چھوٹو گینگ محض علامت ہے

چھوٹو گینگ کے ہاتھوں سات پولیس اہلکاروں کی شہادت پنجاب پولیس کی طرف سے سول حکمرانی کے سر کا صدقہ ہے۔ فوج اور رینجرز کو آپریشن سے روک کر پولیس کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ سول بالادستی منوانے کی ضد تھی جس کی بھینٹ یہ سات شیر جوان چڑھے۔
سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد آرمی چیف نے سرائیکی وسیب میں آپریشن کا حکم دیا تاکہ یہاں پناہ لینے والے بلوچستان لبریشن آرمی‘ بلوچستان لبریشن فرنٹ‘ لشکر جھنگوی اور فاٹا و کراچی کے دہشت گردوں کے علاوہ ان کے مقامی سہولت کاروں‘ اغوا کار گروہوں اور بھتہ خوروں کا قلع قمع کیا جا سکے۔ پنجاب بلکہ پورے ملک کے عوام نے فیصلے کا خیر مقدم کیا مگر صوبائی اور وفاقی حکومت نے اپنے دائرہ ٔاختیار میں مداخلت سمجھ کر مزاحمت شروع کر دی۔
لاہور اور راولپنڈی میں نامہ و پیام کے بعد یہ آپریشن فوج اور رینجرز کو پیچھے رکھ کر پولیس کی نگرانی میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ لوگ جانتے تھے کہ اگر پنجاب پولیس اس قابل ہوتی تو جھنگی سے شاہ والی تک چھوٹو مزاری‘ علی باز گیر‘ چوٹانی ‘ جتانی‘ مندوانی اور گوپانگ گینگ وجود میں کیوں آتے۔ بار بار روجھان کے نواح سے پولیس اہلکار اغوا کیوں ہوتے اور انہیں تاوان دے کر چھڑانے کے لیے بعض سرداروں کی خدمات حاصل کیوں کرنا پڑتیں؟ حالیہ آپریشن میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ ناکافی معلومات یا خوش فہمی کی بنا پر گینگ کے سرپرست سرداروں کو گرفتار کیے بغیر پولیس کو ایک ایسے علاقے میں بھیج دیا گیا‘ جو وسیع و عریض جنگلات‘ دلدل اور ڈاکوئوں کے جدید جاسوسی نیٹ ورک کی وجہ سے ناقابل رسائی تھا اور مزاحمتی گروہ کی تعداد کے علاوہ صلاحیت کار کے حوالے سے بھی غلط اندازے لگائے گئے۔
سات پولیس اہلکاروں کی شہادت معمولی واقعہ نہیں۔ یہ اچانک حملہ تھا‘ نہ کسی خودکش بمبار کی کارستانی کہ سات جیتے جاگتے انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ سات خاندان غلط منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھے اور اغوا ہونے والے دیگر پچیس اہلکاروں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ان میں دو ڈی ایس پی بھی شامل ہیں۔ آپریشن روک کر پولیس نے اپنی کمزوری ڈاکوئوں پر عیاں کر دی ہے۔
آپریشن کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان ڈاکوئوں‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اور ان کی پناہ حاصل کرنے والے دہشت گردوں کے سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ نام کیا لینا بعض مزاری‘ گورچانی سرداروں کے رابطے کسی سے مخفی نہیں۔ یہی اپنے کارندوں کے ذریعے معلومات اور پناہ گاہیں فراہم کرتے اور آپریشن میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔کچے کے علاقے میں گینگ کا سربراہ سرداروں کے بل بوتے پر قاتلوں‘ دہشت گردوں‘ اغوا کاروں کو پناہ دیتا اور اپنے کارندوں کی گرفتار ی پر رہائی کا بندوبست کرتا ہے ۔پولیس اور انتظامیہ میں ان کے مخبر صرف ادنیٰ اہلکار نہیں بے ضمیر افسر بھی ہیں ۔اب یہ کروڑوں کا کاروبار ہے اور علاقے کے معصوم و قانون پسند شہریوں پر دھاک بٹھانے کا ظالمانہ طریقہ۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کی طرح کوہ سلیمان کے دامن میں بھی ان گروہوں کی پناہ گاہیں ہیں جہاں دنیا جہان کی سہولت انہیں حاصل ہے۔
بعداز خرابیٔ بسیار پنجاب حکومت نے فوج اور رینجرزسے آپریشن کی کمان سنبھالنے کی درخواست کی ہے مگر جب تک رینجرز کو کراچی کی طرح کے اختیارات دے کر آپریشن کادائرہ پورے صوبے تک وسیع نہیں کیا جاتا‘ یہ فوج اور رینجرز کے ساتھ زیادتی ہوگی۔یہ محض چند ڈاکوئوں اور اغوا کاروں کا معاملہ نہیں۔ پہلے سے سیاسی وڈیروں‘ منتخب عوامی نمائندوں اور وزیروں کی سرپرستی میں ڈکیتی‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وارداتیں کرنے والے منظم گروہوں نے اب دہشت گردوں سے ہاتھ ملا لیا ہے اور ''را‘‘ نے ان گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کر دیئے ہیں جو جدید اسلحہ‘سرمایہ اور تربیتی سہولتیں فراہم کرکے اپنے پاکستان دشمن مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کچے کے علاقے میں بھارتی اسلحہ کی موجودگی ٹھوس ثبوت ہے ۔محدود آپریشن کی صورت میں یہ لوگ نکل کر دوسرے مقامات کا رخ کریں گے؛ لہٰذا ایک ہمہ اطراف آپریشن کی ضرورت ہے جو شہر و دیہات میں دہشت گردوں کی باقیات اور ان کے مالیاتی سہولت کاروں کا قلع قمع کرے ۔
فوج اور رینجرز کی قیادت کو یہ جائزہ بھی لینا پڑے گا کہ پہلے مزاحمت کیوں ہوئی اور پولیس کو ناکافی وسائل‘معلومات اور بیک اپ کے بغیر آپریشن کی دلدل میں کیوں دھکیلا گیا۔ یہ محض غلط منصوبہ بندی تھی یا بعض پسندیدہ گروہوں کو چوکنا کر کے دوسری پناہ گاہوں کی طرف چلے جانے کا اشارہ۔ یہ سوال بھی برمحل ہے کہ پچھلے پچیس تیس سال سے عوام کے سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ جدید اسلحے‘ سراغ رسانی کے آلات اور تربیت سے آراستہ پولیس فورس عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے تیار ہے۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو چکے اور تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیا گیا مگر آزمائش کی گھڑی میں سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گیے۔ پتہ چلا کہ سفارشی بھرتیوں اور سیاسی مداخلت نے اس فورس کو تباہ کر دیا ہے اور یہ صرف ماڈل ٹائون میں بے گناہ مذہبی کارکنوں کو گولیوں سے بھون سکتی ہے یا جعلی پولیس مقابلے میں اپنی بہادری اور مہارت کے جوہر دکھانے کی اہل ہے ‘کسی ڈاکو‘ دہشت گرد ‘ اغوا کار اور مسلح گروہ‘ کا مقابلہ کرنا‘ اس کے بس میں نہیں۔ قصور پولیس فورس کا نہیں‘ اسے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے طبقے کا ہے جس کی مداخلت نے پنجاب پولیس کو اس حال تک پہنچایا۔
چھوٹو گینگ کے مقابلے میں اترنے والی فورس نے اپنی حالت زار سے میڈیا کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے پاس کافی اسلحہ تھا نہ کھانے پینے کا سامان اور نہ کمک کی توقع۔ حکمران اور ان کے چیلے چانٹے قومی وسائل کو گدھوں کی طرح نوچنے میں مشغول ہوں‘ تعلیم‘صحت‘ روزگار اور عوام کی حفاظت پر مامور فورس کے لیے مختص وسائل بھی نمائشی منصوبوں پر خرچ کیے جا رہے ہوں یا خرد برد‘اور سیاسی بھرتیوں نے فورس کا مورال تباہ کر دیاہو تو نتیجہ اس کے سوا کیا نکل سکتا ہے۔ کوئی اعتراض کرے تو سیدھے منہ جواب دینے کے بجائے الزام تراشی اور بلیک میلنگ سے اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پانامہ پیپرز نے اس ملک کی اشرافیہ کو بے نقاب کیا ہے اور حکمران اشرافیہ نے خود بھی اپنے آپ کو ننگا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گڈ گورننس کا پروپیگنڈا ہسپتالوں میں مریض خواتین سے زیادتی اور پولیس شہادتوں سے دم توڑ رہا ہے۔حاشیہ برداروں نے دو دن تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا کہ میاں صاحب کی طبیعت سخت خراب ہے ‘وہ ڈائریکٹ فلائٹ سے لندن جانے کے قابل بھی نہیں مگر گزشتہ شب آٹھ دس گھنٹے کے سفر کے بعد میاں صاحب جب پارک لین میں اپنی مہنگی اور پرتعیش اِقامت گاہ پر پہنچ کر میڈیا کے روبرو آئے تو ان کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے نہ بول چال کے دوران کسی قسم کی نقاہت محسوس ہوئی۔ آدھے گھنٹے تک بے تکان بولتے رہے جس سے ناقدین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اعتزاز احسن سچ ہی کہتے تھے کہ لندن یاترا''حکیم حاذق‘‘ آصف علی زرداری سے چیک اپ کرانے کے لیے ہے۔ میاں صاحب کے لہجے میں زرداری کے لیے اُنس و محبت کی جو مٹھاس اخبار نویسوں نے محسوس کی وہ عمران خان کے الزام کی تصدیق تھی کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اصل میں دونوں ایک ہیں۔
اگر قومی وسائل پاکستان میں نیک نیتی سے خرچ ہوتے‘ تعلیم‘ صحت اور عوام کی حفاظت کو ترجیح اوِل سمجھا جاتا‘ اقتدار کو امانت‘ حکمرانی کو آزمائش سمجھ کر گڈ گورننس کے تقاضے پورے کیے جاتے تو پانامہ پیپرز شریف خاندان کی بدنامی کا باعث بنتے نہ میاں صاحب کو بیرون ملک جانے کی ضرورت تھی اور نہ کچا جمال میں پولیس کے شیر جوان یوں آسانی سے چھوٹو گینگ کے ہاتھوں مارے جاتے۔ لوٹ مار‘ نااہلی‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا موجودہ کلچر برقرار رہا‘ دہشت گردوں‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع نہ ہوا تو چھوٹو گینگ کی موجیں ہیں‘ وہ راجن پور میں ہو ‘کراچی اور اسلام آباد میں یا لاہور اور فیصل آباد میں مصروف کار۔ فوج اور رینجرز کے پاس علاج ہے مگر پھر سول بالادستی کا کیا بنے گا جو اصلاًجا بجا چھوٹو گینگ کی بالادستی کا دوسرا نام ہے:
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلزار کریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں