب میں احتساب کو روک کر اس ظالم سیاسی اشرافیہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری ‘ اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کا کلچر زندہ رکھنا چاہتی ہے کیونکہ صرف اسی بناء پر یہ فوج کو الجھا کر اقتدار کے مزے لے سکتی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قبل ازوقت شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا کہ اگر وہ پیشکش قبول کریں تو انہیں ساتھیوں اور ماتحتوں کی نظر میں نکّو بنایا جائے اور اگر انکار کریں تو فوج کے رینکس اینڈ فائلز میں یہ پیغام چلا جائے کہ چیف اب دس ماہ کا مہمان ہے لہٰذا نیب‘ ایف آئی اے‘ رینجرز‘ عدلیہ اور دیگر ادارے کم از کم احتساب اور مالیاتی دہشت گردی کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت اور فعالیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ 
جنرل راحیل شریف کو اللہ تعالیٰ نے عزت‘ عظمت‘ شہرت اور مقبولیت سب کُچھ عطا کیا۔ بلاشبہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘ مگر وہ چاہیں تو اگلے دس ماہ فوج اور اس کے معاون و ماتحت اداروں کو صرف اور صرف دہشت گردوں‘ ان کے مالیاتی مددگاروں اور شہر و دیہات میں موجود سہولت کاروں کے قلع قمع کے لیے وقف کریں۔ زیادہ نہیں ظالمانہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی نظام کے ذریعے اب تک دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور اغواء کاروں کی پرورش اور سرپرستی کرنے والے صرف ڈیڑھ دو سو بڑے مجرموں کی فوجی عدالتوں کے ذریعے بیخ کنی کر دیں‘ اس منحوس و مکروہ نظام کی جڑوں پر کلہاڑا چلائیں جس نے ملک کو مجرموں کی پناہ گاہ اور شرفاء کے لیے عقوبت کدہ بنا دیا تو تاریخ انہیں ایک ایسے جرنیل کے طور پر یاد رکھے گی جس کو صرف اور صرف ملکی مفاد عزیز تھا‘ اپنی ذات‘ نہ عہدہ و منصب اور نہ خاندان ؎ 
یہ مال و دولت ِدنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں‘ لا الہ الا اللہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں