کشکول اور قبر کی مٹی

فقیر سے خوش ہو کر بادشاہ نے کہا: ''مانگو تمہیں کیا چاہیے‘‘۔ فقیر پہلے جھجکا‘ پھر بولا! حضور! ''مانگنا کیا ہے‘ آپ کا دیا ہی کھاتے ہیں‘ بس میرا کشکول بھر دیجئے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘۔ بادشاہ ہنسا اور بولا ''بس‘‘۔ پھر اس نے اپنے پاس موجود سارے سکّے‘ ہیرے‘ جواہرات‘ کاسۂ گدائی میں ڈال دیئے مگر کشکول بھرا نہیں۔ بادشاہ حیران ہوا‘ یہ اس کی عزت کا سوال تھا‘ مزید سونا چاندی منگوا کر کشکول کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود‘ بالآخر شاہی خزانہ انڈیل دیا‘ خیال تھا کہ بھر جائے گا مگر خالی کا خالی۔ فقیر مسکرایا اور چل دیا۔ بادشاہ نے پوچھا: کشکول بھر کیوں نہیں پایا۔ ''حضور! یہ خواہشات کا پیالہ ہے‘ اسے قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز بھر نہیں سکتی‘‘۔ فقیر نے جواب دیا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز جن فوجی افسروں کو بصد سامان رسوائی فوج سے نکالا‘ ان میں سے دو لیفٹیننٹ جنرل اور میجر جنرل رینک کے تھے۔ یقیناً فوج میں ان کا عرصہ ملازمت تیس سال ہو گا۔ جب یہ دونوں عبیداللہ خٹک اور اعجاز شاہد بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ فوج میں بھرتی ہوئے تو کسی ایک نے بھی شاید نہ سوچا ہو کہ وہ ٹو سٹار اور تھری سٹار جنرل بن پائیں گے۔ اچھے بھلے ذہین‘ مستعد‘ حاضر جواب اور پیشہ ور افسر میجر اور کرنل کے رینک سے آگے نہیں بڑھ پاتے‘ کیونکہ سنا یہی ہے کہ فوج میں پروموشن آسان نہیں‘ آدمی صرف گنے نہیں‘ تولے بھی جاتے ہیں۔ اگر کسی یونٹ میں لانس نائیک اور سپاہی کے ساتھ حادثہ پیش آئے تو نہ صرف حادثے کا شکار ہونے والا شخص جوابدہ ہوتا ہے‘ بلکہ یونٹ انچارج سے بھی بازپرس ہوتی ہے کہ اس کے ماتحت نے غلطی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ بسا اوقات کسی میجر‘ کرنل اور بریگیڈیئر کو اپنے ماتحت کی کسی سنگین غلطی کے نتیجے میں اگلی پروموشن سے محروم ہونا پڑتا ہے؛ حالانکہ وہ خود براہ راست قصوروار نہیں ہوتا۔
کرپشن کے اس سکینڈل کا انکشاف ایک حادثے کی انکوائری کے دوران ہوا۔ گزشتہ روز برطرف کئے جانے والے فوجی افسران کا تعلق ایف سی بلوچستان سے رہا ہے اور دونوں اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد آئی جی ایف سی رہ چکے ہیں۔ ایف سی کی بنیادی ذمہ داری بلوچستان میں امن و امان کا قیام‘ باغیوں کی سرکوبی‘ عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور ایران و افغانستان کی سرحد سے سمگلنگ کی روک تھام ہے۔ طورخم کی طرح افغانستان اور ایران کے ساتھ ہماری سرحد پر حفاظتی انتظامات خاصے کمزور ہیں اور ایران سے سالانہ اربوں کی سمگلنگ ہوتی ہے‘ یہ سمگلر سرحدوں پر تعینات‘ ایف سی افسروں و اہلکاروں کے علاوہ اعلیٰ رینک کے عہدیداروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیمتی تحائف‘ نقد رقوم اور دیگر ترغیبات۔
اطلاعات کے مطابق میجر جنرل شاہد کے صاحبزادے نے ایک قیمتی کار خریدی جس کی مالیت ایک کروڑ روپے سے زائد تھی۔ کرنل شکیل اور کرنل یاسر کو مبینہ طور پر کار کی ٹرائی لینے کے لیے کہا گیا جو حادثے کا شکار ہو گئے۔ شہید فوجی افسروں کے لواحقین نے اسے اتفاقی حادثہ ماننے سے انکار کر دیا اور آرمی چیف کو تحقیقات کے لیے خطوط لکھا۔ انکوائری کے دوران یہ سوال اٹھا کہ آئی جی ایف سی کے صاحبزادے کے پاس اس قدر قیمتی کار کہاں سے آئی اور دونوں کرنل صاحبان کس مشن پر تھے؟ یوں کرپشن کے ایک بڑے سکینڈل کا انکشاف ہوا جس میں باقی پانچ افسران بھی ملوث پائے گئے۔ گزشتہ سال بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنا پر آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر اور میجر جنرل (ر) خالد ظہیر کو برطرف کر چکے ہیں جو ان کی بلاامتیاز احتساب کی خواہش کا آئینہ دار اقدام تھا۔
عبیداللہ خٹک آئی جی ایف سی تھے تو خروٹ آباد (کوئٹہ) چیک پوسٹ پر ایک حاملہ چیچن خاتون گولیوں کا نشانہ بنی تھی۔ چیک پوسٹ پر چند رشتہ داروں کے ساتھ ایف سی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی یہ حاملہ خاتون ہاتھ اٹھا کر زندگی کی بھیک مانگتی رہی‘ اپنی بے گناہی کی دہائی دیتی رہی اور اپنے پیٹ میں معصوم جان کا واسطہ دیتی رہی اور جب گولیوں کی بوچھاڑ نہ تھمی تو اُس نے بار بار آسمان کی طرف انگلیاں اُٹھا کر اپنے ربّ سے فریاد کی۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ انگلیاں اٹھا کر کس کو بددعا دے رہی تھی یا احکم الحاکمین کے دربار میں ایف آئی آر کٹوا رہی تھی؛ تاہم اس حادثہ کے بعد جسے عوام کی کثیر تعداد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ آئی جی ایف سی کا اصرار تھا کہ خاتون سمیت یہ سارے دہشت گرد تھے۔
فوجی افسروں کو قدرت نے اپنے بے پایاں انعامات سے نوازا‘ وہ پاکستان کے مضبوط ترین ادارے میں جہاں صرف درجنوں افراد کو ہی ٹو سٹار اور تھری سٹار کے رینک تک پروموشن ملتی ہے‘ ان مناصب پر پہنچے۔ اختیارات‘ وسائل‘ منصب اور عزت و وقار کو انہوں نے بدقسمت‘ غربت زدہ‘ پسماندہ مگر قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل کے ازالے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مال و دولت کی ہوس نے گھیر لیا۔ خداوند کریم نے مال اور اولاد کو انسان کے لیے آزمائش قرار دیا ہے‘ یہ دونوں اس آزمائش میں پڑے تو ڈھیر ہو گئے۔ فوج کی ٹریننگ کام آئی نہ اس ادارے کے طفیل زندگی بھر کی مراعات یاد رہیں اور نہ اپنی‘ اپنے خاندان اور ادارے کی عزت و وقار کا لحاظ کیا۔ صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا۔ روزانہ سو سو لاشیں اٹھتی رہیں‘ لوگ لاشیں سڑکوں پر لے کر بیٹھے تھے مگر مال مست افسران زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے اور پاک فوج کے وقار کو دائو پر لگانے میں لگے رہے۔ شاید کثرت کی خواہش نے انہیں بائولا کر دیا تھا اور اپنے اردگرد قانون شکنی‘ لوٹ مار اور مالی خوردبرد کا بازار گرم دیکھ کر انہوں نے یہی سمجھا کہ جب وزیر اعلیٰ رئیسانی اور اس کے دیگر ساتھیوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں‘ سابق آرمی چیف پرویز مشرف عالیشان بنگلے تعمیر کر رہے ہیں اور ایک آرمی چیف کے بھائی پیتل کو سونے میں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں تو وہ کیوں اس بہتی گنگا سے ہاتھ کیوں نہ دھوئیں ‘ بالآخر قابو آ گئے اور آج یہ پورے ملک کے عوام‘ اپنے کولیگز‘ خاندان اور دوست احباب کے سامنے شرمندگی سے دوچار ہیں۔ ان کا کشکول بھرا ہی نہیں اور لالچ نے انہیں رسوا کر کے رکھ دیا۔ یہ دونوں فوج کے نظام احتساب کی بدولت نشان عبرت بن گئے مگر یہ سوال اب بھی اُٹھ رہا ہے کہ اپنے فرائض منصبی سے پہلوتہی کے علاوہ کرپشن کے ذریعے احساس محرومی کے شکار ایک صوبے میں دہشت گردی‘ سمگلنگ اور دیگر مکروہ جرائم کو فروغ دینے والے ان افسروں کے لیے یہی سزا کافی ہے؟ اور فوج کا نظام احتساب مہنگی گاڑی کے حادثے کے بعد کیوں حرکت میں آیا؟
آرمی چیف نے بلاتفریق احتساب کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے‘ یہ واقعہ دوسروں کے لیے عبرتناک ثابت ہو گا‘ کثرت کی خواہش میں مبتلا افراد کے لیے یہ چشم کشا واقعہ ہے کہ کس طرح انسان بلندی سے پستی کا سفر طے کر کے اپنی اگلی نسلوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ ان سزائوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ سول ادارے بھی اپنی ''منجی تھلے ڈانگ پھیریں‘‘ بلاامتیاز احتساب کا اہتمام کریں‘ ایسے ہی چند بڑے مگرمچھوں کی قربانی دے کر جمہوری نظام کو مضبوط کریں اور خود کو قوم کے سامنے شرمندگی سے بچائیں مگر نظر یوں آتا ہے کہ کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہاں جو جتنا بڑا جرائم پیشہ اور کرپٹ ہے اتنے ہی بڑے منصب کا حقدار‘ اور اس کے حق میں تالیاں بجانے والے کرائے پردستیاب۔ 
احتساب سے جمہوری نظام کمزور نہیں مضبوط ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں اسے جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے تو کیا آرمی چیف کے اقدام سے فوج کا ادارہ سرخرو اور مضبوط ہوا ہے یا کمزور؟ برطانوی کرائون پرنس شہزادہ چارلس کا چالان ہو سکتا ہے‘ ٹونی بلیئر کی بیوی کو ٹکٹ نہ لینے پر ریلوے کو جرمانہ ادا کرتی ہے اور آئس لینڈ کے وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کرپشن کے حق میں اور احتساب کے خلاف تاویلوں کا بازار گرم ہے اور چھاج تو بولیں سو بولیں‘ چھلنیاں بھی خوب زبان چلا رہی ہیں۔ عبیداللہ خٹک اور اعجاز شاہد کی طرح ہمارے حکمران طبقے میں بھی کئی پاتال سے افلاک کا سفر طے کرنے والے بے حس و بے شرم موجود ہیں ‘ خدا انہیں سوچنے کی توفیق دے تو قدرت کے انعامات اور اپنی ناشکری کا موازنہ کریں اور اپنا کاسۂ کرپشن قبر کی مٹی سے بھرنے کا انتظار نہ کریں‘ شائدکہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں