فرق کیا رہا

قرآن مجید میں اپنے سارے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کی مشق کو کس حکمت سے بیان کیا گیا: ''اور اس عورت کی طرح نہ ہو جائو جس نے اپنا سُوت مضبوطی سے کاتنے کے بعد تار تار کر دیا‘‘۔
عمران خان نے بلا امتیاز احتساب اور بلاتفریق مواخذے کا علم بلند کیا اور خیبر پختونخوا صوبے میں احتساب کمشن بنایا تو ان کے مداحوں اور پیروکاروں کے علاوہ مخالفین کی نظریں بھی اس شورش زدہ صوبے کے احتساب کمشن پر جم گئیں۔ ہر ایک کو یقین تھا کہ یہ احتساب کمشن کشتوں کے پُشتے لگا دے گا کیونکہ عمران خان جو کہتا ہے وہ کر کے دکھاتا ہے‘ بدترین مخالف بھی اس کی دیانت پر شک کر سکتا ہے نہ بے داغ حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اس کی خواہش پر شبہ۔ 
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھلے آدمی ہیں‘ عمران خان کے وژن اور ایجنڈے سے متفق بھی شاید ہوں مگر ہیں وہ روایتی سیاست کے علمبردار اور اپنے دھڑے کے حقوق و مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کی پاکستانی روایت کے امین‘ ورنہ احتساب ایکٹ 2014ء میں ایسی ترامیم پر ہرگز آمادہ نہ ہوتے جس کا فائدہ تو ان کے بعض وزیر‘ مشیر‘ ارکان اسمبلی اور سرکاری ملازمین اٹھائیں گے‘ لیکن منفی اثرات عمران خان کی شہرت اور تحریک انصاف کی سیاست پر پڑیں گے۔
ملک میں سرکاری ملازمین اور عوامی عہدیداروں کی مالی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کا احتساب کرنے کے لیے قوانین ‘مجموعہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں اور ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں خصوصی قوانین بھی بنتے رہے۔ پبلک اکائونٹس نام کی ایک پارلیمانی کمیٹی مختلف وزارتوں اور محکموں کی جانچ پڑتال کر کے آڈیٹر جنرل پاکستان کی طرح سزائیں تجویز کرتی ہے مگر 1988ء میں جمہوریت بحال ہونے کے بعد منتخب حکمرانوں اور ان کی زیر سرپرستی وزرا و ارکان اسمبلی نے کرپشن کا بازار گرم کیا‘ قومی اثاثوں اور سرکاری خزانے کی بندر بانٹ شروع ہوئی‘ مسٹر ٹین پرسنٹ‘ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کے علاوہ چھانگا مانگا‘ مری‘ سوات کی داستانیں عام ہوئیں‘ پیدل سواروں نے راتوں رات پجیرو‘ بی ایم ڈبلیو پر قدم رکھا تو ایک ایسے احتسابی ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو دوران اقتدار حکمرانوں اور ان کے چہیتے سرکاری افسروں کا احتساب کر سکے۔
میاں نواز شریف نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک احتساب بیورو بنایا‘ جس کی سربراہی سیف الرحمن نامی ایک ایسے شخص کو سونپی جس کی شہرت شریف خاندان کے مُرغ دست آموز اور کاروباری معاملات میں فرنٹ مین کی تھی۔ سیف الرحمن کی غلطیاں اپنی جگہ‘ عجلت پسندی نے جسٹس (ر) محمد قیوم سکینڈل کو جنم دیا جس نے احتساب اور عدالت دونوںکی ساکھ برباد کر دی مگر آصف علی زرداری کے سرے محل اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشہور زمانہ نیکلس کا پردہ فاش کرنے میں کامیاب رہے‘ اور سوئٹزرلینڈ میں ایک ایسا مقدمہ بھی انہی کی کوششوں سے چلا جس نے بالآخر شاہی جوڑے کو فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے مفاہمت اور بدنام زمانہ این آر او پر مجبور کر دیا۔ مقام عبرت یہ ہے کہ محترمہ کو تیسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع نہ ملا اور اقتدار کے مزے آصف علی زرداری نے لوٹے جنہیں محترمہ دبئی میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ آئی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی احتساب کا عَلم زور و شور سے بلند کیا‘ ایک نیک نام جرنیل سید امجد کو نیب کا سربراہ مقرر کیا مگر جلد ہی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں نے احتساب کی بساط لپیٹ کر اسے مخالفین کی مشکیں کسنے کے حوالے سے بدنام ادارہ بنا کر رکھ دیا۔ پرویز مشرف کے ایک قریبی ساتھی جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب میں بہت سی تفصیلات درج ہیں کہ کس طرح اس ادارے نے حکومت وقت کی خدمت انجام دی اور جنرل شاہد عزیز کو سید امجد کی طرح بصد سامانِ رسوائی اس کوچے سے رخصت ہونا پڑا۔ اس دور میں پلی بارگیننگ کا قانون منظور ہوا‘ جس کے تحت بڑے بڑے لٹیرے اور ڈاکو اپنی کرپشن کا مخصوص اور برائے نام حصہ قومی خزانے میں جمع کرانے کے بعد جیلوں سے باہر نکلے اور پھر سیاست و معیشت پر چھا گئے۔ قومی خزانے سے ایک کھرب روپیہ لوٹنے والے کو اگر دس پندرہ ارب روپے کی واپسی پر کلین چٹ مل جائے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ این آر او مارکہ جمہوریت نے بھی احتساب کو مذاق بنا دیا‘ انہی لوگوں کو احتساب کمشن کے تقرر کا اختیار مل گیا‘ جن کے خلاف یہ کارروائی کا مجاز ہے۔ ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک احتساب کا لفظ خوب بدنام ہوا۔ صرف وہی لوگ اس کی زد میں آئے جنہوں نے مُک مکا سے انکار کیا اور جونہی یہ نوبت آئی سب داغ دھبے دھل گئے۔
عمران خان نے اپنے زیر اقتدار صوبے میں احتساب کمشن تشکیل دینے کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو اُمید تھی کہ یہاں چونکہ پولیس اور انتظامیہ حکمرانوں کی ذاتی وفادار نہیں‘ اسے آزادی عمل بھی حاصل ہے اور سیاسی مداخلت کے پر بھی کاٹ دیئے گئے ہیں جبکہ احتساب کمشن کے چیئرمین کی شہرت بھی اچھی ہے ‘اس لیے گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں قومی لٹیروں کے احتساب کی شدید خواہش رکھنے والے عوام کی توقعات میں اضافہ ہوا۔خیال یہ تھا کہ احتساب کے حوالے سے یہ اقدام دوسروں کے لیے قابل رشک ہو گا۔ ہوتی حکومت میں خیبر پختونخوا لوٹ مار کے حوالے سے بدنام بھی بہت تھا‘ ابتدا میں عمران خان اور پرویز خٹک نے مخلوط حکومت کی ضرورتوں اور مصلحتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے احتساب کمشن کو کھلی چھوٹ دی اور ان کے اپنے وزیر بھی زد میں آئے؛ حتیٰ کہ شیرپائو گروپ کی علیحدگی پر حکومت ٹوٹتے ٹوٹتے بچی مگر اب شاید پرویز خٹک مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہتے‘ چنانچہ ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کی یہ استدعا منظور کر لی گئی ہے کہ احتساب کمشن بدنام و کرپٹ ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کو گرفتار کرنے سے قبل سپیکر اور چیف سیکرٹری سے اجازت طلب کرے۔ یہ اس طرح کا قانون ہے جو ڈاکٹر عاصم حسین اور آصف علی زرداری کے بعض چہیتے سرکاری افسروں کی گرفتاری کے بعد سندھ حکومت نے منظور کیا اور پاکستان بھر میں ہدف تنقید بنا۔
ڈاکٹروں پر لازمی ملازمت کے قانون کے اطلاق کو پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کے ساتھ جوڑ کر میڈیا میں عمران خان کے خوب لتّے لئے گئے جو زیادتی تھی کیونکہ پی آئی اے کی نجکاری اورسرکاری ہسپتالوں کی خودمختاری میں فرق ہے۔ پنجاب میں یہ کام پہلے ہی ہو چکا ہے مگر فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ بھرتیاں میرٹ پر ہوتی ہیں نہ بورڈ خودمختار ہیں اور نہ اصلاح احوال کی سنجیدہ کوشش کسی نے کی۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جانے والا صحت مند انسان بھی دو چار بیماریوں میں مبتلا ہو کر واپس آتا ہے۔ چونکہ حکمران اشرافیہ ان ہسپتالوں سے علاج کراتی نہ ان کی حالت سدھارنے میں سنجیدہ ہے اس لیے گندگی‘ تعفن‘ بدنظمی اور لوٹ مار ان کا مقدر ہے اور یہاں تعینات مسیحا نجی پریکٹس میں خوش ہیں۔
عمران خان اگر اپنے صوبہ کے ہسپتالوں کو شوکت خانم ہسپتال کے معیار پر لے جانا چاہتا ہے تو ڈاکٹروں کو مزاحمت نہیں تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ مگر پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز کی طرح جو آئے روز ہڑتال پر رہتے ہیں ‘کے پی کے کے سینئر ڈاکٹروں نے وہ راستہ اختیار کیا جو ان کے منصب کے منافی اور قانون سے متصادم ہے جس پر لازمی ملازمت کا قانون نافذ کرنا پڑا۔ ہڑتال کی ناکامی سے بھی ظاہر ہے کہ ہڑتالیوں کو اپنے شعبے کا اعتماد حاصل نہیں۔
تاہم احتساب ایکٹ میں ترامیم؟ کوئی جواز نہ فائدہ‘ آخر سپیکر اور چیف سیکرٹری کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی منطق کیا ہے؟ یہی کہ کرپٹ عناصر کو گرفتاری سے قبل اپنے بچائو کی مہلت مل جائے ‘وہ اس قانون کی آڑ میں ضمانت قبل از گرفتاری کرا لیں یا بیرون ملک فرار کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ پرویز خٹک نے جنرل (ر) حامد خان کے تحفظات کو اہمیت نہ دی مگر عمران خان کو تو ان کی بات سننی چاہیے تھی۔ یہ احتساب کے نعرے اور عمران خان کی ساکھ کا سوال ہے جس پر عمرانی سیاست کا دار و مدار ہے‘ اگر وزیر اعلیٰ کو احساس نہیں تو کپتان کو ضرور ہونا چاہیے۔ جب صوبہ کی پولیس آزاد ہے‘ کمشن کسی کے دبائو میں نہیں اور دیگر ادارے خود مختار ہیں تو ایماندار‘ دیانتدار اور صاف ستھرے کردار کے عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کو خطرہ کس سے ہے؟ کیا کمشن انتقامی کارروائی کر سکتا ہے؟ کیا حکومت سیاسی مصلحتوں سے کام لیتی ہے یا عدالتوں سے خوفزدہ ہیں کہ وہ انصاف دینے کے بجائے صرف کمشن کے جھوٹے سچے الزامات پر انہیں سزا سنا دیں گی؟ جب ایسا کچھ نہیں تو ترمیم کا مقصد کیا ہے؟ قرآن مجید میں مذکور بڑھیا کی طرح اپنے مضبوطی سے کاتے ہوئے سُوت کو تار تار کرنے‘ بکھیرنے کی مشق۔ پھر بلوچستان‘ سندھ‘ پنجاب‘ کے پی کے اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور آصف علی زرداری‘ نواز شریف‘ اسفند یار ولی اور عمران خان میں فرق کیا ہوا؟ مرکز اور صوبے کے نیب میں ما بہ الامتیاز چیز کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں