قوم سے خطاب

چودھری نثار علی خان کو تمام سیاستدانوں بالخصوص ارکان اسمبلی کے احتساب سے کس نے روکا ؟ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے علاوہ بیرسٹر اعتزازاحسن اور ان کے لیڈر کا دامن اگر صاف نہیں تو مواخذہ کون کرے گا؟ حکومت یا عمران خان؟ نثار علی خان دلیر آدمی کے طور پر کارروائی کیوں نہیں کرتے؟
عمران خان کے قوم سے نشری خطاب پر حکومت کی پریشانی قابل فہم ہے۔ عمران خان نے شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک الیکٹرانک میڈیا پر قبضہ جمائے رکھا۔ ٹاک شوز‘ تبصروں‘ تجزیوں اور خبروں کا موضوع عمران خان کا خطاب رہا اور اس کے مطالبات کی تائید پیپلز پارٹی تک نے کر ڈالی۔ نشری خطاب کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے اپنا دورہ کراچی اور تھر ملتوی کیا تو ناقدین نے اسے بھی عمران خان کے خطاب سے پیدا ہونے والی پریشانی سے تعبیر کیا۔ لوگوں کی زبان کون روک سکتا ہے۔ 
خطاب کے فارمیٹ پر البتہ عجیب و غریب اعتراضات ہوئے۔ خطاب سے قبل قومی ترانہ ہوا نہ تلاوت قرآن مجید اور نہ عقب میں قائداعظمؒ کی تصویر آویزاں تھی‘ اعتراض یہ بھی بنتا تھا کہ خطاب براہ راست کیوں تھا‘ کسی نے ریکارڈنگ کی مشقت اٹھائی نہ تقریر نویسوں نے بار بار اصلاح کی ؟ عمران خان نے شیروانی بھی زیب تن نہیں کی اور نظریں بھی پرامپٹرپر مرکوز رکھنے کے بجائے براہ راست کیمروں کا سامنا کیا جو کسی سربراہ حکومت اور مملکت کے شایان شان نہیں۔ عوام اور کیمرے کی آنکھ سے آنکھ ملانا تو کسر شان ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
آف شور کمپنیوں کے حوالے سے عمران خان کا موقف کم و بیش وہی ہے جو میاں نوازشریف کے اندھے پیروکاروں کے سوا ہر باشعور پاکستانی شہری کا ہے ‘صرف پاکستان کیوں ؟دنیا بھر کے عوام نے پانامہ لیکس کو اسی نظر سے دیکھا۔ تبھی برطانیہ سمیت کئی ممالک میں عوام سڑکوں پر ہیں اور قومی ادارے تحقیقات میں مصروف۔ پانامہ پیپرز میں الزام تراشی نہیں‘ حقیقت بیانی ہے۔ پانامہ کی لاء فرم‘ لابیسٹ فرم ہے نہ کسی کی حامی یا مخالف۔ وہ تو خود شور مچا رہی ہے کہ اس کی دستاویزات ہیک ہوئیں۔ ان دستاویزات کی صداقت کو پیوٹن اور پیرو پروشنیکو نے بھی جھٹلایا نہیں افشا کو امریکہ اور مخالفین کی شرارت قرار دیا اور اپنے کاروبار کو قانونی ثابت کرنے کی سعی کی۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی مخالفین کو یہ چیلنج دینے کے بجائے کہ وہ عدالتوں یا کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے کمشن سے رجوع کریں‘ قوم کے سامنے اپنے اثاثے اور ٹیکس ادائیگی کے ثبوت پیش کئے۔ یہی مہذب‘ عوام دوست اور دیانتدار لیڈروں کا شیوہ ہے۔
عمران خان کے خطاب کی اہمیت علامتی ہے۔ یہ قوم کے سامنے معاملے کی سنگینی‘ مروج نظام احتساب کی ناکامی اور حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کو بے نقاب کرنے کی سعی تھی۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کہ اس فیصلہ کن مرحلے پر جبکہ حکمرانوں کی کرپشن‘ ٹیکس چوری اور مشکوک سرمایہ کاری کا پول پانامہ پیپرز میں کھل گیا ہے‘ وہ لاتعلق و بے حس رہے تو یہاں لوٹ مار پر قابو پانا تاقیامت آسان ہو گا نہ کسی کا احتساب ممکن۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری اور بیرون ملک جائیدادوں کی ملکیت کا چونکہ شریف خاندان نے اعتراف کر لیا ہے‘ لہٰذا وہ مالٹا‘ آئس لینڈ اور یوکرین کے عوام کی طرح اپنا فرض ادا کریں‘ قومی سرمایہ اور اگلی نسلوں کا مستقبل بچائیں۔
وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ عمران خان نے اس تناظر میں کیا ہے کہ میاں صاحب کی موجودگی میں آزادانہ تحقیقات اور غیر جانبدارانہ فیصلہ شاید ممکن نہ ہو۔ پوری دنیا میں سربراہان حکومت مستعفی ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کی جگہ لیتے ہیں۔ مارگریٹ تھیچر‘ ٹونی بلیئر‘ واجپائی اور اب آئس لینڈ و یوکرین کے وزراء اعظم کے استعفوں پر کسی نے یہ منطق نہ بگھاری کہ اس سے ملک غیر مستحکم ہو گا یا ان کی جگہ کون لے گا۔ ڈیوڈ کیمرون نے بھی یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ وہ اگر مستعفی ہو گئے تو برطانیہ کا کیا بنے گا۔ مہذب معاشروں میں افراد ناگزیرنہیں ہوتے اور نہ ریاست‘ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کے مفادات کی محافظ۔ آئین‘ قانون‘ سیاسی اختلافات اور قومی مفادات کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور ریاست ناگزیر۔ صدر رچرڈنکسن نے جب غلط بیانی پر امریکی صدارت سے استعفیٰ دیا تو کسی دانشور اور تجزیہ کار نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ امریکی صدر کا مواخذہ یا استعفیٰ سپرپاور کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گا۔ امریکی قوم جانتی تھی کہ سیاسی مفاد کے لیے نکسن ہم سے جھوٹ بول سکتا ہے تو یہ کوئی اور گل بھی ضرور کھلائے گا۔ ہم تو مسلمان ہیں اور اس بات سے آگاہ کہ جب ایک شخص نے آنجنابﷺ سے سوال کیا کہ یارسولؐ اللہ! فقط ایک گناہ ایسا بتا دیجئے جس کا ارتکاب نہ کر کے میں دوزخ کی آگ سے بچ جائوں۔ آپﷺ نے فرمایا جھوٹ نہ بولنے کی یقین دہانی کرائو (مفہوم)‘ مخبر صادقﷺ جانتے تھے جھوٹا شخص ہر گناہ اور برائی کر سکتا ہے۔
شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں‘ بیرون ملک اثاثوں اور ٹیکسوں کے افشا کا معاملہ 1992ء سے اچھل رہا ہے۔جو ہمیشہ مخالفین کی الزام تراشی اور اندرونی و بیرونی ذرائع ابلاغ کی پروپیگنڈہ مہم قرار پائی۔ ایک سہولت یہ بھی رہی کہ نوّے کے عشرے میں میاں صاحب کے مدمقابل پیپلز پارٹی تھی جس کی قیادت لوٹ مار‘ بے ضابطگی اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے بدنام تھی۔ سرے محل‘ سوئس اکائونٹس اور آف شور کمپنیوں کا سوال اٹھا تو سیاسی انتقام کا ڈھنڈورا پیٹا اور ''یااللہ یا رسولؐ بے نظیر بے قصور ‘‘کا راگ الاپا۔ لوگ شریف خاندان کے خلاف الزامات کو پی پی قیادت کی کارستانی قرار دیتے جو اپنی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے اور شریف حکومت کی احتسابی کارروائیوں سے بچنے کے لیے جوابی الزام تراشی کی راہ اختیار کرتی اور اندرون و بیرون ملک میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لاتی۔ داغدار اپوزیشن کے مطالبات کو رد کرنا آسان تھا۔ چھاج کی آنکھیں دکھانے پر چھلنی سہم جاتی۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ عمران خان کبھی برسراقتدار رہا نہ تاحال اس کا دامن کرپشن سے آلودہ ہے اور نہ پانامہ پیپرز اس کی مہم جوئی سے منظر عام پر آئے۔ نوّے کی دہائی میں سرکاری کنٹرول میں ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور دو تین اخبارات جن کا گزر بسر حکومتی اشتہارات پر تھا۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو مخالف تمام طبقات کی ہمدردیاں شریف خاندان کے ساتھ تھیں اور سول‘ فوجی ‘ عدالتی اسٹیبلشمنٹ میں میاں نوازشریف کا اثر و رسوخ بے حد و بے حساب۔
کوآپریٹو اداروں کا سکینڈل منظرعام پر آیا تو میاں صاحب نے تحقیقاتی ٹربیونل کا نسخہ استعمال کیا۔ بعد ازاں اس ٹربیونل کے سربراہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن بنے مگر اب عمران خان کی شکل میں سیاسی ساکھ کی حامل حقیقی اپوزیشن‘ ''زبان دراز‘‘ میڈیا اور کسی نہ کسی حد تک حکومتی تسلط سے آزاد عدلیہ کی موجودگی میں معاملے پر مٹی ڈالنا مشکل ہو رہا ہے ۔ پارلیمنٹ اور مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی تاحال اپنا فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے‘ جبکہ مسلم لیگ کی حالت اس سے بھی پتلی ہے‘ کسی نے جنرل کونسل یا ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس بلانے کی ضرورت محسوس کی نہ پارلیمانی پارٹی میں یہ معاملہ اُٹھایا‘حالانکہ وزیراعظم اور حکومت مشکلات سے دوچار اور جمہوریت ایک بار پھر ڈانواں ڈول ہے‘ یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ موجودہ جمہوریت دو چار خاندانوں کے مفادات کی محافظ اور سیاسی جماعتیں ان کی غلام بے دام ہیں۔ عوام کے جذبات و احساسات سے انہیں سروکار نہ قومی دولت اور مفادات کی فکر۔ نثار علی خان ایسا صاف ستھرا سیاستدان اور دبنگ وزیر داخلہ بھی سیاسی مصلحتوں اور اپنی قیادت کے احکامات کے تحت آصف علی زرداری‘ خورشید شاہ اور دیگر کی لوٹ مار‘ بے ضابطگیوں اور بیرون ملک غیر قانونی بینک اکائونٹس و اثاثوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو پھر کسی اور سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی سے حساب لے گا اور دیانتدارانہ‘ شفاف اور عوام دوست جمہوریت کبھی ملک و قوم کا مقّدر بنے گی؟
عمران خان کا خطاب اگر واقعی بے کار مشق ہے تو پھر ستے خیراں نیں‘ کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کو پریس کانفرنس اور دیگر وفاقی وزراء کو الزام تراشی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بااختیار کمشن بنائیں‘ پانامہ پیپرز نے جن کا کچا چٹھا کھولا‘ انہیں کٹہرے میں لائیں اور الگ کمشن کے ذریعے تمام سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کا محاسبہ بھی کریں‘ قوم خوش‘ حکومت شاد اور پاکستان زندہ باد ۔ ملک غیر مستحکم اور جمہوریت خطرات سے دوچار ‘ گومگو اور میں نہ مانوں کے طرزعمل سے ہے۔ غلامانہ ذہنیت‘ مفاد پرستانہ سوچ اور جرأت سے عاری روّیہ ع
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں