گل آغا اور راحت ملک نے مُجھے اور مجاہد بریلوی کو گاڑی میں ڈالا اور کچلاک کی طرف چل پڑے۔ میں نے بہتیرا شور مچایا کہ رات دس بجے اتنا دور جا کر کھانا کھانے کی کوئی تُک ہے نہ خالی ازخطر۔ مگر راحت ملک مانے نہ گل آغا۔ مجاہد بریلوی نے کہا‘ بجا کہ آپ کے سونے کا ٹائم ہے مگر ہماری تو یہ جاگنے کی گھڑی ہے۔ گل آغا نے گرہ لگائی‘ آپ مہمان ہیں اور یہاں مہمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زندہ بدست مردہ۔
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد مشہور زمانہ السلیم ہوٹل سے ایک میل کے فاصلے پر ایک روایتی ریستوران میں پڑائو کیا۔ السلیم ہوٹل کی وجہ شہرت اب شہباز تاثیر ہے‘ جسے افغان طالبان کا ایک کمانڈریہاں چھوڑ گیا ۔ کچلاک روڈ آباد تھی‘ خروٹ آباد سے گزرے تو راحت ملک نے بتایا کہ موجودہ آپریشن شروع ہونے سے قبل یہاں سے شام ڈھلے کسی پردیسی تو درکنار مقامی کا گزرنا بھی محال تھا۔ لُٹنے پٹنے کے علاوہ جان سے گزرنے کا خطرہ کسی کو اس طرف کا رُخ نہ کرنے دیتا۔ جگہ جگہ ایف سی کے ناکے تھے اور ان پر حملے بھی معمول کی بات تھی۔
کوئٹہ پہنچا تو شام کو لاہور میں سانحہ گلشن پارک کی اطلاع ملی‘ تھکاوٹ میں دُکھ کی ملاوٹ نے طبیعت پر بوجھ بڑھا دیا۔ ذہن فوراً بلوچستان سے پکڑے گئے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کی طرف گیا۔ ''را‘‘ کا یہ لیفٹیننٹ کرنل سطح کا افسر بلوچستان سے گرفتار ہوا‘ جسے اسلام آباد کے سوا ہر جگہ‘ ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے پیر کی شب قوم سے خطاب میں اس اہم ترین واقعہ بلکہ قومی ادارے کی کامرانی کو نظرانداز کیا اور مشترکہ پریس کانفرنس میں ہنس مُکھ اور محفل کو کشت زعفران بنانے کی صلاحیت سے مالا مال وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید بیزار و لاتعلق نظر آئے۔ پٹھان کوٹ واقعہ پر میاں نوازشریف کی بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سری لنکا سے فی الفوربھارتی وزیراعظم کو فون کر کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا، اپنے ساتھ گئے پاکستانی صحافیوں کے سامنے کہا کہ میں معاملے کی تہہ تک پہنچوں گا اور جس حد تک جانا پڑا جائوں گا۔ میری مصدقہ اطلاع کے مطابق کل بھوشن یادیو نے یہ بڑھک ماری تھی کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر کے تاریخ میں اندرا گاندھی‘ مانک شاہ‘ جگجیت سنگھ اروڑا اور میجر جنرل بھان کے ساتھ اپنا نام لکھوانا چاہتا ہے۔ مگر اس شخص کی گرفتاری پر وزیراعظم کی خاموشی؟
کل بھوشن یادیو کا سراغ آئی ایس آئی نے کم و بیش دو سال قبل لگایا کہ یہ ذات شریف ایران میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور سبوتاژ کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ میں مصروف ہے۔ ایک ڈیڑھ سال کل بھوشن یادیو کے تیار کردہ نیٹ ورک میں نقب زنی میں لگا اور بالآخر کوشش کامیاب ہوئی۔ موصوف کے حوصلے اس حد تک بلند کہ بلوچستان میں آزادانہ آمدروفت شروع کر دی اور پچھلے چھ ماہ کے دوران یہ کم و بیش چار بار پنجگور‘ تربت کے ارگرد اپنے دوستوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوا‘ پکڑے جانے پر اسے پتا چلا کہ پاکستان کی پرائم ایجنسی نے صرف علیحدگی پسندوں کا نہیں ان کے غیر ملکی سرپرستوں کا بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ چاہ بہار اور بلوچستان کے مختلف مقامات پر اس کی سرگرمیوں‘ انتہائی خفیہ گفتگو‘ پیسے کی ترسیل اور مقامی ایجنٹوں کی آمدورفت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ کر ہی موصوف کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور وہ اپنا پورا کچا چٹھا اگلنے پر مجبور ہو گیا کہ کچھ چھپانا آسان تھا نہ اپنے بارے میں ایجنسیوں کی اطلاعات و معلومات کو جھٹلانا سہل۔اب اڑتی سی اک خبر ہے زبان طیور کی کہ ''را‘‘ نے چاہ بہار میں کمانڈر کل بھوشن یادیو کے نیٹ ورک سے وابستہ اپنے ایجنٹوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا ہے‘ 27 مارچ کو دو ایجنٹ تہران پہنچا دیئے گئے جنہیں بھارتی سفارت خانے کی عمارت میں رکھا گیا ہے۔ انہیں دوسرے ممالک میں بھیجنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ششمیت نامی بھارتی افسر کو یہ ٹاسک ملا ہے۔
گلشن اقبال سانحہ پر کوئٹہ بھی سوگوار تھا۔ یوم صحافت کی تقریب کا آغاز شہدائے گلشن اقبال کے لیے فاتحہ خوانی سے ہوا اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری‘ کمانڈر سدرن کمانڈلیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض‘ مشیر اطلاعات رضا خان بڑیچ‘ چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ سمیت تمام مقررین نے واقعہ کی مذمت کی، وزیراعلیٰ نے سپورٹس فیسٹیول کی بقیہ تقریبات منسوخ کر دیں۔ کوئٹہ کے اہل دانش اس سانحہ کو کمانڈرکل بھوشن کی گرفتاری کا ردعمل اور بھارتی ایجنٹوں کا کیا دھرا قرار دیتے ہیں۔ وہ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان کی دہشت گردی کو الگ الگ انداز میں نہیں دیکھتے اور اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ ابھی تک ہمارے حکمران اس معاملے کو الگ الگ عینک سے دیکھنے‘ جانچنے کے مرض میں مبتلا یہ باور کرنے سے کیوںقاصر ہیں کہ ممبئی‘ پٹھان کوٹ کے واقعات پاکستان کا گھیرا تنگ اور دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھے۔
تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری نے کھل کر اور دوسرے مقامی مقررین نے دبے الفاظ میں قومی میڈیا سے گلہ کیا کہ وہ اس اہم صوبہ اور رقبہ کے لحاظ سے نصف پاکستان کو صفحات اور سکرین پر نظرانداز کرتا ہے اور ہرگز یہ نہیں سوچتا کہ مستقبل میں معاشی و اقتصادی مرکز بننے کے بعد یہی صوبہ انہیں وسائل فراہم کرے گا اور پاکستان کے دفاع و سلامتی کی جو جنگ بلوچستان میں لڑی جا رہی ہے اس میں ریٹنگ اور اشتہارات کی کاروباری توقعات سے بالاتر ہو کر اپنا حصہ ڈالنا‘ میڈیا کی قومی ذمہ داری ہے جس پر میں نے عرض کیا کہ قومی میڈیا کی ذمہ داری بجا‘ مگر صوبائی حکومت اور اس کے میڈیا منیجرز اپنے طرزعمل پر بھی غور کریںاور سیاسی لیڈر شپ کو مضبوط موقف کے ساتھ مائیک اور کیمرے کا سامنا جرت مندی سے کرنا چاہیے‘ لاپروائی اور گریز و حجاب کا یہ زمانہ نہیں۔
ایک پوری نسل کو تباہ کرنے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کوئٹہ میں اب کھل کر بات ہونے لگی ہے اور اجتماعات میں بھی کسی کو یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ براہم داغ بگتی‘ حیر بیارمری‘ جاوید مینگل یا ڈاکٹر اللہ نذر کا کوئی حامی و پیروکار خطرہ جاں بن سکتا ہے۔ یہ کریڈٹ سابقہ وموجودہ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ‘ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض‘ سابق و موجودہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک اور میر ثناء اللہ زہری کے علاوہ اُن کے ساتھیوں سرفراز بگتی‘ انوار الحق کاکڑ اوررضا بڑیچ کو جاتا ہے جو ہر جگہ ہمہ وقت علیحدگی پسندوں‘ دہشت گردوں اور پاکستان دشمنوں کے خلاف شمشیر بنے رہتے ہیں اور بات چبا کر نہیں کرتے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے میر ثناء اللہ زہری اور جنرل (ر) عامر ریاض کی جوڑی سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔ ڈاکٹر مالک کے مقابلے میں زہری کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے کہ وہ مخلوط حکومت میں شامل بعض دھڑوں کی بلیک میلنگ اور ارکان اسمبلی کی فرمائشوں کو بآسانی رد کر سکتے ہیں اور چاہیں تو ہر ایم پی اے کو ملنے والے سالانہ چالیس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز‘ تعمیراتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے مجبور بھی۔ سردار آج بھی بلوچستان میں بااثر و بااختیار ہے اور یہ بات نجی محفلوں میں ڈاکٹر مالک بھی کہہ گزرتے ہیں۔
کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کو آئی ایس آئی کے بجائے پاکستان کی کامیابی تصّور نہ کر کے ہم وہ فوائد نہیں سمیٹ رہے جو قدرت ریاست کی جھولی میں ڈالنے کے لیے بے قرار ہے مثلاً نان سٹیٹ ایکٹرز اور آئی ایس آئی کی مداخلت کے بھارتی پروپیگنڈے کا بطلان‘ براہم داغ بگتی‘ حیر بیار مری‘ اللہ نذر اور جاوید مینگل کے پیروکاروں اور فراری بلوچیوں کو یہ پیغام کہ حقوق اور آزادی کے نام پر وہ دانستہ یا نادانستہ بھارت کے سازشی منصوبے میں شریک ہیں جو ایک آزاد منش بلوچ کے لیے باعث شرم ہے۔ محب وطن بلوچیوں اور کراچی و فاٹا کے باسیوں کو یہ مژدہ کہ بھارت کا ہر منصوبہ‘ ایجنٹ اور مداخلت کار قومی سلامتی و دفاع کے اداروں کا علم میں ہے۔
کچلاک سے واپسی پر ہم خروٹ آباد سے گزرتے ہوئے ماضی اور حال میں واضح فرق کا بچشم مشاہدہ کر رہے تھے کہ رات بارہ بجے کسی نے روکا‘ ٹوکا‘ شناخت طلب کی نہ میزبانوں نے گاڑی کی رفتار بڑھائی۔ اپنے دفتر میں ملاقات کے دوران جنرل عامر ریاض نے یقین دہانی کرائی کہ بہت جلد انشاء اللہ کوئٹہ سے ڈیرہ بگتی اور گوادر تک محفوظ سفر بذریعہ سڑک ممکن ہو گا۔ میں نے انشاء اللہ کہا‘ اجازت لی‘ ہوٹل سے سامان سمیٹا‘ عرفان سعید اور دیگر دوستوں سے رات کو الوداعی سلام دعا کر لی تھی‘ کامران اسد کی پرخلوص میزبانی کا شکریہ ادا کیا اور ائرپورٹ پہنچ گیا۔
پس تحریر : اسلام آباد دھرنا ختم ہوا۔ خدا کا شکر ہے۔ میاں نوازشریف‘ پرویزمشرف کے نقش قدم پر چلے نہ سانحہ لال مسجد کا اعادہ ہوا۔سوچنا ضرور چاہیے کہ کس سے کہاں غلطی ہوئی؟