پڑھتا جا‘ شرماتا جا

یہ ہیں عوام کے منتخب نمائندے‘ انہیں کم تنخواہ کا چیک کاٹتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور یہ وفاقی سیکرٹریز کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں منتخب عوامی نمائندوں اور سیاستدانوں کا طرزعمل شُتر مرغ سے مشابہ ہے۔ فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے ارکان اسمبلی کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی تو یہ بھڑک اُٹھے۔ ہم کوئی سرکاری ملازم ہیں کہ تعلیمی قابلیت کی بناء پر الیکشن میں حصہ لینے کے حقدار بنیں۔ ہم نے قوم کی خدمت کرنی ہے ‘ ہمارا سیاسی تجربہ ہی ہماری تعلیمی قابلیت کا ثبوت ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب انہی عوامی نمائندوں کی تنخواہ اور مراعات کا معاملہ ہو تو یہ وفاقی سیکرٹریوں اور دیگر سرکاری ملازمین کی مثال ڈھونڈ لاتے ہیں‘ کبھی یاد نہیں رکھتے کہ وہ ریاست کے کُل وقتی ملازم نہیں‘ عوام کے نمائندے ہیں۔
مُجھے یاد نہیں کہ کسی دوسرے جمہوری ملک میں عوامی نمائندوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے کبھی اتنا شور مچایا ہو‘ جتنا ہمارے ارکان اسمبلی مچاتے ہیں۔ وہ سب سے آگے جو کبھی پوائنٹ آف آرڈر پر بولتے ہیں نہ بجٹ پر۔ جب موقع ملتا ہے تنخواہوں میں اضافہ کر گزرتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ میں حالت یہ ہے کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جو تنخواہ 2010ء میں لے رہے تھے یعنی ایک لاکھ چالیس ہزار پائونڈ سالانہ وہی آج 2016ء میں لے رہے ہیں اور کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔ 2010ء میں ڈیلی گارڈین نے وزیراعظم کی تنخواہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ خبر شائع کی تھی کہ لندن کے چالیس سے زائد سکول ہیڈ ماسٹر وزیراعظم سے زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں‘ جبکہ پاکستان میں سکول ٹیچرز کی تنخواہ صنعتی مزدوروں کے برابر ہے ‘ بعض نجی تعلیمی ادارے تو نائب قاصدسے بھی کم تنخواہ دے کر قوم کے معماروں کا استحصال کرتے ہیں اور کسی عوامی نمائندے نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہے نہ کسی وزیر‘ مشیر‘ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نے کبھی نوٹس لیا۔
گزشتہ روز میاں شہبازشریف نے صنعتی کارکنوں کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے اضافے کا اعلان کیا اب صنعتی کارکن چودہ ہزار روپے تنخواہ لینے کے حقدار ہیں اور کسی صنعتی ادارے کا مالک رحم دل و خداترس ہوا تو وہ یہ مشاہرہ ضرور دے گا مگر کبھی کسی نے سوچا کہ چودہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا چار بچوں کا باپ مہینے میں ایک بار بھی اپنے بچوں کو گوشت کھلا سکتا ہے؟ عید‘ شب برات کے موقع پر نئے کپڑے خریدنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ یہ جو آئے روز والدین بچوں کے ساتھ خودکشی و خود سوزی کرتے اور جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں کیا اس معاشی عدم مساوات اور سماجی تفریق کا شاخسانہ نہیں۔ اسی اخبار میں جس نے ارکان اسمبلی کی شرمندگی والی خبر شائع کی ہے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کے سب سے غریب اور پسماندہ صوبہ بلوچستان میں ارکان صوبائی اسمبلی کو چار لاکھ ساٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی مد میں ملتے ہیں جبکہ انہیں ہر ماہ کم و بیش تین چار کروڑ روپے کی رقم ترقیاتی فنڈز کے طور پر دان کی جاتی ہے ان ترقیاتی فنڈز سے بلوچستان نے کتنی ترقی کی؟ عیاں راچہ بیاں۔ 
عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کی طرف سے قومی وسائل پر عیش کرنے کی عادت تکلیف دہ اس لیے ہے کہ یہاں پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے یعنی فی کس آمدنی دو سو روپے بھی نہیں‘ وسائل کی کمی کی وجہ سے اڑھائی کروڑ بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں اور ساٹھ لاکھ نوجوان حصول روزگار کے لیے ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ طبی سہولتوں کا عالم یہ ہے کہ لیّہ میں ساٹھ افراد زہریلی مٹھائی کھانے سے بیمار ہوئے تو تحصیل و ڈسٹرکٹ ہسپتال کے علاوہ ملتان کے نشتر ہسپتال میں ان کے معدے صاف کرنے کا بندوبست نہ تھا اب تک 32 افراد جاں بحق ہو چکے اور پندرہ قریب المرگ ہیں۔ آج تک عوام کے غم خوار اور جگہ جگہ ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے حال تک نہیں پوچھا‘ عمران خان کو بھی ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ عمر حیات کو پُرسا دے سکے۔ گزشتہ روز فیصل آباد میں سو افراد زہریلا دودھ پی کر ہسپتالوں میں جا پہنچے‘ جو اشیاء خورونوش کا معیار چیک کرنے کے ذمہ دار اداروں کی ناقص کارگزاری کا ثبوت ہے۔ جعلی ادویات‘ زہریلی خوراک‘ ناقص اشیائے صرف گلی محلے میں بک رہی ہیں‘ پینے کے پانی میں آرسینک کی مقدار بڑھ رہی ہے‘ سرکاری ادویات مارکیٹوں میں فروخت ہوتی ہیں اور سرکاری فنڈز کی خردبرد کا بازار گرم ہے‘ مگر مجال ہے کہ عوامی نمائندوں نے روک تھام کی کوشش کی ہو یا اسمبلیوں میں شرمندگی کا اظہار کیا ہو‘ البتہ وقفے وقفے سے انہیں اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اگر پاناما لیکس پر شور و غوغا برپا نہ ہو تو مُجھے یقین ہے یہ اب تک من مانا اضافہ کر چُکے ہوتے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بار خلافت اُٹھایا تو حضرت عمرؓ کے مشورے پر کپڑے کا کاروبار ختم کر دیا کہ حکمران کے کاروبار کے سامنے دوسروں کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا۔ مشورہ ہوا کہ امیر المومنینؓ کی ماہانہ تنخواہ کیا مقرر کی جائے؟ نبی علیہ السلام کے یارغارؓ نے کہا ''میرا مشاہرہ بس اتنا ہو گا جتنا مدینہ منورہ کے کسی عام مزدور کا معاوضہ ہے‘ اگر میرا اور میرے بال بچوں کا گزارا اس مشاہرے میں نہ ہوا تو میں مزدوروں کی اُجرت میں اضافے پر زور دوں گا‘‘ سب نے صاد کیا۔ ریاست کے محنت کشوں کی تکالیف کا احساس اسی حکمران کو ہو سکتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی ان کے برابر ہو۔ جن عوامی نمائندوں‘ وزیروں‘ مشیروں اور حکمرانوں کی تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ ترقیاتی صوابدیدی فنڈز کی پیاس کروڑوں روپے سے نہ بجھتی ہو اور وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو حسد کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں انہیں پینتالیس سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں سڑک کنارے بیٹھ کر روڑی کوٹنے‘ تیس تیس اینٹیں اٹھا کر کئی منزلہ عمارت کی چھت تک پہنچانے اور لوہے کی بھٹی پر کام کرنے والے محنت کش کی اذیت اور دُکھ کا احساس ہو تو کیونکر؟ ''جس تن لاگے سو تن جانے‘‘ حد تو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں دو سو افراد کو چوہے کاٹ چکے ہیں‘ مگر پرویز خٹک کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔
عوامی نمائندوں اور منتخب حکومتوں کے اسی طرزعمل کی وجہ سے ہمارے ہاں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکی۔ ملک کی ستر اسی فیصد آبادی کو آخر اس وسائل خور جمہوریت نے کیا دیا ہے؟۔ 1977-1958ء اور 1999ء میں فوجی آمر نے نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹی اور منتخب حکومت کو برطرف کیا تو لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور سُکھ کا سانس لیا۔ مجھے یاد ہے کہ 1999ء میں میاں صاحب کے قریبی ساتھی بھی صورتحال کا ذمہ دار اپنے لیڈر کو قرار دیتے تھے جو چند قریبی ساتھیوں کے علاوہ کسی وزیر‘ مشیر اور رکن اسمبلی سے ہاتھ ملانا گوارا کرتا نہ کسی عوام دوست مشورے پر کان دھرتا۔ چند روز پیشتر ایک دل جلے رکن اسمبلی نے میاں صاحب سے کہہ ہی دیا کہ آپ نے ملاقات کے لیے بلایا شکریہ‘ مگر میں احسان مند عمران خان کا ہوں جس نے آپ کو اپنے ساتھیوں اور اخبار نویسوں سے ملنے پر مجبور کر دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومتیں برطرف ہوئیں اور آصف علی زرداری کی حکومت نے مدت پوری کی تو اگلے الیکشن میں کارکنوں کے گھروں میں بیٹھ جانے کی وجہ مایوسی تھی اور عوامی مسائل سے بے اعتنائی جس کا بدلہ عوام اور کارکنوں نے اپنے اپنے انداز میں لیا۔
عوامی نمائندے اگر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافے کے خواہشمند ہیں تو سارا قصور ان کا نہیں جب اُوپر سے نیچے تک لوٹ مچی ہے تو اس بہتی گنگا میں وہ ہاتھ دھونے کی کوشش کیوں نہ کریں۔ جب لیڈر شپ کا معیار ہی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار ہے تو پھر کسی سے گلہ کیا؟آج ہی ارکان اسمبلی کی تنخواہیں محنت کشوں کے برابر انہیں اپنے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھانے‘ اہل خانہ کا علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کا پابند کر دیں۔ ایک ماہ میں مزدور کی تنخواہ ایک لاکھ اور سرکاری سکول و ہسپتال کی حالت آغا خان ہسپتال سے بہتر ہو گی۔
شورش کاشمیری مرحوم کی تحریر کا ایک اقتباس ان دنوں سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے جو قارئین کی تفنّن طبع کے لیے پیش ہے ''ہمارے لیڈر بنتے ہیں دولت کی فروانی سے‘ سرکار کی خوشنودی سے‘ وزارت کے راستے سے‘ کرسی کے فضل سے‘ غنڈوں کی رفاقت سے‘ اخبارات کی پبلسٹی اور صحافیوں کے قلم سے‘ حکام کی چاپلوسی سے‘ اکابر کی ذریت سے‘ بادہ خانوں کی چوکھٹ سے‘ اسلام کی مجاوری سے‘ جبکہ دوسرے ملکوں میں لیڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے‘ دولت کے ایثار سے‘ جاں کے زیاں سے‘ خدمت کی راہ سے‘ علم کے کمال سے‘ نگاہ کی بصیرت سے‘ عوام کی رفاقت سے‘ عقائد کی پختگی سے‘ اُصولوں کی پیروی سے‘ نصب العین کی محبت سے‘ اور قید خانوں کی ضرب سے‘‘ ع
اب یہ حکائت عام ہوئی ہے پڑھتا جا شرماتا جا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں