ہمیں یقین ہوا‘ ہم کو اعتبار آیا

مرد حُر اپنے 16 جون 2015ء والے بیان سے مُکر گئے‘ انہیں مُکرنا ہی تھا‘ غلطی تسلیم کرنا سیاستدانوں کی سرشت میں نہیں اور جھوٹ کو وہ معیوب نہیں سمجھتے۔''وعدے اور معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ‘‘کہنے والے شخص کے لیے اینٹ سے اینٹ بجنے والے بیان سے مُکرنا کون سا مشکل ہے ؎
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں 
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
میں نے کچھ عرصہ رپورٹنگ بھی کی‘ بڑے بڑے سیاستدانوں کو بیان دے کر مُکرتے دیکھا‘ کبھی حیرت نہیں ہوئی۔ البتہ سارے سیاستدان ایسے نہیں۔ 1986ء میں حامد ناصر چٹھہ سے انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا جو تازہ تازہ وزیر اطلاعات بنے تھے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس دبنگ اور صاف گو سیاستدان نے کہا '' فوجی گورنروں کو اب رخصت ہو جانا چاہیے‘‘۔ اخبار نے اسی شہ سرخی کے ساتھ انٹرویو شائع کیا۔ لاہور سے اسلام آباد تک ہر جگہ زلزلہ آگیا۔ چٹھہ صاحب وزیراعظم محمد خان جونیجو کے بااعتماد ساتھی تھے اور ملک میں مارشل لاء نافذ۔ میں صبح دس بجے رپورٹنگ میٹنگ میں شرکت کے لیے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ چٹھہ صاحب نے انٹرویو میں شامل ان الفاظ کی تردید کر دی ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی ۔یہ ایک رپورٹر اور اس کے اخبار کی ساکھ کا سوال تھا۔
حامد ناصر چٹھہ کی عمومی شہرت اپنی بات پر قائم رہنے اور ہر طرح کا دبائو برداشت کرنے والے شخص کی تھی ‘ لہٰذا میں نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کا انٹرویو مس رپورٹ ہوا؟ میں نے وہ بات لکھ دی جوآپ نے کہی نہیں جبکہ میرے پاس نوٹس موجود ہیں؟ چٹھہ صاحب نے کہا : ''نہیں ‘مجھے اعتراض یہ نہیں بلکہ جو الفاظ میں نے رواروی میں کہے‘ ان کی شہ سرخی لگ گئی جس پر صرف گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان ہی نہیں دیگر جرنیل بھی ناراض ہیں ‘‘میں نے عرض کیا کہ آپ یہی بات اخبار کی انتظامیہ سے کہہ دیں ‘جو انہوں نے کہہ دی ۔
پنجاب اسمبلی کے سدا بہار رکن رانا پھول خان اخبارات کو انٹرویو نہیں دیتے تھے ۔گپ شپ وہ غضب کی کرتے اور دل کی بات زبان پر بے دھڑک لاتے۔ انہی رانا پھول خان نے اپنے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم کو ایک ایم اے پاس خاتون کی درخواست ملازمت پیش کی تو میرٹ کے نام پر مسترد ہو گئی۔ رانا صاحب نے وزیراعلیٰ سے کہا :جس صوبے میں میٹرک پاس شخص کے وزیراعلیٰ اور تین جماعت پاس کے وزیر بننے کی راہ میں میرٹ رکاوٹ نہیں‘ وہاں کسی ایم اے پاس کو ملازمت سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے۔وزیراعلیٰ اس صاف گوئی پر پگھل گئے۔
میں نے پیپل ہائوس میں رانا صاحب سے سیاسی گپ شپ کی جس کے دوران انہوں نے کہا کہ 1985ء کی صوبائی اسمبلی کا معیار پھول نگر کی یونین کونسل کے برابر ہے۔ میں نے پوچھا رانا صاحب : یہ بات آپ آن دی ریکارڈ کہہ رہے ہیں؟ بولے ‘میں کوئی بات چھپ چھپا کر نہیں کرتا۔ دفتر آ کر میں نے خبر فائل کی اور دوسرے روز صبح صبح مری چلا گیا۔ بھلا زمانہ تھا‘ موبائل فون تھے نہیں کہ فوراً کوئی رابطہ کر پاتا ۔ہفتہ بعد واپسی ہوئی تو پتہ چلا کہ رانا پھول خان کسی بھی قسم کے اخباری انٹرویو سے انکاری ہیں ۔کہتے ہیں کہ میں نے زندگی بھر کسی کو انٹرویو دیا ہی نہیں‘ اگر دینا ہوتا ‘بھا طارق اسماعیل کو دیتا جو میرے پرانے دوست ہی نہیں پکے مسلم لیگی بھی ہیں۔ دفتر نے بازپرس کی تو میں رانا صاحب کے پاس چلا گیا۔ سخت برہم تھے اور بولے : میں نے کب تمہیں انٹرویو دیا تھا جو تم نے چھاپ دیا۔ میں نے کہا ‘رانا صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ اخبار میں کہیں نہیں لکھا کہ میں نے آپ سے انٹرویو کیا ہے‘ دوسرے آپ سچ سچ بتا دیں کہ آپ نے یہ باتیں کی تھیں یا نہیں۔ راجپوتی خون جوش میں آیا اور کہنے لگے : باتیں تو میں نے کی ہیں‘ میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ میں نے انٹرویو نہیں دیا۔ میں نے وضاحت کی کہ شائع ہونے والی باتیں گپ شپ کے عنوان سے شائع ہوئی ہیں اور انٹرویو کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ بولے ‘تو پھر ٹھیک ہے ‘ میں تمہارے دفتر والوں سے کہہ دیتا ہوں کہ رپورٹر نے ایک لفظ غلط نہیں لکھا۔ طارق اسماعیل مرحوم سر پیٹ کر رہ گئے کہ انٹرویو اور گپ شپ کے چکر میں‘ رانا پھول نے اپنی شکایت واپس لے لی۔
یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب سیاستدانوں کو اپنے کیے کا پاس ہوتا تھا اور وہ خوب سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے۔ عزت نفّس کا احساس انہیں کہہ مکرنیوں سے باز رکھتا اور حاشیہ نشین بھی اُن کے ہر جھوٹ سچ پر سر نہیں دھنتے تھے۔ مگر اب صورتحال خاصی مختلف ہے ۔زرداری صاحب عدلیہ بحالی کے حوالے سے میاں نوازشریف کے ساتھ کئے گئے تحریری معاہدے سے مُکر گئے اور میاں نوازشریف نے 2013ء کے انتخابات میں حامد ناصر چٹھہ کے ہم خیال گروپ سے کیا گیا معاہدہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اس انتخابی معاہدے میں پیش پیش ہمایوں اختر خان آج تک شرمندہ اور چٹھہ صاحب اپنے آپ سے برہم پھرتے ہیں کہ ایک بار پھر دھوکہ کھا گئے۔ زرداری صاحب نے 16 جون 2015ء کو ہزاروں افراد کے سامنے جو باتیں کیں‘ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے انہیں بگوشِ ہوش سُنا‘ کہا انہوں نے یہ کہ : ''آپ نے تین سال رہنا ہے‘ ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔ ہمیں سب پتہ ہے آپ کے پیٹی بند بھائی جو کرتے رہے‘ 1947ء سے اب تک آپ کے پیٹی بند بھائیوں کی فہرست ہمارے پاس ہے ‘ہم نے لسٹ نکالی تو اینٹ سے اینٹ بج جائے گی‘ ہوشیار‘ ہوشیار‘ ہوشیار ‘ہمیں تنگ نہ کریں ورنہ پورا ملک ہل جائے گا‘ ‘وغیرہ وغیرہ۔ اب فرماتے ہیں‘ یہ بات تو میں نے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کہی تھی۔ لوگ انگشت بدنداں ایک دوسرے کو حیرت سے تک رہے ہیں کہ یہ تین سال اور پیٹی بند بھائیوں کا اشارہ کیا میاں نوازشریف اور عمران خان کے لیے تھا ؎ 
بس اتنے ہی جری تھے حریفانِ آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے
جب اقتدار و اختیار‘دھن دولت‘ نمود و نمائش ‘ رعب و دبدبہ اور لوٹ کھسوٹ ہی انسان کا مطمح نظر اور مقصد حیات ہو اور نظریہ و کردار کو بے وقوفی کی علامت سمجھا جانے لگے تو پھر یہی ہوتا ہے ۔جو مُنہ میں آیا کہہ دیا اور جب جی چاہا مُکر گئے۔ہمارے موجودہ سیاسی دیوتائوں کو یہ بھی یقین ہے کہ ان کے اندھے پیروکار اور بہرے پرستار ایسی باتوں کو مائنڈ نہیںکرتے‘ ورنہ الطاف حسین کے صبح و شام بدلتے بیانات اور بسااوقات باعث شرم گفتگو کے منفی اثرات ملک کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور مہذب و شائستہ شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست پر ضرور مرتب ہوتے۔ زرداری صاحب نے 2015ء میں جو کہا ‘وہ فوجی قیادت کو براہ راست دھمکی تھی ۔رینجرز اور فوج کی قیادت مرعوب نہیں ہوئی تو اچھے بچے کی طرح انہوں نے اپنی مونچھ نیچی کر لی اور فوج کی مدح سرائی کرنے لگے۔ اب یہ ہمارے دانشوروں‘ تجزیہ کاروں‘ ٹی وی اینکرز اور دنیائے سیاست کے رضا ربانی اور خورشید شاہ جیسوں کا فرض ہے کہ وہ اس ''ذہانت‘‘ ''موقع شناسی‘‘ اور ''دوراندیشی ‘‘کی داد دیں۔ جب وطن واپسی سے گریز کو زرداری صاحب کی علالت کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ آصفہ زرداری کو ٹویٹ کر کے والد گرامی کو اپنی عیادت کی دعوت دینا پڑی تو جرنیلوں کے خلاف دیئے گئے بیان کی توجیہ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے میں کیا حرج ہے۔ زرداری کے جیالے الطاف بھائی کے مریدوں سے کم ہیں کیا؟ مائیک اور کیمرہ جھوٹ بول سکتا ہے‘ اخبارات کی چیختی چلاتی شہ سرخیاں غلط ہو سکتی ہیں اور بیس کروڑ عوام ثقل سماعت کا شکار بھی‘ مگر زرداری صاحب نے جو کہا اس پر یقین و اعتماد کرنا چاہیے ؎
ہم جو کہتے ہیں سراسر ہے غلط
سب بجا‘ آپ جو فرمائیے گا
مرد حُر کو اتنا جری ہونا چاہیے اور موقع کی مناسبت سے بات بدلنے کا خوگر بھی۔ کسی میں یہ جرا￿ت کہاں کہ کہہ سکے ''ماڑی سی تے لڑی کیوں سی‘‘۔ زرداری صاحب نے اچھا کیا فوجی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلا دیا ؎
دیکھئے‘ پاتے ہیں عُشاّق بُتوں سے کیا فیض
اکِ برہمن نے کہا ہے کہ ''یہ سال اچھا ہے‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں