صدر ممنون حسین کے منہ میں گھی‘ شکر۔ بجا فرمایا! ''پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا‘‘ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے ع
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
عمران خان کی بھی آف شور کمپنی نکل آئی۔ احتساب مخالف عناصر کے سوکھے دھانوں پر جیسے اوس پڑ گئی۔ خواجہ آصف کو کہنے کا موقع مل گیا کہ کچھ شرم ہوتی ہے‘ کچھ حیا ہوتی ہے۔
عمران خان یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے کہ انہوں نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنے نام سے کمپنی بنائی‘ اور جب فلیٹ بک گیا تو پوری رقم پاکستان لا کر بنی گالا میں فارم ہائوس بنا لیا۔ عمران خان غلطی کا مرتکب ہوا‘ آف شور کمپنیوں کے خلاف مہم شروع اور انہیں ناجائز دولت چھپانے کا ذریعہ ثابت کرنے سے قبل عوام کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ جوشِ جذبات میں وہ یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ سیاست میں بھول چوک کی گنجائش ہوتی ہے نہ بعد از وقت وضاحتوں پر کوئی اعتماد کرتا ع
یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں
اپنی دیانتداری اور صاف گوئی سے کروڑوں مرد و زن کو متاثر کرنے والے لیڈر کا اپنا حساب کتاب بالکل صاف شفاف ہونا چاہیے‘ تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے اور باتیں بنانے کا موقع نہ ملے۔ اپنی آف شور کمپنی کے حوالے سے سکوت کی طرح مطیع الرحمن نظامی شہید کی پھانسی پر خان صاحب کی خاموشی بھی ان کے مداحوں اور پیروکاروں کو پریشان کر رہی ہے‘ اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ ان کے بعض نادان مشیر‘ حامد خان جیسے وکیل ان کا منہ بند رکھنے میں کامیاب رہے‘ حالانکہ پاکستان سے وفاداری کی رسم نبھاتے نبھاتے‘ جاں سے گزرنے والے عبدالقادر ملاؒ‘ صلاح الدین چودھری ؒ اور مطیع الرحمن نظامیؒ کے حق میں آواز بلند کرنا پاکستان میں حب الوطنی کو فروغ دینے اور نوجوان نسل کو بھارت کے یاروں اور ملک کے غدّاروں کے عزائم سے آگاہ کرنے کے مترادف ہے‘ مگر خان صاحب نے میاں نواز شریف کی طرح خاموش رہ کر قوم کو مایوس کیا۔ شاید تحریک انصاف میں گھسے این جی اوز مافیا نے انہیں باز رکھا۔
نیازی سروسز لمیٹڈ کا معاملہ کھلنے پر جن لوگوں کا خیال ہے کہ پانامہ کرپشن پر اب کوئی سوال اٹھانے کی ضرورت ہے نہ احتساب کمشن بنانے کا جواز‘ وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے سارے سیاستدان بھی کرپٹ‘ آف شور کمپنیوں کے مالک اور قرض خور و ٹیکس چور نکل آئیں‘ تو پھر بھی اس وقت تک شریف خاندان قوم کے سوالات سے نہیں بچ سکتا‘ جب تک مروّجہ و مسلّمہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق پانامہ پیپرز میں درج آف شور کمپنیوں اور لندن میں موجود جائیدادوں کی جائز ملکیت کے حوالے سے قوم کو مطمئن نہیں کرتا۔ صدر مملکت ممنون حسین اگر کوٹری میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ''پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے اور مملکتِ خداداد کو کرپٹ افراد کی ضرورت نہیں‘ انہیں ٹھیک ہو جانا چاہیے‘ ورنہ انہیں سسٹم سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے‘‘ تو حالات کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر صدر نے ایک شعر بھی پڑھا ؎
بوجھ بڑھتا جا رہا ہے نائو پر
کچھ مسافر پھینک دو منجدھار میں
عمران خان کی آف شور کمپنی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد حکومت کو آزاد‘ خود مختار اور بااختیار جوڈیشل کمشن کی تشکیل اور شفاف تحقیقات سے گھبرانا چاہیے‘ نہ تاخیری حربوں سے خواہ مخواہ یہ تاثر پختہ کرنا چاہیے کہ حکمران احتساب سے خوفزدہ ہیں اور وہ مخالفین کی پگڑی اچھال کر اپنے معاملات کی پردہ پوشی پر مُصر۔ قدرت نے اس قوم کو بلا امتیاز و بلا تفریق احتساب کا نادر موقع فراہم کیا ہے تو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر پانامہ پیپرز کے طفیل قوم کی جان ان پیرانِ تسمہ پا سے چھوٹتی ہے جنہیں قومی وسائل لوٹنے‘ بیرون
ملک اثاثے بنانے اور آپس میں لڑنے بھڑنے کے سوا کوئی کام آتا ہے نہ ایک صاف ستھرے‘ روشن خیال‘ خوشحال اور جدید معاشرے کی تشکیل جن کا مقصد ہے‘ تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ احتساب کی زد میں شریف خاندان آئے‘ زرداری خاندان‘ چودھری خاندان‘ ولی خاندان یا عمران خان‘ جہانگیر ترین اور علیم خان سب کودھڑ رگڑا ع
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
غضب خدا کا بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے تریسٹھ کروڑ روپے نقد برآمد ہوئے‘ شرجیل میمن کے تہہ خانے سے دُگنی رقم اور پنجاب میں حکمران رکاوٹ نہ ڈالیں تو نیب اور دیگر ریاستی ادارے اس سے بڑے سکینڈل سامنے لائیں۔ ایک سپورٹس فیسٹیول اور ایل ڈی اے سٹی کی شفاف تحقیقات ہوں تو لوگوں کی آنکھیں پتھرا جائیں مگر حیلوں بہانوں سے احتساب کو ٹالا جا رہا ہے‘ اور اس کرپٹ سسٹم کو بچانے کی سعی کی جا رہی ہے جس نے غربت و افلاس کے مارے لوگوں کو خود کشی‘ خود سوزی‘ عصمت فروشی‘ چوری‘ راہزنی اور دیگر اخلاقی اور سماجی جرائم پر مجبور کر دیا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے امت کو متنبہ کیا تھا کہ ''کادالفقران یکون کفراً‘‘ (غربت کفر پر آمادہ کر سکتی ہے)۔ خود کشی قانوناً اور شرعاً جرم ہے مگر پاکستان میں اس کا ارتکاب ہونے لگا ہے‘ کسی کو احساس نہیں۔ ایک طرف دولت کے انبار‘ نمود و نمائش‘ فضول خرچی کا کلچر اور دوسری طرف گھر میں فاقے‘ بچوں کو شب و روز بھوکا پیاسا دیکھ کر کس ماں باپ کا دماغی توازن درست اور صبر و برداشت کا حوصلہ برقرار رہ سکتا ہے۔
پانامہ لیکس کا ہنگامہ برپا تھا کہ وزیر اعظم طبی معائنے کے لیے لندن تشریف لے گئے‘ اور دوران قیام گھڑیوں کی مہنگی دکان اور دنیا کے مہنگے سٹور پر صرف شاپنگ ہی نہیں کی بلکہ اس کی تشہیر بھی ضروری سمجھی۔ مقصد مخالفین کو چڑانا تھا یا بے کس‘ بے بس اور بھوکے عوام کو یہ احساس دلانا کہ وہ تنگدستی اور بیماری کے ہاتھوں مریں یا جیئں ہماری بلا سے‘ ہم تو اپنے امیرانہ بلکہ شاہانہ شوق پورے کریں گے۔ صرف میاں نواز شریف پر کیا موقوف‘پاکستانی کلچر میں دھن دولت کی نمائش اور اختیار و مرتبے کی دھونس لاعلاج مرض ہے۔ اسلام کے نام لیوائوں بالخصوص حکمرانوں کو یہ تک یاد نہیں رہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں پھل کھا کر چھلکے باہر گلی میں پھینکنے کی ممانعت ہے تاکہ کسی غریب کا بچہ انہیں دیکھ کر احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے ایک گورنر کو مہنگا لباس پہنے دیکھ کر نہ صرف معزول کیا بلکہ اسے بوریا پہنا دیا تاکہ افلاس زدہ لوگوں کی تکلیف کا احساس ہو۔ یہ اسی طرز حکمرانی کا نتیجہ تھا کہ ایک گھر میں جب ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ دودھ میں پانی ملا دو تو بیٹی نے جواب دیا ''اماں تمہیں معلوم نہیں حضرت عمر ؓ نے ملاوٹ سے منع کیا ہے‘‘ ماں بولی ''اس وقت کون سا عمرؓ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ بیٹی نے جواب دیا ''مگر عمرؓ کا ربّ تو ہمیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ کو اس ایماندار دودھ فروش لڑکی کے بارے میں علم ہوا تو آپ نے اسے اپنی بہو بنا لیا‘ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کی نانی تھیں۔
پانامہ لیکس نے بحیثیت قوم ہمیں یہ بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ احتساب کا کوڑا بے رحمی سے چلا کر معاشرے کو خائن‘ بددیانت‘ لٹیرے اور بدعنوان حکمرانوں سیاستدانوں‘ ججوں‘ جرنیلوں‘ بیوروکریٹس سے نجات دلائیں جن کی وجہ سے یہاں غربت کم ہونے میں آ رہی ہے نہ مہنگائی اور بے روزگاری‘ اور جن کی کرپشن نے قومی سلامتی کے لیے خطرات اس قدر بڑھا دیے کہ اگر بروقت تدارک نہ کیا گیا تو دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ علیحدگی پسندوں اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی مشکل ہے۔ پاکستان بار کونسل نے چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو نوٹس کا مطالبہ کیا ہے اور معقول تجویز پیش کی ہے کہ پانامہ پیپرز میں درج سیاستدانوں کے خلاف فوری ایکشن لیتے ہوئے باقی ماندہ سیاسی خاندانوں کا مواخذہ بھی کیا جائے۔ عوام کی نمائندگی کے دعویداروں کا اخلاق و کردار اتنا بلند و برتر تو ہونا چاہیے کہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ یہ نوجوان نسل کے لیے رول ماڈل ہوں‘ اور اس قدر اچھے کردار کے مالک کہ راہ چلتا کوئی شخص بھی ان کی امانت و دیانت اور کردار پر سوال کرے تو یہ حیلوں‘ تاویلوں کے بجائے موقع پر ہی اپنی پاکدامنی کا ثبوت فراہم کر سکیں۔ ڈیوڈ کیمرون اپنے مخالف سے دغا باز کا لفظ سن کر بھی پارلیمنٹ سے بھاگا نہیں اور جواباً اُسے جھوٹا‘ چور‘ اُچکا نہیں کہا‘ بلکہ پوری صفائی پیش کی۔ ہمارے حکمران کیا آسمان سے اترے ہیں۔ عمران خان کی آف شور کمپنی تھی تو اسے بھی احتساب کے کٹہرے میں لائیں‘ اس کی آڑ میں کوئی بچنے کیوں پائے۔ یہ کام مگرکرے کون؟ ؎
کیا سمجھیں گے میرے روگ
گونگے‘ بہرے‘ اندھے لوگ