لفّاظی

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کی پریس کانفرنس مایوس کن رہی۔ مصطفی کمال کے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں انکشافات کو انہوں نے لفّاظی قرار دیا اور جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے مطالبہ کو ناروا۔
مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی وطن واپسی اور باغیانہ گفتگو پر الطاف بھائی اور ان کے پیروکاروں کی پریشانی دیدنی ہے۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھا سکتا ہے۔ نائن زیرو سے ایجوئر روڈ تک'' جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کے ورد سے بے بسی‘ اضطراب اور بے چینی چھلکتی ہے۔ مگر وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس اور سنجیدہ الزامات کو نظر انداز کرنے کا سبب؟ مصطفی کمال سے ٹھوس شواہد پیش کرنے کا مطالبہ؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم دکھائی تھی۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں احتجاج کیا‘ برطانوی سفارت کار کو احتجاجی مراسلہ دیا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا ۔وہ دن اور آج کا دن کسی قانونی چارہ جوئی کی اطلاع نہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے نام الطاف بھائی کے خط کا بھید آج تک نہیں کھلا۔ الطاف حسین کی نئی دہلی میں تقریر اور تقسیم برصغیر پر معذرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ طارق میر اور محمد انور کے لندن پولیس کو دیئے گئے بیانات بھی چودھری نثار علی خاں کے علم میں ہیں ۔اس کے باوجود وہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جیسے واقفان حال کے بیانات کو لفّاظی قرار دیتے اور ٹھوس ثبوت طلب کرتے ہیں تو آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔ چودھری صاحب شائد چاہتے ہیں کہ کراچی کے عوام ''را‘‘الطاف حسین‘ محمد انور ‘ طارق میر اور جاوید لنگڑا سے مؤدبانہ اپیل کریں کہ براہ کرم رابطوں کے ٹھوس‘مصدقہ‘ دستاویزی ثبوت‘ شناختی کارڈ‘ بھارت میں تربیت کے تصدیقی سرٹیفکیٹ ‘خفیہ اجلاسوںکے ویڈیو کلپس اور فراہم کردہ رقوم کی رسیدیں فی الفور سکاٹ لینڈ یارڈ یاوزارت داخلہ کو ارسال کریں اور یہ حلف نامہ بھی لف کہ کوئی بات چھپائی نہیں گئی‘ کسی معاملے میں غلط بیانی کا شائبہ تک نہیں تاکہ بھارتی ایجنٹوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
پاکستان میں فنڈنگ اور پاکستانیوں کی بھارت میں ٹریننگ کے بارے میں ''را‘‘ کے سابق چیف کا اعتراف‘ سابق ڈی آئی جی کراچی افضل شگری اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے انکشافات‘ آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹیں‘ بلدیہ ٹائون سانحہ کے حوالے سے جے آئی ٹی اور بیرون ملک شائع ہونے والے مضامین سب لفاظی ہیں کیا؟ معظم علی‘ محسن علی سید اور خالد شمیم کے بیانات بھی اس زمرے میں شامل ہیں۔ یہی حماقت ہم نے سقوط مشرقی پاکستان سے قبل عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کے حوالے سے کی ۔یہ ننگ ملت‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن ملک توڑنے کے اعلانات کر رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی مگر مغربی پاکستان میں مفاد پرست فوجی حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ٹولہ اسے سیاسی بیانات اور سیاسی حکمت عملی کا نام دے کر نظر انداز کر رہا تھا۔ 
بریں عقل و دانش ببایدگریست
مصطفی کمال دودھ کے دھلے نہیں ۔اڑھائی تین عشروں تک سنگین جرائم میں شریک رہے۔ کراچی کے ناظم کے طور پر بھائی کی خدمت میں سالانہ کتنی رقم بطور نذرانہ بھیجتے رہے؟ تفتیش ہونی چاہیے کیونکہ انہیں محض اہل کراچی کی خدمت کے لیے اس منصب پر فائز نہیں کیا گیا تھا۔ صدقہ‘زکوٰۃ‘ فطرہ اور چرمہائے قربانی کی رقوم لندن بھیجنے کا اعتراف انہوں نے خود کیا ہے۔ انیس قائم خانی اس نیٹ ورک کو چلاتے تھے جو دہشت کی علامت اور ایم کیو ایم کی اصل طاقت ہے؛ لہٰذا الطاف حسین سے اظہار برا￿ت کے بعد ان کے سات خون معاف نہیں ہونے چاہئیں۔ اچھی ایم کیو ایم اور بُری ایم کیو ایم کی پالیسی پہلے بھی کراچی کے عوام کو سکھ نہیں دے سکی ‘اب بھی اگر حماد صدیقی‘ طراوش شکیل عمر‘ سلیم تاجک‘ فاروق سلیم اور کسی لے پالک کو مصطفی کمال کا ساتھ دینے کی بنا پر کلین چٹ ملی تو شائد تسلی بخش نتائج کی اُمید بر نہ آئے کہ یہ ایک عسکریت پسند گروپ سے دوسرے عسکریت پسند کی طرف مراجعت ہو گی جس سے کراچی میں بحالی ٔامن کی ضمانت نہیں مل سکتی۔ باز پرس مصطفی کمال اور انیس قائم خانی سے بھی ہونی چاہیے تاکہ کسی کو اسٹیبلشمنٹ پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے نہ مہاجروں کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کا۔مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مصطفی کمال کی سچی باتوں پر توجہ نہ دی جائے ۔یہ گناہوں کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے نکلنے دیا جائے ۔ ڈاکٹر صغیر احمد آ گئے ہیں‘ دوسرے آ رہے ہیں ۔بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
سیاست کے سینے میں تو دل ہوتا ہے نہ سیاستدانوں کی آنکھ میں حیا‘ کل تک ایم کیو ایم کی سینہ زوری اور بھارت نوازی کا رونا رونے والے اہل سیاست کے سینے میں اچانک ہمدردی کا دودھ اُترنے لگا ہے اور مصطفی کمال ‘ انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر احمد کی صاف گوئی کو وہ ایک قومی جماعت کے خلاف سازش سے تعبیر کرنے لگے ہیں ؛ مگر برس ہا برس تک زبان بندی کا مزہ چکھنے والا میڈیا کیوں اس صورت حال پر مضطرب ہے؟ رینجرز آپریشن کے طفیل جرائم پیشہ افراد اور فاشسٹ گروہ کے خلاف کھل کر بولنے اور لکھنے کا جو موقع ملا ہے اُسے ضائع کرنے پر اصرار کیوں؟ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ مصطفی کمال اس وقت کیوں آئے؟ پہلے کیوں نہیں بولے اور انہیں کس کی آشیر باد حاصل ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔جواباً اگر مصطفی کمال ان بزر جمہروں سے پوچھے کہ رینجرز آپریشن سے قبل حق گو صحافی کلمہ حق کہنے سے کیوں گھبراتے تھے‘ محمد صلاح الدین کی شہادت پر اتنا احتجاج بھی کیوں نہ کر سکے جتنا صحافی کے ساتھ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے کارکنوں کی تکرار پر کرتے ہیں‘ ولی خان بابر کی شہادت پر مجرموں کا نام لینے سے شرمانے کی وجہ کیا تھی؟اور الطاف بھائی کی گُھرکیاںسن کر بے مزہ نہ ہونے کا سبب آخر کیا تھا؟ ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو جس قدر دبا کر رکھا ‘کسی فوجی دور میں بھی نہیں۔ کم از کم آمروں کے دور میں صحافی اپنے معصوم بچوں‘ بہو‘ بیٹیوں اور مائوں بہنوں کی عزت اور زندگی کے بارے میں خوف کا شکار نہیں ہوتے تھے۔
کراچی کے صحافی رائو محفوظ علی خاں کو نہیں بھولے ہوں گے ‘شاہ پور چاکر کے باسی‘ نسلاً اصلاًمہاجر ایم کیو ایم کے ہمدرد اور روزنامہ نوائے وقت کے ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر۔ بھائی کی مرضی کے مطابق خبر نہ لگانے کی پاداش میں انہیں اس قدر خوفناک دھمکی ملی کہ وہ نیوز ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے جاں ہار گئے۔ اسی اخبار کے دفتر واقع ایم اے جناح روڈ پر بم دھماکہ ہوا تو تحقیقات کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ نے مالکان کو مطلع کیا کہ یہ لندن سے موصولہ احکامات پر ہوا مگر ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسر اور اہلکار چن چن کر مارے گئے مگر 1997ء میں میاں نواز شریف نے ریاست کی طرف سے ان قاتلوں اور تخریب کاروں کا تاوان ادا کیا جنہیں نصیر اللہ بابر نے کیفر کردار تک پہنچایا تھا ۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے جرائم میں سرفہرست کراچی کی بدامنی اور ریاستی اداروں کے خوف سے اپنے کونوں کھدروں میں چھپے باگڑ بلّوں کو اقتدار و اختیار کے دودھ کی رکھوالی پر بٹھانا ہے جس کے نتیجے میں برسوں تک دہشت گردی اور خونریزی کراچی کا مقدر بنی رہی۔
زیادتی کسی سے نہیں ہونی چاہیے اور ناانصافی ریاست و ریاستی اداروں کو ہرگز زیبانہیں۔مگر سانپ کا سر کچلنے کا جو موقع میّسر ہے اسے سیاسی مصلحتوں اور صحافتی موشگافیوں کی بھینٹ چڑھانا تقاضائے دانش نہیں‘پرلے درجے کی سنگدلی ہے ۔جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع اور سیاسی جماعتوں کی تطہیر کے بغیر کراچی میں قیام امن ممکن ہے نہ پاکستان میں ترقی و خوشحال کا خواب شرمندہ￿ تعبیر ہو سکتا ‘ لیکن اگر سیاسی مصلحتوں کا شکارحکومت ‘ملک دشمنی کے سنجیدہ الزامات کو وقعت نہ دے اور سرفراز مرچنٹ کے بیان پر انکوائری کا حکم دینے والے وزیر داخلہ مصطفی کمال کے اعترافی بیان کو لفّاظی سے تعبیر کریں تو آدمی سر پیٹ لیتا ہے۔ملک دشمنی اور 'را‘ سے رابطوں کے ثبوت فراہم کرنا اگر مصطفی کمال کی ذمہ داری ہے تو حکومت اور اس کی ایجنسیاں کس مرض کی دوا ہیں ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں