آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے اعلیٰ افسر کی گرفتاری ہمارے سکیورٹی اداروں کی کامیابی ہے مگر اس پر حکومت کی طرف سے انہیں اتنی شاباش بھی نہیں ملی جتنی ماڈل ٹائون میں گلو بٹ کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں کے کُھنے سینکنے اور گاڑیاں توڑنے پر پولیس افسروں اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے ملی تھی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے ایک مریل سا بیان تو جاری کیا مگر باقی سارے بڑبولے خاموش ہیں اور گرفتاری کا کارنامہ انجام دینے والے ان کی طرف یوں دیکھ رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ؎
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟
حکمرانوں کا دل بھارت اور تجارت میں اٹکا ہے۔ سکیورٹی اداروں میں انہیں ہر سُو جنرل (ر) آصف نواز‘ وحید کاکڑ‘ پرویز مشرف اور ظہیرالاسلام نظر آتے ہیں‘ مگر بات بات پر پاکستان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے‘ نان سٹیٹ ایکٹرز کو قابو کرنے اور بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت سامنے لانے کی تلقین کرنے والے ہمارے دانشوروں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز کے انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں سے کسی کی زبان کھلی ہے نہ مسنگ پرسنز کی آڑ میں پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو کچھ بولنے کی توفیق ہوئی ؎
کہ جیسے منہ میں زباں نہیں‘ نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
پاکستان میں ''را‘‘ کی مداخلت کل کا قصّہ نہیں‘ یہ ادارہ تشکیل ہی بھارت نے اپنے ہمسایوں کو عدم استحکام سے دوچار‘ باری باری اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے لیے دیا۔ ''را‘‘ میں 26 سال تک خدمات انجام دینے والے بی برمن نے اپنی وفات سے قبل ایک کتاب لکھی The Kao-boys of RAW جس میں مشرقی پاکستان میں بھارتی سازشوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس بیورو سے بی برمن کی خدمات رمیشور ناتھ کائو نے ''را‘‘ کے لیے حاصل کیں‘ اور کیریئر کے آخری چھ سال انہوں نے را کے کائونٹر ٹیررازم یونٹ کے سربراہ کے طور پر گزارے۔ کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ ''را‘‘ کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری سونپتے ہوئے حکومت نے دو ترجیحاتی اہداف مقرر کئے۔
To Strengthen its Capability for the Collection of intelligence about Pakistan and China and for Covert action in east Pakistan.
اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مغربی پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں کام کرنے والے بنگالی بیوروکریٹس ''را‘‘ کے خصوصی ہدف تھے تاکہ انہیں علیحدگی پسندوں سے تعاون پر آمادہ کیا جا سکے۔ انہیں خفیہ طریقے سے مشرقی پاکستان میں باغیوں کی پناہ گاہوں میں تربیت دی جاتی تھی۔
اندرا گاندھی کے احکامات پر ''را‘‘ نے مشرقی پاکستان میں نفسیاتی جنگ کا آغاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بھرپور پروپیگنڈا کیا۔ اس مقصد کے لیے مکتی باہنی کے سینکڑوں کارندوں کو تربیت دے کر مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا جنہوں نے ستر ہزار سے زائد خواتین‘ مردوں اور بچوں کو قتل کر کے الزام پاکستانی فوج پر لگایا۔ اسی پروپیگنڈا کے زیر اثر پوری دنیا میں پاکستانی فوج کا امیج ایک ایسی فورس کا بنا جو اپنے ہی شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے خطرہ ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں بھی پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار کامیابی سے آزمایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے اس بار آلہ کار غیر ملکی میڈیا نہیں بلکہ وہ اندرونی عناصر ہیں جنہیں پاکستان کے سکیورٹی اداروں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ کتنے بیوروکریٹس اور سفارتی اہلکار ''را‘‘ نے علیحدگی پسندوں کے حامی بنائے کسی کو علم نہیں۔ کسی کو فرصت ہی نہیں کہ جانچ پڑتال کر سکے۔
چند ہفتے قبل جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید صاحب نے سینئر اخبار نویسوں سے بریفنگ میں پتے کی بات کہی‘ پوچھا گیاکہ اُن کے خیال میں پٹھان کوٹ واقعہ میں کوئی پاکستانی ادارہ یا نان سٹیٹ ایکٹر ملوث ہے یا نہیں تو انہوں نے اپنی برأت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''سچی بات یہ ہے کہ جب بھارت سازشوں سے باز نہیں آتا اور پاکستان میں فاٹا سے کراچی اور بلوچستان تک دہشت گردی‘ تخریب کاری‘ علیحدگی پسندی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے تو یہ توقع کرنی غلط ہے کہ کہیں سے کوئی جواب نہیں ملے گا۔ بھائی جان یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے۔‘‘ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ایک بیان میں بھارتی الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے یہی کہا تھا کہ ہمارے تو نان سٹیٹ ایکٹرز پر الزام ہے مگر بھارت کے سٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بھارت کا ایک الزام آج تک ثابت نہیں ہوا۔ سرتاج عزیز صاحب کے بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری نے اس کی تصدیق کر دی؛ تاہم حکومتی خاموشی سے یوں لگتا ہے کہ وہ ابھی تک گومگو کا شکار ہے‘ یا پھر اُسے معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں۔
ہمارا کوئی انٹیلی جنس افسر تو درکنار کوئی معمولی سکیورٹی گارڈ بغیر ویزے کے بھارت کے ہاتھ لگا ہوتا تو نریندر مودی سرکار کے علاوہ ''آزاد‘‘ میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا۔ تانے بانے لشکر طیبہ‘ جیش محمد اور آئی ایس آئی سے ملائے جاتے۔ اجیت دودل اور منوہر پاریکر دور دراز کی ایسی کوڑیاں لاتے کہ ہمارے فیصلہ سازوں کے دماغ ٹھکانے آ جاتے۔ اوباما اور بانکی مون کو شکایت لگائی جاتی۔ ہمارے وزیر اعظم کو ایک نئی جے آئی ٹی بنانا پڑتی‘ حکومت کوئی اور ایف آئی آر درج کراتی اور عالمی میڈیا شمال سے جنوب تک ان کے رشتہ داروں کی تلاش میں بستی بستی قریہ قریہ چھان مارتا۔ مگر حسین مبارک پٹیل کی اقامت گاہ پر کوئی مجمع لگا‘ بھارتی اور عالمی میڈیا نے اس پر خصوصی پروگرام کیے نہ ''را‘‘ کا ماضی کھنگالا گیا۔ دوہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ چند ہفتے قبل بھارت کا ایٹمی مواد بیرون ملک سمگلنگ کرنے کی ایک کوشش ہوئی‘ راجستھان پولیس کے اے ٹی ایس یونٹ نے یہ کوشش ناکام بنا دی مگر کسی نے اتنی بڑی خبر کا نوٹس ہی نہ لیا۔ اگر ایسی ہی کوئی خبر پاکستان کے بارے میں ہوتی تو نئی دہلی سے واشنگٹن اور پیرس سے لندن تک خطرے کی گھنٹیاں بج جاتیں اور عالمی میڈیا القاعدہ‘ داعش اور معلوم نہیں کس کس تنظیم سے اس واقعے کے ڈانڈے ملاتا مگر بھارت کو سات خون معاف ہیں۔
قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ''را‘‘ کی ریشہ دوانیوں اور پاکستان میں اس کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کی سازشوں اور کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے اب کسی قسم کی کمزوری دکھائی جائے نہ مصلحت پسندی سے کام لیا جائے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج ''را‘‘ نے 1960ء میں بوئے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور دیگر پاکستان دشمن عناصر کو فوجی تربیت‘ اسلحہ اور فنڈز سب کچھ بھارت سے ملا مگر ہمارے ہاں بحث یہ ہو رہی تھی کہ قائد اعظم نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے میں جلد بازی کی اور ون یونٹ کا قیام غلطی تھا۔ حقوق کا معاملہ بھی اچھالا گیا اور عوامی لیگی پروپیگنڈے کو جو بھارت کے اشارے بلکہ حکمت عملی کے تحت ہو رہا تھا بنگالی عوام کے جذبات کا مظہر قرار دے کر اپنی ہی فوج اور ایجنسیوں پر الزام تراشی کی جاتی رہی۔ اب بھی صورتحال کم و بیش یہی ہے بلوچستان اور کراچی میں جو لوگ ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ اور مستند باغیوں‘ علیحدگی پسندوں کو حقوق کا علمبردار قرار دیا جا رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے علیحدگی پسندوں کو‘ ناراض بلوچ کہنے پر پابندی لگائی ہے مگر میڈیا بضد ہے کہ انہیں ناراض بلوچ ہی کہے اور لکھے گا۔ بلوچستان کابینہ میں انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگتی کے بجائے قومی میڈیا حیربیار مری‘ براہمداغ بگتی اور سردار سلمان دائود کو اہمیت دیتا ہے جبکہ اسلام آباد میں بھی وطن دشمنوں کے لیے محبت کا زمزم بہہ رہا ہے۔
کل بھوشن یادیو کے انکشافات کی روشنی میں اب تمام وطن دشمن تنظیموں اور گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے‘ ایران سے بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر عزیر بلوچ اور کل بھوش یادیو تہران اور چاہ بہار میں کیا کر رہے تھے؟ کسی قسم کی رو رعایت نقصان دہ ہے۔ اب بھی کسی کو بھارتی مداخلت میں شک ہے تو وہ عقل کے ناخن لے اور بھارت کی پاکستان دشمن تاریخ کا ایک بار پھر مطالعہ کرے۔ موم بتی مافیا کا سدّباب بھی ہونا چاہیے جو ہر موقع پر قوم کو یہ دھوکہ دینے میں مشغول رہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات بہتری میں رکاوٹ ہمارے سکیورٹی ادارے اور ان کے پروردہ جہادی گروہ ہیں۔ بھارت تو دوستی کے لیے مرا جا رہا ہے ہم فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔1971ء کی غلطیاں دہرانے کی گنجائش نِشتہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں