ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ

پانامہ پیپرز نے عالمی سطح پر ارتعاش برپا کیا ۔ مہذب جمہوری ممالک میں خود احتسابی کا جذبہ اُبھرا ‘ کہیں عوام نے ردعمل ظاہر کیا‘ کہیں بدنام ہونے والوں کو شرم آئی اور کہیں ریاستی اداروں نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے تحقیقات کا ڈول ڈالا مگر یہاں انکار‘ تکرار اور توتکار کا دور دورہ ہے۔ عوام تماشائیوں کی طرح محظوظ ہو رہے ہیں جیسے بیرون ملک جانے والی اربوں روپے کی دولت سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اعتدال اور توازن تو ہمارے معاشرے میںجنس نایاب تھی مگر اب شرم و حیا بھی روٹھ گئی ہے ۔
وزیر اعظم نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کر کے معاملے کی سنجیدگی کو تسلیم کر لیا ہے۔ اپوزیشن اب غیر جانبدار‘ آزاد اورخود مختار کمیشن کے قیام پر توجہ مرکوز کرے۔ حکومت کے کل پرزوں کو کمشن کی تشکیل اور کارروائی کا انتظار کرنا چاہیے مگر انہوں نے بے جا بیان بازی اور عمران خان پر الزام تراشی سے یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ شائد حکمران خاندان کا مقدمہ کمزور ہے اور وہ پروپیگنڈے کی دھول اُڑا کر مخالفین کو دفاعی پوزیشن میں لا سکتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات پرویز رشید نے دانیال عزیز‘ ڈاکٹر فضل چودھری‘ محمد زبیر عمر کو پہلو میں بٹھا کر عمران خان اور شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے جو پریس کانفرنس کی اس سے شریف خاندان کو کیا فائدہ پہنچا؟ وہی بتا سکتے ہیں۔ عام آدمی نے تو یہ جانا کہ حکومت اب عمران خان کی آڑ میں شوکت خانم ہسپتال کو نشانہ بنا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے حالانکہ اگر یہ آف شور کمپنی اور لندن میں اثاثوں والا کیس ہوتا تو پانامہ پیپر میں اس کا تذکرہ ضرور ملتا کیونکہ 2012ء میں اس معاملے پر خاصی لے دے ہو چکی ہے۔
میں نے 2012ء میں خواجہ محمد آصف ‘ مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید کی پریس کانفرنس پر 4اگست کو کالم لکھا تھا جس کے منتخب حصے قند مکرّر کے طور پر پیش خدمت ہیں۔''عربی میں کہتے ہیں''حبک الشیٔ یُعمی و یُصّم (کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور گونگا بنا دیتی ہے) محبان نواز شریف کے خیال میں مشاہد اللہ خان‘ خواجہ آصف اور پرویز رشید نے شوکت خانم ہسپتال کے انڈوومنٹ فنڈ کے حوالے سے پریس کانفرنس کر کے عمران خان کی ایسی تیسی کر دی‘ اس کی امانت و دیانت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ مگر عاشقان عمران خان اس پر سخت برافروختہ ہیں اور عمران خان پر تنقید کو ایک رفاہی ادارے کی چندہ مہم سبوتاژ کرنے کی مذموم حرکت قرار دینے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اپنے اپنے لیڈروں کی محبت میں دونوں اطراف کو اس کے سوا کچھ سوجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
''شوکت خانم بلا شبہ عمران خان کا ایسا کارنامہ ہے جسے سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھانا پرلے درجے کی سنگدلی ہے اور موذی مرض میں مبتلا مستحق مریضوں کے ساتھ سخت زیادتی۔ عمران خان کی مخالفت میں ایک قومی ادارے پر سنگ زنی مجرمانہ فعل ہے جس کی کوئی معقول اور درد مند شخص تحسین نہیں کر سکتا۔ شوکت خانم ہسپتال کے معاملات دگرگوں ہوں ‘یہ کسی کو منظور نہیں اور چندہ مہم متاثر ہو (یہ رمضان کا مہینہ تھا)شاید عمران خان کے سیاسی مخالفین میں سے بھی کوئی خواہشمند نہیں‘ ہاں مگر جن کے دلوں پر مہر لگا دی گئی جو اچھے برے کی تمیز سے محروم ہیں ان کی بات اور ہے۔‘‘
''لیکن یہ شوکت خانم ہسپتال کی طبی خدمات کے معترف ‘ ہر معاملے کا مثبت رخ دیکھنے اور منفی پہلوئوں سے صرف نظر کرنے والے مجھ ایسے سادہ لوح‘ لکیر کے فقیروں کی سوچ ہے‘ جو نہیں جانتے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو ایمانداری سے صرف شوکت خانم ہسپتال کیا ہر قومی بالخصوص تعلیمی و طبی ادارے کو نقد و جرح کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے خدمات کی ترازو میں تولنے کا مشورہ دوں اور شریف برادران سے دست بستہ عرض کروں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو شوکت خانم ہسپتال اورعمران خان کی سیاست میں حد فاصل قائم رکھنے کی ہدایت کریں۔ تحمل و برداشت کا جو مظاہرہ ان کی طرف سے اب تک ہوا ہے بدستور جاری رکھیں اور اپنے سیاسی حریف کی مخالفت میں اس حد تک نہ جائیں کہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی خدمت میں مصروف ایک رفاہی ادارہ متاثر ہو۔‘‘
مگر جو سخن فہم نہیں‘ غالب کے طرفدار ‘ میاں نواز شریف کی محبت میں اندھے اور عمران خان کے عشق میں گونگے ہیں وہ بھلا ان جذباتی باتوں سے متاثر ہونے والے کہاں ؟ وہ خواجہ آصف ‘ مشاہد اللہ خان‘ جاوید لطیف اور پرویز رشید کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے یہ کہہ کر فدایانِ عمران کو خاموش کر دیتے ہیں کہ شوکت خانم ہسپتال کو الزام تراشی‘ سنگدلانہ تنقید اور اس کے جاں بلب مریضوں کو سیاست کی بے رحمی سے بچانا صرف تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی ذمہ داری ہے یا کچھ فرض سونامی کی بے قابو لہروں پر سوار کپتان اور اس کے مس گائیڈڈ میزائل ساتھیوں کا بھی ہے جو صبح شام اٹھتے بیٹھتے شوکت خانم ہسپتال کو عمران خان کی عمدہ انتظامی صلاحیتوں‘ شفاف انداز کار اور عوام دوستی کا شاہکار قرار دے کر حکمرانی کا حقدار بتاتے ہیں اور اسی سانس میں میاں نواز شریف سمیت جملہ سیاسی مخالفین پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ الزام کی سان پر چڑھاتے وقت کسی کا کردار محفوظ نہ کاروبار۔ مخالف کے خاندان اور سماجی خدمات پر بھی سو طرح کے اعتراضات ۔ حالانکہ عوامی مقبولیت الزام تراشی کے بجائے مثبت پروگرام اور خدمت عوام کے قابل عمل ایجنڈے کے ذریعے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
''مخالفین کا استدلال یہ ہے کہ اگر شوکت خانم ہسپتال کے نام پر سیاست روا ہے‘ سیاسی و انتخابی مہم میں اس کا ذکر ناگزیر ہے اور اس کے نام پر قائم انڈومنٹ فنڈ رئیل اسٹیٹ کے ناقابل اعتبار کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہو سکتا ہے تو پھر کسی کو یہ سوال اٹھانے کا حق کیوں حاصل نہیں کہ ایک خیراتی ادارے کے فنڈز ہسپتال کے ایک سابق ٹرسٹی اور عمران خان کے ذاتی دوست کے حوالے کیوں کیے گئے؟ کسی بنک گارنٹی کے بغیر دنیا بھر میں زوال پذیر رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور یہ سرمایہ کاری پاکستان میں نہ کرنے کی کون سی معقول وجہ تھی جبکہ ان دنوں یہاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پر تھا اور منافع کی شرح کئی گنا زیادہ؟‘‘
''مسلم لیگ(ن) کی مہم سے عمران خان کی سیاست متاثر ہو نہ ہو‘ عاشقان عمران اور شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ کے علاوہ ایک خیراتی ادارے سے والہانہ دلچسپی رکھنے والوں کو بخوبی احساس ہے کہ فنڈ ریزنگ مہم شدید متاثر ہو گی تو پھر کیوں نہ سیاستدان عمران خان اور ان کے غیر سیاسی ساتھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی فرمائیں۔ شوکت خانم ہسپتال ایک قومی ادارہ ہے اس پر سیاست کی دکان چمکانے اور اپنی سیاسی ضرورتوں کی بنا پر اسے مخالفت کا نشانہ بنانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ محبان نواز اور عاشقان عمران اس خیراتی ہسپتال کو معاف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ دونوں کے لیے مضمون واحد ہے ‘ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔‘‘ 
تاہم امتیاز حیدری کی کمپنی میں شوکت خانم ہسپتال کے انڈومنٹ فنڈ کی محفوظ سرمایہ کاری اورشریف خاندان کی آف شور کمپنیوں میں فرق واضح ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا‘ امتیاز حیدری سے ضمانت لی کہ رقم ڈوبی تو پھر بھی وہ اصل زر واپس کرے گا اور عمران خان نے بھی قوم کو یقین دہانی کرائی کہ کسی نقصان کی صورت میں وہ بنی گالا کا گھر بیچ کر ادائیگی کریں گے جبکہ سرمایہ کاری کا ذکرہسپتال کی بُکس میں موجود ہے اور عالمی معیار کی کمپنی نے آڈٹ رپورٹ میں کسی قانونی سقم کی نشاندہی نہیں کی جبکہ فریق ثانی عرصہ دراز تک اپنے معاملات کی پردہ پوشی کرتا رہا اور اب بھی بعض سنجیدہ سوالات جواب طلب ہیں۔
عمران خان کی کردار کشی سے معاملہ سلجھے گا نہ شریف خاندان کی جان چھوٹے گی۔وزراء کی پریس کانفرنس کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی آئینہ دار ہے۔ یہ رویّہ عوام کے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ یہ وزراء کرام اگر پریس کانفرنس میں آئی سی آئی جے کے علاوہ برطانیہ‘ جرمنی اور دیگر ممالک کے اخبارات کے خلاف ہتک عزت کے مقدمات دائر کرنے کا اعلان کرتے تو عوام کی تشفی ہوتی اور اربوں ڈالر کی آمدنی متوقع تھی۔ ان ممالک میں ہتک عزت کے قوانین سخت ہیں ۔چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور مولانا کوثر نیازی مرحوم نے برسوں قبل مقدمات‘ جیتے تھے مگر یہ آسان اور منافع بخش راستہ اختیار کرنے کے بجائے الزام تراشی پر اکتفا کیا گیا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ۔کیا یہ کینسر کے مریضوں کی بددعائیں لینے کے مترادف نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں