نجکاری کی جونک

پاکستان کی قومی ایئر لائنز کی نجکاری پر تو دو آراء ہیں مگر حکومت کے احمقانہ اور متکبرانہ طرزعمل پر سب یک زبان ویک رائے ہیں۔ یہ معاملہ دانشمندی اور دوراندیشی سے سلجھایا جا سکتا تھا مگر طاقت اور حکمرانی کا خمار؟ ؎
نشہ خودی کا چڑھا آ پ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پی آئی اے کی نجکاری کے حق میں دلائل وہی گھسے پٹے ہیںجو ہزار بار دہرائے جا چکے‘ قطعی فضول اور بے وزن۔ قوم کا تجربہ یہ ہے کہ جب تک ملک میں دیانت کا چلن ‘قانون کی حکمرانی اور معاملات پر حکومت کی مضبوط گرفت نہ ہو نجکاری قوم کو جونکوں کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ نوّے کے عشرے میں کوڑیوں کے بھائو قومی صنعتی اداروں کی فروخت کے بعد قوم کو مہنگائی اور بیروزگاری کے جس عذاب کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی کو بھولا نہیں۔ سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کی نجکاری کے بعد راتوں رات فی بوری قیمت میں ایک سو روپے اضافہ ہوا یعنی پچاس فیصد۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد ادارے کی کارگزاری میں کتنی بہتری آئی ؟حکمران ہی بتا سکتے ہیں یا نجکاری کے اندھے حمایتی‘ صرف بینکوں کی نجکاری‘ مفید ثابت ہوئی مگر یہ پہلے بھی قومی خزانے پر بوجھ نہ تھے ‘ان کی کارگزاری بہتر ہوئی اور قوم نے سُکھ کا سانس لیا۔ اعتراضات اگرچہ اس نجکاری پر بھی بہت ہیں۔
نجکاری کے حق میں سب سے بڑی مگر بچگانہ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں‘ لیکن جن حکومتوں کے دور میں پی آئی اے‘ سٹیل ملز‘ سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن ‘ واپڈا ‘ پی ٹی وی اور دیگر ادارے منافع میں چل رہے تھے اور قومی خزانے کو اربوں روپے کی آمدنی کے علاوہ شہریوں کو باعزت روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ تھے ‘کیا ان دنوں حکومت کا کام کاروبار کرنا تھا؟ حقیقت یہ ہے پاکستان جیسے ممالک میں نیشنلائزیشن قوم کے مفاد میں ہے نہ مکمل نجکاری۔ مکس اکانومی نے پاکستان میں ترقی‘ خوشحالی اور اقتصادی و معاشی استحکام کی راہ ہموار کی اور عوامی جمہوریہ چین نے مکس اکانومی کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھایا مگر ہماری نکمی‘ نااہل اور کام چور حکمران اشرافیہ اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے بجائے سارے معاملات نجی اداروں کو سونپ کر خود صرف قومی وسائل پر عیش و عشرت ‘سیر سپاٹا اور لوٹ مارکرنا چاہتی ہے۔
سب سے پہلے تو پاکستان میں یہ طے کرنا پڑے گا کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری آخر ہے کیا؟ تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے سے یہ قاصر ہے۔ امن و امان کی حالت کسی سے مخفی نہیں ‘سرکاری تعلیمی اداروں تک کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ نجی سکیورٹی گارڈز کا بندوبست کریں کیونکہ پولیس صرف حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی حفاظت کر سکتی ہے یا چاپلوسی‘ شہریوں کو روزگار فراہم کرنے سے حکومت عرصہ ہوا دستکش ہو چکی اور ٹیکس وصولی ہو یا مہنگائی کی روک تھام ‘اس کے بس میں نہیں کیونکہ ذخیرہ اندوز‘ گراں فروش اور ٹیکس چور حکمران اشرافیہ کا حلقہ نیابت ہیں ‘ووٹر اور سپورٹر ۔ان کی گوشمالی ہو سکتی ہے نہ عوام کی دادرسی۔
پی آئی اے کی نجکاری پر اعتراض محض اس بنا پر نہیں کہ ایک قومی ادارے کی جو ریاست کا کمائو پوت‘ دنیا بھر میں قومی وقار اور ریاستی تعارف کے علاوہ ہوا بازی کے شعبے میں ہماری مہارت و عمدہ کارگزاری کی علامت ہے ‘نجکاری ہو رہی ہے؟ بلکہ نجکاری میں شفافیت کا فقدان اور اقربا پروری کے الزامات اس کا سبب ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یا زیادہ درست الفاظ میں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی پی آئی اے کے چیئرمین یا ایم ڈی رہے ۔ دونوں کے ادوار میں پی آئی اے کا بیڑا غرق ہوا مگر یہ حضرات اپنی اپنی ایئر لائنز کے مالک بن گئے‘ ان کی ذاتی ایئرلائنز خوب منافع کما رہی ہیں مگر پی آئی اے کا خسارہ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔
لوگ حیران ہیں کہ ائر مارشل نور خان‘ ائر مارشل اصغر خان‘ رفیق سہگل اور دیگر محب وطن پروفیشنلز اور دیانتدار افراد کی سربراہی میں دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز میں شمار ہونے والا ادارہ آخر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں مسلسل مائل روبہ زوال کیوں رہا؟صرف پی آئی اے ہی نہیں سٹیل ملز‘ بجلی و گیس فراہم کرنے والے ادارے بھی۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کم پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے زیادہ ان اداروں میں مفت خوری اور کام چوری کا کلچر متعارف کیا۔ تعلیم‘ تجربے اور پیشہ وارانہ دیانتداری سے تہی دست سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی میرٹ کے ان اداروں میں کھپایا گیا جن میں سے اکثر فرائض کہیں اور انجام دیتے ‘تنخواہ ان اداروں سے وصول کرتے ہیں۔ نیشنلائزیشن نے تعلیم اور صنعت کا بیڑا غرق کیا۔ 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں برسر اقتدار‘ سیاسی و فوجی حکمرانوں نے ان قومی اور نیشنلائزڈ اداروں کو اپنے چہیتوں کی چراگاہ بنا دیا۔ جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو‘ الطاف حسین‘ نوازشریف اور آصف علی زرداری سے وفاداری کا اعلان ہی میرٹ تھا اور حکمران گروہ سے تعلق ملازمت کا استحقاق۔
ضرورت سے زائد ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات‘ پی آئی اے کے اخراجات کا صرف 17 فیصد ہیں۔ نااہلی‘ کام چوری‘ مفت خوری اور لوٹ مار کا حجم کہیں زیادہ ہے ‘اوپر سے حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی طرف سے مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ ۔ورنہ یہ آج بھی منافع بخش ادارے کے طور پر اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے ۔ ہر قومی ادارہ اگر حکمرانوں کے ناقص طرز حکمرانی کے باعث پرائیویٹائز ہوتا رہا تو نوبت کہاں تک پہنچے گی؟ اور ظالمانہ مارکیٹ اکانومی عام آدمی کا کیا حشر کریگی؟ کسی کو اندازہ نہیں۔ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم سے قرضے اتارے جائیں گے‘ اب یہ تکلف بھی گوارا نہیں ‘نجکاری کا ایک ہی مقصد بیان کیا جا رہا ہے کہ حکومت بجٹ کا خسارہ اور گردشی قرضے ختم کرنا چاہتی ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ ان اداروں کی فروخت کے بعد بھی بجٹ کا خسارہ کم ہوا نہ گردشی قرضے تو پھر حکومت کیا کرے گی؟کیا موٹر وے‘ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کی باری آئے گی اور پھر تعلیمی اداروں‘ پولیس ‘ہسپتالوں ‘ایف بی آر اور پارلیمنٹ کی بھی جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور جن کی کارکردگی بہتر ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔
آخر حکمران کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ پی آئی اے ہو یا سٹیل ملز‘ ریلوے اور دیگر ادارے حکومت کی نااہلی‘ اقربا پروری‘ غلط منصوبہ بندی اور لوٹ مار کے سبب موجودہ حال کو پہنچے ۔ پیپلز پارٹی نے مختلف اداروں کے ہزاروں برطرف کارکنوں کو دس بارہ سال کے واجبات دلا کر خسارے کی راہ ہموار کی۔ کسی میں جرأت ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کا احتساب کر سکے۔ جب تک ملک میں حکمران ان اداروں کو سیاسی و ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے صرف اور صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے‘ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے‘ اور صنعتی استحکام کے لیے استعمال کرتے رہے؛ جہازوں‘ انجنوں‘ خام مال وغیرہ کی خریداری میں اربوں بلکہ کھربوں کے گھپلوں سے گریز کیا ‘یہ ادارے منافع میں چلتے رہے ۔جونہی حکمرانوں کی نیت خراب ہوئی ‘ کارکنوں کے اطوار بدلے ‘ کارگزاری صفر ہو گئی تو اچھے بھلے منافع بخش ادارے خسارے میں چلے گئے ۔سواصلاح مقصود ہے تو حکمران حیلوں بہانوں سے قومی اثاثے فروخت کرنے کے بجائے ان اداروں کو دیانتدار‘ قابل‘ پیشہ ور اور عوام دوست سربراہوں اور بورڈ آف گورنرز کے حوالے کریں ‘غیر حاضر کارکنوں کو فراغت نامے پکڑائیں ‘اگلے چھ ماہ کا ٹاسک دیں اور بہتر نتائج نہ ملنے کی صورت میں سربراہ‘ بورڈ آف ڈائریکٹرز اور کارکنوں کو مستوجب سزا ٹھہرائیں ‘سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ‘ نجکاری کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ سیٹھوں اور ساہوکاروں کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہوتا جسے رگڑ کر وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنا دیتے ہیں۔ محنت ‘ ڈسپلن‘ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب اور کرپشن کی روک تھام کے ذریعے وہ یہ معرکہ انجام دیتے ہیں ۔یہی کام حکومت بھی کر سکتی ہے ۔اگر یہ اس قابل نہیں تو پھر سوال پی آئی اے کی جوائنٹ کمشن کمیٹی کی ہٹ دھرمی‘ کارکنوں کی ہڑتال اور سیاست دانوں کی مداخلت پر نہیں حکومت کی اہلیت‘ صلاحیت‘ قابلیت اور نیّت پر اٹھنا چاہیے 'کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے ‘ قومی ادارے پر سیاست حکومت کر رہی ہے ‘اپنی نااہلی چھپانے یا اپنوں کو نوازنے کے لیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں