نہ جا اس کے تحمل پر

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کو ایک خط لکھا جو مجھے بھی موصول ہوا ہے‘ لکھتے ہیں ''آپ کے علم میں ہے کہ کرپشن ملک کا ایسا ناسور بن چکی ہے جس نے نہ صرف ہماری قومی زندگی کے مالیاتی بلکہ اخلاقی اور انتخابی شعبوں پر بھی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ نیب کے ایک سابق چیئرمین کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ملک میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو سالانہ4380ارب روپے تک جا پہنچتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ملک گیر ''کرپشن فری پاکستان تحریک‘‘ چلانے کا فیصلہ کیا ہے ہمیں اُمید ہے کہ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں گے‘‘
سراج الحق صاحب کا خط پڑھ کر میں ہنس پڑا۔ کم از کم اپنے بارے میں‘ میں کبھی اس خوش فہمی کا شکار نہیں رہاکہ سیاسی اور قومی معاملات میں کسی قومی رہنما اور سیاسی و مذہبی جماعت کو رہنمائی فراہم کرسکتا ہوں۔ اپنی تحریروں میں ہم لوگ رنگ برنگے مشورے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دیتے ضرور ہیں مگر جانتے ہیں کہ انہیں کوئی پڑھتا ہے نہ سنجیدگی سے لیتا ہے۔ ہزاروں یا لاکھوں لوگوں کی عقیدت کا مرکز بن جانے والے شخص کو بھلا اس کی ضرورت بھی کیا ہے؛ البتہ اپنا دل پشوری کرنے اور اپنے ناظرین و قارئین پر رعب ڈالنے کے لیے ہم بقدر ہمت و بہ مطابق اوقات مشورے دیتے اور رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
مجیب الرحمن شامی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق کو فلاں فلاں موقع پر یہ مشورہ کیوں نہیں دیا شامی صاحب نے کہا '' کون سا موقع اور کیا مشورہ؟۔ جنرل ضیاء الحق کیا میرے مشوروں کے محتاج تھے۔ بس ضیاء الحق ہماری بات سن لیتے تھے ہمارا جی خوش ہو جاتا۔ وہ ہمارے مشوروں پر چلتے تو دس سال تو کیا دو چار سال بھی نہ نکال سکتے‘‘۔ بات بھی درست ہے حکمران اور سیاستدان لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ہنر جانتے ہیں اکثر اوقات وہ اہلِ علم وفن کو بھی یہ تاثر دے کر کہ انہیں مشورہ اور رہنمائی درکار ہے خوش فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ زیادہ چالاک حکمران بعض دانشوروں اور صحافیوں کو اپنا وزیر‘ مشیر اور مصاحب بنا لیتے ہیں مگر کرتے وہ اپنی مرضی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو عقل کل چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لیے ہمارے محتاج ہیں وہ بھلا ہمیں کیا مشورہ دیں گے اور ہماری کیا رہنمائی سکتے ہیں۔
دوسروں کا تو مجھے علم نہیں مگر سراج الحق صاحب میری مانیں تو میڈیا سے رہنمائی کی توقع نہ کریں اور کرپشن کے خلاف مہم اپنے بل بوتے پر چلائیں‘میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی قوت‘ طاقت اور اوقات کا بھرم یکم مارچ کو کھل گیا جب ملک کے ایک مریل سے ادارے پیمرا نے مارشل لائی انداز میں ہماری زبان پر تالا لگایا اور ٹی وی سکرین سے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جمع ہونے والے لاکھوں افراد کو غائب کر دیا۔ مجھے جنرل ضیاء الحق کا آمرانہ دور یاد آیا جب پی ٹی وی پر بھٹو کا نام اور ذکر اسی طرح ممنوع تھا یا پھر جنرل پرویز مشرف کا 3نومبر 2007ء کے بعد کا زمانہ جب نجی ٹی وی چینلز پر پابندی لگی اور بعض مقبول پروگرام محض اس بنا پر بند کر دیئے گئے کہ فوجی آمریت انہیں اپنے لیے خطرناک سمجھتی تھی۔ مگر بالآخر ہوا کیا؟ بھٹو آج بھی سیاسی حقیقت ہے اور پرویز مشرف کے ناپسندیدہ پروگرام پورے طمطراق سے چل رہے ہیں ۔بھارت میں افضل گورو کی پھانسی پر حکومت نے میڈیا کو پابند سلاسل کیا نہ ذکر سے روکا، کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔ ہمارے ہاں مگر جمہوریت کو آزاد صحافت سازگار نہیں۔ ہم بھی گویا عشروں تک جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزادی سے دستبردار ہونے کو تیاربلکہ بے تاب بیٹھے تھے بقول عندلیب شادانی ؎
چاہت کے بدلے میں ہم بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک‘ کوئی ہمیں اپنائے تو
اشارہ ہوا اور ہم نے ع
جُبّہ‘ خرقہ‘ کرتا‘ ٹوپی مستی میں انعام کیا
ہمارے بھائی سراج الحق اگر واقعی کرپشن کے خلاف تحریک چلانے میں سنجیدہ ہیں اور یہ محض وقتی اُبال نہیں جو اکثر مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں وقتاً فوقتاً آتا اور ادنیٰ مقاصد کی تکمیل کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے تو انہیں میڈیا سے توقعات وابستہ کرنے کے بجائے ان غریب عوام سے رابطہ کرنا چاہیے جن کے پائوں میں جوتی ہے نہ تن پر پورے کپڑے اور جن کے بچے خوراک‘ تعلیم اور طبی سہولتوں کو ترستے ہیں۔ قومی سطح پر اس نعرے کی خوب پذیرائی ہو سکتی ہے لوگ اب جان گئے ہیں کہ اس ملک کا مسئلہ نمبر ایک کرپشن ہے یہی دیگر امراض خبیثہ دہشت گردی‘ اغوا کاری‘ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی ماں ہے گزشتہ روز اسحاق ڈار نے سینٹ کو بتایا کہ گزشتہ اڑھائی سال میں حکومت نے چودہ کھرب تین سو اٹھارہ ارب کا قرضہ حاصل کیا قومی آمدنی میں چودہ ہزار ارب روپے شامل کرکے بھی ہم آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہیں تو فقط اس لیے کہ کرپشن نے قومی معیشت کا خون نچوڑ لیا ہے اور ہم جو کماتے اور عالمی اداروں سے قرض لیتے ہیں وہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ غریب کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں مگر امیروں کے محلات برقی قمقموں سے جگمگاتے اور سارے وسائل انہی قمقموں کی جگمگاہٹ برقرار رکھنے کے لیے توانائی کے شعبوں میں جھونکے جا رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ جس گھر میں بجلی کا کنکشن ہے نہ گلی میں کھمبا اور علاقے میں گرڈ سٹیشن، انہیں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کیا فائدہ ؟وہ حکمرانوں سے روٹی مانگتے ہیں جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور امراض سے نجات مگر انہیں ہزاروں میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔
سراج الحق صاحب کی تحریک کیا رنگ لاتی ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ؎
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
کوئی بھلا سوچ سکتا تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے ناخوشگوار واقعہ کو حکمران شیر مادر کی طرح ہضم کر جائیں گے‘ حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی اور وزرا کو 29فروری اور یکم مارچ کے واقعات پر سانپ سونگھ جائے گا۔ طلال چودھری ‘ دانیال عزیز اور ماروی میمن جیسے موقع بے موقع بولنے والے کہیں دکھائی دیں گے نہ سنائی۔ تبدیلی کا ایک اور مضبوط اشارہ سابق میئر کراچی سید مصطفی کمال کی انیس قائم خانی کے ساتھ ہمراہ پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے الطاف حسین پر ہر وہ الزام سامنے لگایا جو ان کے مخالفین نجی محفلوں میں لگاتے ہوئے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں بھائی کو خبرنہ ہو جائے اور اس کے جنونی پیرو کار کچھ کر گزریں یہ مکافات عمل ہے۔ ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو مٹ جائے گا
کئی عشروں سے لوگوں کی قسمت کا مالک حکمران طبقہ خدائی گرفت میں ہے اور ایک ایک کر کے سب کے اعمال نامے اُن کے ہاتھوں میں تھمائے جا رہے ہیں اُن کے ہاتھ پائوں اور دیگر اعضا وجوارح بولنے لگے ہیں اور کسی کوڈھنگ کا جواب نہیں سوجھ رہا۔ ؎
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
ظلم بصورت دہشت گردی بڑھے‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری یا کرپشن کی شکل میں‘ قانون قدرت یہ ہے کہ جو انسان اور انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے اُسے مٹ جانا ہے۔ الطاف حسین کے ثنا خواں اب اس کے جرائم کی تفصیل دھڑلے سے بیان کر رہے ہیں اور جنہیں کل تک حکمران اشرافیہ کی سیاسی بصیرت ‘ غیر معمولی فراست اور مستقبل شناسی کا کلمہ پڑھتے دیکھا وہ گزشتہ ایک ہفتہ کے واقعات سے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہیں۔ ع
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
ڈاکٹر عاصم‘ صولت مرزا‘ عزیر بلوچ‘ ذوالفقار مرزا‘ مصطفی کمال اور انیس قائم خوانی نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ نیب ڈرامہ نہیں کر رہی اور احتساب میں سنجیدہ ہے تو لاہور اور اسلام آباد میں دوسری طرز کے عزیر بلوچ‘ ڈاکٹر عاصم اور مصطفی کمال بھی زبان کھولنے میں دیر نہیں لگائیں گے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ؎
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں