شب درمیان رب مہربان

لاہورکی مصروفیات اور گہما گہمی سے اُکتاکر عزیز دوست احمد خان لغاری کی نور چشم کے عقد نکاح میں شرکت کے لیے ڈیرہ غازی خان کا قصد کیا تو سوچا کہ اپنے بزرگوں کے مزارات پر فاتحہ خوانی کے لیے شکار پور کا چکر بھی لگا لوں۔ اور دیرینہ دوستوں کے نیاز بھی حاصل کر لوں۔ ؎
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
تین دن کے سفر میں ملاقاتیں بہت ہوئیں‘ سرائیکی وسیب کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا‘ صوفیاء‘ علماء‘ دانشوروں اور اخبار نویسوں کی مجلسیں نصیب ہوئیں اور خطّے میں بدلتے رجحانات کا سرسری مطالعہ کیا۔
لوگ جنوبی پنجاب کی معاشی پسماندگی اور سماجی زبوں حالی پر کڑھتے اور تخت لاہور کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر میں ہمیشہ سرائیکی وسیب کی انسان دوستی‘ علم پروری اور صوفیانہ ذوق پر رشک کرتا ہوں۔ علم وادب اور روحانیت کے حوالے سے زرخیز سرزمین اقتصادی طور پر پسماندگی کا شکار کیوں ہے؟ یہ الگ اور وسیع موضوع ہے جس پر اقتصادی‘ معاشی ‘ سماجی اور عمرانی ماہرین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
ملتان‘بہاولپور، کوٹ مٹھن‘ تونسہ شریف‘ مہار شریف‘ سندیلہ ‘دین پور اور حاجی پور میں ایک سے بڑھ کر ایک آفتاب علم و شریعت اور ماہ تاب طریقت و روحانیت آسودۂ خاک ہے۔ عبدالرشید نسیم جنہیں اہل علم اور اقبال شناس علامہ طالوت کے نام سے جانتے ہیں‘نو تک محمید میں آسودۂ خاک ہیں ۔مولانا حسین احمد مدنی کے بیان''قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ پر علامہ اقبالؒ آزردہ خاطر ہوئے اور پکار اُٹھے ؎
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
زدیو بند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمدؐ عربی است
تو علامہ اقبالؒ کے دوست بلکہ نیاز مند علامہ طالوت نے مولانا مدنی سے وضاحتی بیان جاری کرایا اور علامہ اقبالؒ کو یقین دہانی کرائی کہ دارالعلوم دیو بند کے شیخ الحدیث مغربی تصوِّر وطنیت کے قائل نہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں علامہ اقبالؒ کے ایک اور نیاز مند ماسٹر محمد رمضان عطائی مدفون ہیں۔ عطائی صاحب علامہ طالوت کی طرح سندیلہ شریف کے ایک صوفی بزرگ فیض محمد شاہ جمالیؒ کے مرید اور اقبالؒ کے فکری پیرو کار تھے‘ شاعری کا ذوق تھا‘ اقبال ؒ کی مشہور زمانہ رباعی ؎
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پزیر
ورحسابم راتو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
منظر عام پر آئی تو عطائی صاحب تڑپ اُٹھے ۔ زاد راہ لیا اور علامہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ شناسائی پہلے سے تھی۔ عرض گزار ہوئے کہ پیرو مرشد! میرے سارے اردو اور فارسی کلام کے بدلے یہ رباعی اس فقیر کو بخش دیں۔ علامہ متاثر ہوئے‘ کہا ''آج سے یہ رباعی آپ کی ہوئی‘‘ علامہ نے اپنا اردو اور فارسی کلام اپنی زندگی میں طبع کرایا مگر اس رباعی کو شامل نہ کیاکہ دوراُفتادہ نیاز مند کی نذر کر چکے تھے‘ البتہ یہی مضمون بانداز دِگر یوں باندھا ؎
بپایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہؐ ما را
حساب من زچشم اونہاں گیر
سرائیکی وسیب میں اقبالؒ کے عشاق صرف علامہ عبدالرشید نسیم طالوت‘ اسد ملتانی اور محمد رمضان عطائی ہی نہ تھے ‘ریاست بہاولپور کے سابق وزیر اعظم مخدوم زادہ حسن محمود کے والد مخدوم الملک غلام میراں شاہ بھی حلقۂ اقبال کے رکن تھے۔ علامہ اقبالؒ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک مرکز تعلیمات و تحقیقات ایسا ہونا چاہیے جہاں وہ اپنے رفقا ء کے ساتھ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا کارنامہ انجام دے سکیں۔ مخدوم غلام میراں شاہ نے انہیں دعوت دی کہ وہ لاہور کے جھمیلوں سے آزاد ہو کر جمال دین والی کا رخ کریں‘ جہاں اقبال نگر کے نام سے ایک علمی مرکز ان کے لیے چشم براہ ہے۔ اقبالؒ اور مخدوم الملک کے مابین خط و کتابت میں علامہ کی آمادگی نظر آتی ہے مگر خرابی صحت کی بنا پر وہ اپنے اس عزم و ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔مخدوم غلام میراں شاہ نے اپنے صاحبزادے کا نام اقبال محمود علامہ اقبالؒ کی نسبت سے رکھا اور اقبال نگر بھی اقبال کے لیے آباد کیا۔سرائیکی وسیب کی شناخت یہی علم دوست اور صوفیاء ہیں اور ملتان مدینتہ الاولیاء کے طور پر سرفہرست ہے، وہی ملتان جس کے بارے میں حضرت شیخ بہائوالدین ذکریاؒ نے فرمایا ؎
ملتان ما بجنّتِ اعلیٰ برابر است
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کنند
سرائیکی وسیب میں مدفون ایک عالم باعمل اور شیخ وقت حضرت فیض محمد شاہ جمالی بھی ہیں۔ اقبالؒ کے نیاز مند عبدالرشید نسیم طالوت انہی شاہ جمال صاحب کے مرید باصفا تھے۔
حضرت فیض محمد شاہ جمالیؒ کے بارے میں علامہ عبدالرشید نسیم طالوت کا ایک شعر ہے ؎
زفیض نسبتِ شاہ جمالی
شدم بے خوف از شان جلالی
دیگر صوفیا ء کی طرح فیض محمد شاہ جمالی بھی اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو لینے کے بجائے دینے‘ سمیٹنے کے بجائے بانٹنے کا خوگر رہا۔ گھر میں موجود کھانے پینے کی ہر چیز سونے سے قبل بانٹنا معمول رہا۔ اہل خانہ اور حاشیہ نشین تھوڑا سا حصہ کل کے لیے بچا کر رکھنے کا مشورہ دیتے تو فرماتے''شب درمیان ربّ مہربان‘‘ جو رب کریم کل ہمیں سانس لینے کی مہلت دے گا‘ وہ کھانے پینے کا بندوبست بھی کرے گا‘آج یاد رکھا ہے تو بھلا کل کیوں بھولے گا‘‘۔
خلافت نے ملوکیت کا روپ دھارا اور وارثان محراب و منبر نے ملوک و سلاطین کی حاشیہ نشینی اختیار کی تو مسلمانوں کی قیادت دو حصوں میں بٹ گئی۔ سیاسی قیادت پر وہ لوگ قابض ہوئے جن کے پاس قبائلی عصبیتوں‘ مکارانہ چالوں اور قوت و دولت کا سرمایہ وافر مقدار میں تھا۔ یہ مسلمانوں کے حکمران تھے۔ ان کے مدمقابل وہ تھے جن کا سرمایہ حیات خدا خوفی‘ حب رسولؐ‘ صبر و توکل‘ تقویٰ فقر‘ احتساب ذات‘ امانت و دیانت اور ایثار جبکہ مقصد حیات اسلام کی سربلندی‘ اسوۂ رسولؐ کی پیروی و ترویج اور بلا لحاظ مسلک و مذہب‘ رنگ و نسل انسانوں کی خدمت۔ حضر ت ابوالحسن خرقانی ؒ نے اپنی درگاہ کے دروازے پر جلی الفاظ میں لکھوایا''آں کس کہ دریں جامی آید‘ نانش بد ہید و از ایمانش مپر سید‘‘(جو بھی یہاں آئے اسے کھانا کھلائو‘ مذہب کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرو۔)
یہی صوفیاء تھے جن کے قول سے نہیں عمل سے برصغیر میں لاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور جن کے فقر غیور نے دنیا کو پائوں کی ٹھوکر اور دنیا داروں‘ بندگان سیم و زر کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔انہی ایثار پیشہ‘ خدا مست‘ فیاض اور سیر چشم بزرگوں نے دلوں کو مسخر ‘ دماغوں کو مسحور کیا اور ایک عالم کو مذہب کا گرویدہ۔ شرق سے غرب تک اب بھی دلوں پر انہی کی حکمرانی ہے۔
سیرچشمی اور فیاضی کی تعریف حضرت امام جعفر صادقؓ نے شیخ شفیق بلخی ؒکے سامنے یوں کی ''اگر کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو ہم شکر کرتے ہیں‘مل جائے تو دوسروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ویُؤثرون علی انفسہم و لوکان بہم خصاصہ (اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود کتنے ہی حاجت مند ہوں)
شریعت‘ طریقت اور خدمت کے امتزاج نے مسلمانوں کو جہانگیری و جہانبانی کی خلعت پہنائی اور خود فکری و خود بینی نے انہیں دنیا میں سرخرو کیا ؎
اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنو ازند گدا را
سرائیکی وسیب میں اس علمی اور روحانی روائت کو آگے بڑھانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ شعر و ادب اور صحافت کے میدان میں بھی سرائیکی وسیب کے جوہر قابل نے پورے پاکستان کو متاثر کیا۔
مگر افسوس کہ اولیاء ؒ و صوفیاءؒ کے وارث وہ لوگ ہوئے جنہیں فقرو درویشی سے کوئی رسم و راہ اور نہ علم و روحانیت سے کسی قسم کا واسطہ ہے۔ درگاہیں آباد ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ شکم پُری کرتے ہیں‘ مگر علمی و روحانی پیاس بجھانے کا اہتمام ان درگاہوں پر ہے نہ ان مدارس میں جہاں سے ایک زمانے میں بہائوالدین زکریا ؒ‘ خواجہ فریدؒ اور علامہ عبدالرشید طالوت فیض یاب ہوئے۔ اقبالؒ کو جو شکوہ ایران و تبریز سے تھا وہ آج ہر درد مند کو سرائیکی و سیب سے ہے۔ ؎
اُٹھا نہ پھر کوئی رومیؒ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں ‘ وہی تبریز ہے ساقی
مگر مایوسی گناہ ہے اور اُمید ایک اثاثہ جو بالآخر انسان کو سرخرو کرتا ہے ۔سرائیکی وسیب تو ویسے بھی خواجہ فریدؒ کی فکری و روحانی میراث کا محافظ ہے جس نے ہمیشہ روہی اور چولستان کو گل و گلزار میں بدلنے کی آرزو کی اور ہر طرح کے دکھ سکھ بھلانے کا پیغام دیا ؎
تھی خوش فریدؒتے شاد دل
ڈُکھڑیں کو نہ کر یاد دل
جھوکاں تھیسن آباد دل
ایہا نئیں نہ وہسی ہک منڑی
روزنامہ دنیا کے کالم نگار خالد مسعود خان‘ عزیز دوست احمد خان لغاری‘ منظور احمد آصف اور مظہر خان لشاری کی مہربانی کہ شکار پور‘ ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں کئی ہم دم دیرینۂ چشم براہ پائے۔ یادگار ملاقاتوں اور سرمایہ جاں یادوں کا اثاثہ سمیٹ کر واپس پہنچ گیا ہوں۔ دل مگر اب بھی فرید نگری میں اٹکا ہے۔ ؎
حیف! در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدیم وبہار آخر شد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں