تمہارے سینے میں دل تو ہو گا؟

لگتا ہے وزیراعظم میاں نوازشریف نے پانامہ لیکس کو دل پر لگا لیا ہے۔ ذہنی دبائو ہی اختلاج قلب اور معدے کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ میاں صاحب دوسروں کی طرح گوشت پوست کے انسان ہیں اور دل تو دل ہے ‘ خون کا لوتھڑا۔ سنگ وخشت نہیں کہ کسی بات کا اثر نہ لے۔ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کو صحت عطا فرمائے اور تادیر سلامت رکھے۔ طبیعت کسی کی بھی خراب ہو سکتی ہے تاہم لوگ حیران ہیں کہ میاں صاحب تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے‘ تیسری بار وزیراعظم ہیں ان کا عرصہ اقتدار کم و بیش پچیس تیس سال ہے مگر اس دوران وہ ملک بھر میں ڈھنگ کا ایک ہسپتال بھی نہیں بنا سکے جہاں وہ اپنا طبی معائنہ اور علاج کرا سکیں۔
قائداعظمؒ بستر علالت پر تھے اور بیماری نے انہیں نڈھال کر رکھا تھا‘ ڈاکٹروں نے بیرون ملک علاج کا مشورہ دیا تو صاف انکار کر دیا۔ اس ملک کے آخری حکمران جنرل ضیاء الحق تھے جن کا مقامی ہسپتال میں آپریشن ہوا۔ سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام جیلانی کو دل کا دورہ پڑا تو انہیں میو ہسپتال کے شعبہ امراض قلب میں داخل کیا گیا۔ طبی ماہرین نے انہیں بیرون ملک آپریشن کا مشورہ دے کر روانہ کر دیا‘ واپسی پر انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی منظوری دی تاکہ کسی کو باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ مسلم لیگ کے حامیوں سے معذرت کے ساتھ یہ اعتراف بھی کرنا پڑتا ہے کہ 2013ء میں جب عمران خان خاصی بلندی سے گرے‘ ان کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی اور یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ آئندہ چیئرمین تحریک انصاف شائد نارمل زندگی بسر نہ کر سکیں تو شوکت خانم ہسپتال میں ان کا علاج ہوا اور صرف ڈیڑھ دو ماہ میں وہ شفایاب ہو کر میدان سیاست میں قلانچیں بھرنے لگے۔ شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ آغا خان ہسپتال‘ الشفاء‘ شریف میڈیکل سٹی‘ آرمڈ فورسز ہیلتھ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں بین الاقوامی معیار کی طبی سہولتیں دستیاب ہیں مگر مقروض ملک کا متمول اور راسخ العقیدہ وزیراعظم ان ہسپتالوں میں سے کسی ایک میں جانا کسر شان سمجھتا ہے اور سرکاری شعبے میں تو ایک بھی ہسپتال ایسا نہیں جہاں ملک کا سربراہ قدم رنجہ فرما سکے۔
میاں صاحب نے طبی معائنے کے لیے باہر جانے کا فیصلہ کیا کیا ‘ناقدین کی زبانیں کترنیوںکی طرح چلنے لگیں کسی نے یہ بے پر کی اڑائی کہ میاں صاحب اپنے دیگر اثاثے اور اکائونٹس ٹھکانے لگانے جا رہے ہیں۔ اعتزاز احسن بولے کہ آصف علی زرداری کے دربار میں حاضری مقصود ہے تاکہ ایک بار پھر مل جل کر بحران کا مقابلہ کر سکیں۔ ساتھ ہی چتاونی دی کہ پیپلز پارٹی نے اس بار ساتھ دیا تو ہولناک غلطی ہو گی۔ یہ کہنے والوںکی کمی بھی نہیں کہ لندن کے محفوظ اور صحت افزا مقام پر بیٹھ کر میاں صاحب اپنے بین الاقوامی دوستوں اور سرپرستوں کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کا چورن بیچنے کے درپے ہیں۔ کسی نے یہ دور کی ہانکی کہ لندن کی جائیدادوں اور کاروبار کے لیے کسی شہزادے سے مدد لی جائے گی تاکہ ذریعہ آمدنی کے باب میںقوم‘ مقتدر اداروں اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو مطمئن کیا جا سکے۔ غرض جتنے مُنہ اتنی باتیں۔
اسلام آباد میں یہ افواہیں گشت کرنے لگی ہیں کہ میاں صاحب کو ٹھنڈے ماحول میں اطمینان سے پُرامن انتقال اقتدار کی آپشن پر غور و فکر کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ کسی بدمزگی کے بغیر موجودہ جمہوری نظام چلتا رہے‘ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے اور جاری قومی منصوبوں میں تعطل پیدا نہ ہو۔ تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کا یہ مزاج ہے نہ ملک میں اپنے سوا وہ کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب کے اہل سمجھتے ہیں۔ 1999ء میں بھی اس آپشن پر غور کرنے کے بجائے ملک کو انہوں نے فوجی سربراہ کے سپرد کیا تھا۔ ننگی فوجی مداخلت سے ہی سیاستدانوں کو مظلوم بننے اور اپنے عوام کے علاوہ بیرون ملک اپنے سرپرستوں کی ہمدردی حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے‘ اسی لیے تو انتقال اقتدار کا کوئی پُرامن میکنزم انہیں قبول ہے نہ اپنی پارٹی میں جمہوریت اور جمہوری روایات۔ مخالفین کا تو خیر کام ہی طعنہ زنی اور الزام تراشی ہے مگر اس صورتحال سے میاں صاحب کے حقیقی خیرخواہ اور مسلم لیگ کے ہمدرد بھی کبیدہ خاطر ہیں۔ میاں صاحب کی جوڈیشل کمشن بنائے بغیر بیرون ملک روانگی سے یہ تاثر ملا کہ ایک تو ان کا قوم سے خطاب اور جوڈیشل کمشن بنانے کا وعدہ محض ڈھکوسلہ تھا‘ توجہ ہٹانے کی سعی۔ دوسرے انہیں اپنا خاندان عزیز ہے ملک کا استحکام‘ جمہوریت اور قومی تشخص نہیں۔ تیسرے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ تین عشروں سے ملک میں تعمیر و ترقی اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں پیشرفت کا جو پروپیگنڈہ ہوتا رہا وہ سراب تھا۔ اربوں ڈالر کے فنڈز ہر سال ہسپتالوں اور طبی سہولتوں کے لیے وقف ہوتے ہیں مگر گزشتہ پچیس سال کے دوران لاہور میں ایک بھی نیا ٹیچنگ ہسپتال قائم نہیں ہوا۔ شیخ زید اور جناح ہسپتال ضیاء دور کی یادگار ہیں جبکہ بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے کینسر کے موذی مرض کی تشخیص کی ایک مشین لاہور کے انمول ہسپتال میں نصب ہے‘ دوسرے کسی سرکاری ہسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں‘ جبکہ وفاقی وزراء اور میاں صاحب کے ترجمانوں نے شوکت خانم کے خلاف طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے جس سے طورخم سے مکران تک عام شہری مستفید ہوتے اور دعائیں دیتے ہیں۔
پاکستان میں طبی و تعلیمی سہولتوں کا فقدان وسائل کی کمی کے سبب نہیں۔ یہ صرف بُرے طرز حکمرانی‘ ناقص منصوبہ بندی اور غلط ترجیحات کا شاخسانہ بھی نہیں۔ قومی وسائل کی بے تحاشا لوٹ مار‘ بیرون ملک منتقلی اور قرضوں میں خوردبرد کا نتیجہ ہے۔ ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ وہ سلوک کیا جو بُرا کرایہ دار خوب آراستہ و پیراستہ مکان کے ساتھ کرتا ہے ؎
تمہارے سینے میں دل تو ہو گا‘ جو ہو سکے تو اُس سے پوچھو
کہ تُم نے جو قوم سے کیا ہے‘ تمہی کہو ‘ ناروا نہیں ہے
کاروبار باہر‘ اولاد باہر‘ اثاثے اور اکائونٹس باہر اور ذاتی و خاندانی مفاد بیرون ملک ‘صرف حکمرانی کے لیے یہ ملک موزوں ہے جس کے لیے بہتر منصوبہ بندی‘ اچھی حکمرانی اور ہمہ وقت دلچسپی چنداں ضروری نہیں۔ ملک میں اچھے تعلیمی اور طبی ادارے اس وقت تک بنتے رہے جب تک حکمرانوں کا جینا مرنا اس ملک اور قوم کے ساتھ تھا۔ ان کے بچے مقامی تعلیمی اداروں میں پڑھتے اور علاج معالجہ بھی مقامی ہسپتالوں سے کراتے۔ جہازی سائز سڑکوں‘ فلائی اوورز‘ انڈرپاسز‘ موٹرویز‘ میٹرو بسوں اور اورنج و گرین لائن ٹرینوں سے جیب بھی بھرتی ہے اور قوم بے وقوف بھی خوب بنتی ہے‘ اپوریشن بھلے ان میگا پراجیکٹس کو میگا سکینڈلز ثابت کرنے میں لگی رہے۔پنجاب دوسرے صوبوں کے لیے رول ماڈل ہے اور شریف خاندان کا انتخابی حلقہ‘ مگر یہاں گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ راجن پور اور رحیم یار خان کے نواح میں ڈاکوئوں‘ اغواء کاروں‘ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز نے پناہ گاہیں تعمیر کر لیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ فوج کے دبائو پر آپریشن شروع ہوا تو گزشتہ روز پولیس کی پیش قدمی کے نتیجے میں ڈاکوئوں نے 16 پولیس اہلکار یرغمال بنا کر چھ شہید کر دیئے جبکہ دو سال قبل آئی جی پنجاب خان بیگ سے مل کر میں نے توجہ دلائی تو انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔ نبیلہ غضنفر سر پیٹ کر رہ گئی کہ آئی جی صاحب کو بات سمجھ ہی نہیں آئی۔ حواریوں اور وظیفہ خواروں نے ایک بار پھر ''جمہوریت خطرے میں ہے ‘‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ نوّے کے عشرے میں ہر بحران کے موقع پر کرپٹ حکمرانوں نے یہی شور مچایا ‘مخالفین کی بھد اڑائی مگر اب اس مہم جوئی کو پذیرائی ملنا اس لیے مشکل ہے کہ پانامہ لیکس میں کسی قومی ادارے کا ہاتھ ہے نہ اپوزیشن کا‘ مقابلہ بھی عمران خان سے ہے یا پھر اُس آرمی چیف سے جو داغدار نہیں۔ البتہ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جمہوریت کو حقیقی خطرہ بُری حکمرانی‘ لوٹ مار‘ قومی سرمائے کی بیرون ملک منتقلی‘ خاندانی و موروثی سیاست اور چوروں کی سینہ زوری سے ہے جو مال مسروقہ واپس کرنے پر تیار ہیں نہ حساب دینے پر بخوشی آمادہ اور احتساب کا راستہ روکنے کے لیے جتھہ بندی میں مصروف۔ قصور قوم کا بھی ہے جو جیب کترے اور شیشہ چور کو تو سرعام مار مار کر دنبہ بنا دیتی ہے اور اربوں روپے لوٹنے والوں کو سر پر بٹھاتی ہے ؎ 
اے مری قوم ترے حسن کمالات کی خیر
تونے جو کچھ بھی دکھایا‘ وہی نقشہ دیکھا
(شورش کاشمیری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں