معروف سفارت کار کرامت غوری کی کتاب خریدنے کے لیے میں نے ایکسپو سنٹر اور پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلہ میں ہر بُک شاپ کھنگال ڈالی‘ ملنی تھی نہ ملی۔ ہمت میں نے نہیں ہاری اور بالآخر میں کامیاب رہا۔ پوری کتاب دلچسپ ہے مگر اس کے بے نظیر بھٹو ‘ ضیاء الحق ‘ عمران خان اور نواز شریف والے قصے خاصے دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ کرامت غوری لکھتے ہیں ''زرداری صاحب وزیر اعظم کے ہمراہ تھے اور نہیں بھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بادل نخواستہ وہاں آئے تھے۔ اس لیے کہ پہلی شب میزبان وزیر اعظم کے عشائیہ کے بعد وہ کسی بھی تقریب میں نظر نہیں آتے تھے۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے انہیں زبردستی کا ساتھ دینا پڑ رہا تھا۔ سرکاری مہمان خانے میں وہ اپنے کمرے میں یوں بند ہو گئے تھے جیسے اعتکاف میں بیٹھ گئے ہوں۔ ان کا کھانا اور ناشتہ بھی کمرے میں جاتا تھا بلکہ کھانے کے ضمن میں تو ان کی فرمائش یہ تھی کہ میرے گھر کے باورچی خانے سے ان کے لیے کھانا آئے اور اس فرمائش کو میری بیگم نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ زرداری صاحب کی خواہش یہ بھی تھی کہ انہیں ہندوستانی فلموں کے ویڈیو بھی فراہم کئے جائیں اور اس خواہش کی تکمیل میری بیٹی اور بیٹوں کے تعاون سے ہو رہی تھی کہ ان کے پاس تو ایسے ویڈیوز کی ایک پوری لائبریری پڑی تھی۔‘‘
''بے نظیر میں جاگیرداری کا خمیر ان کی اس کمزوری کا راز تھا کہ وہ اپنے گرد منڈلانے والے جاہ پرستوں کو پرکھنے میں یا تو دانستہ طور پر ناکام تھیں یا شائد جاگیرداری کلچر کے تقاضے اس طرح پورے ہو سکتے تھے کہ وہ ان مکھیوں کو اردگرد بھنبھناتے دیکھتی رہیں اور اسے اپنی مقبولیت سے تعبیر کرتیں۔ جاگیرداری کا یہی خمیر البتہ ان کے شوہر نامدار میں ان کی بہ نسبت کچھ زیادہ قوی تھا۔ اگرچہ وہ اپنے خاندان کی بنیاد پر بے نظیر کے مقابلے میں بہت ہی معمولی قسم کے چھوٹے جاگیردار تھے لیکن وہ جو خالی برتن کے زیادہ زور سے بجنے کی کہاوت ہے وہ زرداری پر زیادہ صادق آتی تھی اور مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کراچی کے پی آئی اے کے دو باورچی بطور خاص الجزائر بھجوائے گئے۔ تاکہ وی وی آئی پی فلائٹ کے معزز مسافروں کے لیے کھانا تیار کر سکیں۔ ان باورچیوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ انہیں بھنڈی فراہم کی جائے کیونکہ بھنڈی زرداری صاحب کو بہت زیادہ مرغوب تھی اور اس کے بغیر ان کے لیے مینو مکمل نہیں ہو سکتا تھا‘ میں نے معلوم کرایا تو بھنڈی شہر میں تو کیا ملک بھر میں دستیاب نہیں تھی۔ الجزائر کٹر قسم کا سوشلسٹ نظریات کا ملک تھا جس میں موسم کے پھل اور ترکاریاں ہی ملتی تھیں بھنڈی کا موسم نہیں تھا۔ لہٰذا اس کی فراہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘‘
''میں نے اور میرے عملے نے جب باورچیوں کی فرمائش پوری کرنے سے معذوری ظاہر کی تو کھلبلی مچ گئی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ زرداری صاحب کی فرمائش جو ان کے خدّام کی نظر میں پاکستان کے بے تاج بادشاہ تھے پوری نہ ہو ۔ لہٰذا پیرس میں پی آئی اے کے منیجر کو فون کیا گیا اور وہاں سے دو کلو بھنڈیاں ڈپلو میٹک کارگو کے عنوان سے الجزائر میں وارد ہوئیں۔ اگلی صبح وی وی آئی پی فلائٹ کے مینو میں بھنڈیاں نمایاں تھیں اور الجزائری حکومت کا پروٹوکول کا محکمہ اور اس کے کارکنان انگشت بدنداں تھے کہ ان کے ہاں ایسی ناز برداریوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔‘‘
کرامت غوری عمران خان کے حوالے سے لکھتے ہیں:
'' عمران کے میدان سیاست میں کودنے کے ساتھ ہی حکومت نے بیورو کریسی میں خصوصاً ان افسران کی فہرستیں تیار کرنی شروع کر دیں جن پر عمران کے دوست یا ہمدرد ہونے کا گمان ہو سکتا تھا جو برسر اقتدار طبقہ کی نظر میں گناہ کی بات تھی۔ بھلا کسی افسر کی کیا مجال کہ وہ سرکارِ عالی کے سوا کسی اور کا وفادار یا ہمدرد ہو۔
عمران سے میری ملاقات ‘ شناسائی اور دوستی کی ابتداء بہت ڈرامائی طور پر اور قطعاً غیر متوقع حالات میں ہوئی تھی۔ یہ1992ء کے آغاز میں پاکستان کے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے دو تین ہفتے بعد کا واقعہ ہے کہ جمعہ کی دوپہر تھی اور میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہو کر اپنے آرام دہ ٹی وی لائونج میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ بہت خوبصورت موسم تھا اور جو لوگ کویت میں رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں کھلی دھوپ میں سرما کی دوپہر کیسی گداز ہوتی ہے۔ اس عالم میں میرے پاس پی آئی اے کے جنرل منیجر خواجہ منظور الحسن کا گھبرایا ہوا فون آیا۔ خبر جو وہ مجھے دے رہے تھے‘ گھبرانے والی تھی اور وہ یہ کہ عمران خان کویت ایئر پورٹ پر بے یارو مددگار تھے کہ سعودی ایئر لائنز انہیں چھوڑ کرریاض کو روانہ ہو گئی تھی۔ میں نے کہا یہ تو تشویش کی بات ہے کہ ہمارے قومی ہیرو کو جو نہ جانے کتنے لاکھوں‘ کروڑوں پاکستانی دلوں کی دھڑکن تھا۔ بدّو یوں نظر انداز کر کے چلے گئے تھے۔ پھر سوچا کہ ریگ زار کے باسیوں کو ہیرے کی پرکھ بھی کہاں ہوتی ہے۔ میں نے منظور صاحب سے کہا‘ کہ وہ ایئر پورٹ پہنچیں اور میں خود بھی وہیں آ رہا ہوں۔
عمران سے وہ پہلی ملاقات بہت طویل رہی۔ بہت باتیں ہوئیں۔ میرے بچے بھی عمران کا نام سن کر ساتھ ہو لیے تھے۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے متعلق سوالات کا تانتا باندھ دیا اور عمران نے بہت صبر و سکون سے ہر سوال کا جواب دیا۔
عمران نے مجھ سے ایک لفظ نہیں کہا کہ میں کویت میں بھی ان کے منصوبے کے لیے کچھ کروں یا نہ کروں لیکن عمران کے جانے کے بعد مجھے خود ہی خیال ہوا کہ یہ پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا‘ ان کے دلوں پر راج کرنے والا اگر تن آسان ہوتا تو عقیدت و محبت کے ان لاکھوں پھولوں کے بستر پر آرام کرتا جو قوم کے بوڑھوں‘ جوانوں اور بچوں نے اس پر نچھاور کئے تھے لیکن یہ تو اس آرام اور چین کو تج کر کوچہ کوچہ‘ شہر شہر‘ ملک ملک مارا مارا پھر رہا ہے تاکہ اپنے خواب کو تعبیر کی قبا پہنا سکے۔ اپنی والدہ کی یاد میں‘جو کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو کر اسے یتیم کر گئی تھیں۔ ایک ایسا شفاخانہ‘ ایک ایسا خیراتی ہسپتال تعمیر کرنا چاہتا ہے جہاں پاکستان کے ناداروں کو اس ملعون مرض سے لڑنے کا حوصلہ اور اسباب و سامان مہیا کیا جائے گا۔
میں نے طے کر لیا کہ میں ازخود کویت میں عمران کے ہسپتال کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم چلائوں گا۔ خواجہ منظور الحسن سے مشورہ کیا تو وہ کِھل اٹھے۔ کہنے لگے:''میں تو خود یہی چاہتا تھا لیکن آپ سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی‘‘
ہم نے مل کر سرکردہ پاکستانیوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور میں نے اس کے اراکین کو اپنے اور ان کے مشن سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے بھر پور تعاون کی اپیل کی اور ان میں سے ہر ایک نے میری آواز پر لبیک کہا۔
ظاہر ہے کہ عمران جیسے کھرے انسان کو میرے خلوص نے بہت متاثر کیا تھا اور اس نے دنیا بھر میں اپنے ہسپتال کے لیے ہونے والی ویسی ہی تقریبات میں‘ جیسی میں نے کویت میں منعقد کی تھی اکثر میں میرا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے اظہار تشکر کے طور پر یہ کہا تھا کہ ''میں نے ایسا سفیر اور کوئی نہیں دیکھا جس نے ازخود میرے یا کسی اور کے کہے بغیر میرے ہسپتال کے لیے ایسی بھر پور مہم چلائی تھی‘‘۔
کویت میں 1995ء کے موسمِ بہار کی پہلی کلیاں چٹک رہی تھیں کہ میرے نام سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ کا قیامت کا نامہ آیا۔Top Secretسرکار میں سکیورٹی کی یہ سند بہت ہی اہم خط و کتابت میں استعمال کی جاتی ہے‘ لہٰذا لفافہ دیکھ کر ہی میرے لیے خط کا مضمون بھانپ لینا مشکل نہیں تھا۔
خط میں سیکرٹری خارجہ نے مجھے مطلع کیا کہ میرے بارے میں وزیر اعظم کو تشویش ہے اور انہوں نے مکتوب نگار کو حکم دیا ہے کہ مجھ سے دو سوالات کے جوابات بلکہ وضاحتیں طلب کریں اوردو ہفتے کے اندر اندر وزیر اعظم کو میرے جواب سے مطلع کریں۔
مجھ سے جو وضاحتیں طلب کی گئی تھیں ان کے سوال یہ تھے:
(1) ''تم نے عمران خان کے ہسپتال کے لیے فنڈز کیوں جمع کئے اور کس کی اجازت سے کیے؟‘‘
(2)''تمہارے متعلق کویت میں رہنے والے پاکستانیوں کو یہ شکایت ہے کہ تم صرف ایک مخصوص لسانی گروہ کی سرپرستی کرتے ہو اور دیگر ہم وطنوں کو نظر انداز کرتے ہو؟‘‘
یہ سوالات اگرچہ چونکا دینے والے تھے لیکن کویت میں پیپلز پارٹی کے مقامی کارندوں کی گزشتہ ایک طویل عرصے سے جو حرکات اور سکنات میرے علم میں آتی رہی تھیں ان کے پیش نظر یہ غیر متوقع پیش رفت نہیں تھی‘‘۔