باخدا دیوانہ باش و با محمد ؐ ہوشیار

سیّدیوسف سلیم چشتی مرحوم اپنے مضمون''اقبالؒ اور عشق رسول ﷺ‘‘ میں رقم طراز ہیں :''مجھے 1925ء سے 1938ء تک حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن غازی علم الدین شہید کا ذکر چلا تو علامہ اقبال ؒفرط عقیدت سے گلو گیر ہو گئے‘ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگے: ''اسّی گلاں ای کر دے رہ گئے تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا‘‘(یعنی ہم محض باتیں ہی کرتے رہ گئے مگر ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔)
مزید لکھتے ہیں:''غازی علم الدینؒ کی شہادت نے تمام مسلمانوں کو متاثر کیا‘ کچھ حضرات ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ آیا علم الدینؒ کی موت شہادت ہے یا نہیں ؟ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ‘اس کا انحصار نیّت پر ہے‘ اگر یہ حقیقت ذہن میں ہو کہ ناموس رسالتؐ پر حملہ آور کا مقصد پیغمبر علیہ السلام کے وقار کو مجروح اور اس ایمان محکم کو متزلزل کرنا ہے جو اس پیغام رشدو ہدایت پر استوار ہے تو یہ صرف انسانی یا پیغمبرانہ وقار کا قتل نہیں‘ بلکہ انسانیت کی عزت و وقار کا قتل بن جاتا ہے ‘اس کوشش یا اقدام کے خلاف ہر مدافعت صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے اور وہی اس کا ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر رقت آمیز لہجے میں کہا‘ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص میرے پاس آ کر کہے کہ حضور اکرمﷺ نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے‘‘۔
حیات اقبالؒ میں ایک واقعہ مذکور ہے:''ایک دن علامہ کے گرد ان کے ارادت مند جمع تھے اور علمی مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی ۔اسی اثناء میں کالج کے چند طلبہ بھی آ کر شریک محفل ہوئے ۔دوران گفتگو ایک روشن خیال نوجوان نے حضور اکرمﷺ کا نام نامی اسم گرامی ''محمد صاحب‘‘ کہہ کر لیا۔ علامہ غصّے سے کانپنے لگے‘ چہرہ سرخ ہو گیا ‘فرمایا اس کو میری آنکھوں سے دور کرو‘اس نابکار کو میرے آقا ﷺ کا نام لینے کی تمیز بھی نہیں۔ پھر آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ بار بار کہتے‘ جس قوم کے نوجوانوں کی یہ حالت ہو‘ اس کا مستقبل کیا ہو گا‘‘۔
یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب ہم انگریز کے غلام تھے‘ سیاسی طور پر محکوم ‘ معاشی شعبے میں کمزور مگر ہماری قیادت مولانا محمد علی جوہر ؒ ‘ علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے پاس تھی۔ وہی قائد اعظم جس نے 1939ء میں کہا:''مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا ۔دولت‘ شہرت اور عیش و عشرت کے لطف اُٹھائے‘ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غدّاری نہیں کی... میرا خدا یہ کہے کہ تم بے شک مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔
اب ہم آزاد ہیں ‘آزادی بھی ایسی ویسی نہیں۔ اپنی نوعیت کی منفرد آزادی‘ بقول فیض احمد فیضؔ ؎
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ وخشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لوٹ مار کی آزادی ہے‘ قانون شکنی اور آئین شکنی جرم نہیں‘ قتل و غارت گری کا مرتکب اگر کوئی طاقتور اور دولت مند ہو توقابل گرفت نہیں۔ کراچی میں جن لوگوں نے پچیس ہزار بے گناہ مار ڈالے ‘بلدیہ فیکٹری میں تین سو معصوم جل گئے‘وہ اب بھی سیاسی میدان میں دندناتے پھرتے ہیں اور قاتلوں کا نام لیتے ہوئے آزاد میڈیا کی زبان پر چھالے پڑتے ہیں جبکہ رسول اکرم ﷺ کی گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں سے اوّل تو ریاست تعرّض نہیں کرتی‘ حیلوں بہانوں سے ایف آئی آرکے اندراج سے اعراض برتا جاتا ہے‘ جہاں کہیں قانون کسی مجرم کو اپنی گرفت میں لے اور کوئی عدالت خوف خدا‘ خوف خلق اور قانونی تقاضوں کے تحت ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں سزا سنا دے تو اس پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آتی اور ریاستی اداروں کی مہربانی سے سزا یافتہ مجرم بیرون ملک چلے جاتے ہیں ‘وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ۔ 
کہنے کو یہاں انسداد توہین رسالتؐ کے لیے ایک قانون موجود ہے‘ 295 سی‘ مگر آج تک یہ محض نمائشی قانون ہے جسے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے ہمیشہ استعمال کیا گیا۔ جذباتی اور غیر متوازن افراد نے ہمیشہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر قانون کو ہاتھ میں لیا اور مسائل پیدا کئے۔ ناموس رسالتﷺ کے حوالے سے غیر محتاط اظہار خیال‘ بیرون ملک توہین رسالتؐ کے واقعات پر آزادی اظہار رائے کی آڑ میں غیر ذمہ دارانہ بحث و تمحیص اور سلمان رشدی‘ تسلیمہ نسرین‘ ٹیری جونز اور اس قبیل کے دیگر گستاخان رسولؐ کے خلاف پُرامن احتجاج کو انتہا پسندی قرار دینے کی روش نے پاکستان میں حسّاسیت بڑھا دی ہے اور ہر راسخ العقیدہ مسلمان کوشبہ ہے کہ مغربی استعماری ایجنڈے کے تحت یہاں عشق مصطفیﷺ کوجرم اور توہین رسالتؐ کو انفرادی حق قرار دینے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
ممتاز قادری کو اعلیٰ عدالتوں سے سزا ملی تو معاشرے کا ردعمل متوازن رہا۔ اگرچہ ممتاز قادری کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ اُن کا موقف توجہ اور تسلی سے سنا گیا نہ مطلوبہ گواہوں کو شہادت کا موقع ملا‘ تاہم سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور شخص کا قانون ہاتھ میں لینا عوامی سطح پر پسندیدگی حاصل نہ کر سکا‘ یہ توقع مگر کسی کو بھی نہیں تھی کہ میاں نوازشریف جیسے عبادت گزار اور عشق رسولﷺ کے دعویدار‘ گھروں میں میلاد مصطفیٰ ﷺ کی محفلیں سجانے والے وزیراعظم کے دور میں سزائے موت پر عملدرآمد کی نوبت بھی آئے گی اور ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو باعزت رہائی کا موقع فراہم کرنے والے حکمران تیزاب کے تالاب میں چھلانگ لگانے کو ترجیح دیں گے۔ بجا کہ قانون کی حکمرانی ہماری قومی ضرورت ہے مگر معاشرے میں سکون اور استحکام کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے بھی لال مسجد میں قانون کی حکمرانی کا اہتمام کیا اور اکبر بگٹی کا قتل بھی رٹ آف سٹیٹ قائم کرنے کی سنجیدہ اور شعوری کوشش تھی مگر ملک اور قوم کو حاصل کیا ہوا؟ شُتر بے مہار دہشت گردی‘ خودکش دھماکے اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک جسے بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ سپورٹ کر رہے ہیں۔
ممتاز قادری کے خلاف عدالتی فیصلے کی صورت میں رٹ آف سٹیٹ کا اہتمام ہو گیا تھا۔ کئی دوسرے سزا یافتہ افراد جیلوں میں پڑے ہیں ‘یہ بھی عمر بھر رکھے جا سکتے تھے‘ یہ حکمت ہوتی‘ مگر نواز حکومت نے ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرآمد کا اہتمام کر کے ایک ایسے طبقے کو بھی برگشتہ کیا ہے جو انتہا پسند ہے نہ قانون شکن اور نہ ریاست یا حکومت کے خلاف ہمہ وقت آمادئہ احتجاج‘ واقعی نوازشریف بم کو لات مارنے کے ماہر ہیں۔ کسی کو عاشقان رسولﷺ کے قلب و روح کو چھلنی کرنے اور دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے والوں کا انجام شاید یاد نہیں رہا۔ یہاں تو معاملہ ذاتِ مصطفی ﷺ کا بھی ہے۔ ع
باخدا دیوانہ باش و بامحمدؐ ہوشیار

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں