عوامی نمائندگی یا نوابی شان

قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ نے کسی بحث و تمحیص کے بغیر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں تین چار سو فیصد اضافے کی قرار داد منظور کی تو مجھے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں یاد آئے۔ کرنال کے نواب‘ برطانیہ سے تعلیم یافتہ اور قائد اعظمؒ کے قابل اعتماد ساتھی۔
ایک بیورو کریٹ نے بیگم رعنا لیاقت علی خاں سے پوچھا کہ انسان ہمیشہ اپنے بیوی بچوں کے لیے فکر مند رہتا اور کچھ نہ کچھ بچا کر رکھتا ہے تاکہ کسی ناگہانی صورت حال میں وہ پریشانی کا سامنا نہ کریں۔ مرحوم وزیر اعظم نے اس بارے میں کبھی کیوں نہ سوچا؟ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے بھی ایک بار یہی سوال اپنے شوہر سے کیا لیکن خان صاحب نے مجھے لاجواب کر دیا بولے''میں ایک نواب خاندان سے تعلقات رکھتا ہوں میں نے پاکستان منتقل ہونے سے قبل کبھی ایک لباس دوسری بار نہیں پہنا‘ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گیا تو میرے خاندان نے مجھے خادم‘ ڈرائیور اور باورچی کی سہولت فراہم کی‘ ہمارے گھر میں رواج تھا کہ کوئی گھر میں کھانا کھائے نہ کھائے پچاس ‘سو لوگوں کا کھانا ضرورپکے گا اور ضرورت مند آ کر اچھا کھانا کھائیں گے لیکن جب میں پاکستان کا وزیر اعظم بنا تو اپنے آپ سے کہا لیاقت علی ! تمہیں اب نوابی اور وزارت عظمیٰ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا‘‘
''میں نے اپنے لیے وزارت عظمیٰ کا انتخاب کیا اور نوابی تج دی‘‘ بیگم صاحبہ نے مزید بتایا کہ خان صاحب بتایا کرتے''میں جب بھی اپنے لیے نیا کپڑا خریدنے لگتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان کے سارے عوام کے پاس نئے کپڑے ہیں؟ میں جب اپنا مکان بنانے کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان کے تمام لوگ اپنے ذاتی گھروں میں مقیم ہیں؟اور جب اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کی سوچ آ گھیرتی ہے تو یہ خیال مجھے روکتا ہے کہ پاکستانی شہریوں میں سے ہر ایک کے پاس مستقبل کے لیے مناسب رقم موجود ہے ؟تمام سوالوں کا جواب چونکہ مجھے نفی میں ملتا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ سے کہتا ہوں لیاقت علی! تم ایک غریب ملک کے وزیر اعظم ہو تمہیں نیا لباس‘ پر تکلف دسترخواں ‘ ذاتی مکان اور جمع پونجی زیبا نہیں‘‘۔ وفات کے بعد‘ لیاقت علی خان کے خاندان کے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہوا تو گورنر جنرل غلام محمد نے بیگم رعنا لیاقت علی خاں کو سفیر مقرر کر دیا تاکہ شہید وزیر اعظم کے بیوی بچوں کوڈھنگ کا ٹھکانہ میسر آئے۔ یہ اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ ایک بار دوران سفر لیاقت علی خاں ڈیرہ نواب صاحب آئے جہاں ان کا شاندار استقبال ہوا تو نواب صاحب بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی نے انہیں کراچی میں اپنا ایک محل بطور تحفہ پیش کیا مگر نوابزادہ صاحب نے معذرت کی اور اپنا یہ قول دہرایا کہ ''جب تک ہندوستان سے ہجرت کرنے والا آخری خاندان ذاتی مکان میں منتقل نہیں ہوتا میرے لیے ذاتی گھر کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔‘‘ 
ہمارے منتخب نمائندوں سے‘ ان کی اہلیت و صلاحیت ‘ حسن کارکردگی اور تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کوئی قسمت کا مارا سوال کر بیٹھے تو یہ اپنے آپ کو قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کا جانشین قرار دے کر وہ کارنامے گنواتے ہیں کہ آدمی سن کر دنگ رہ جاتا ہے موجودہ بے ننگ و نام جمہوریت پر اعتراض ہو تو ثنا خواں تقدیسِ جمہوریت پاکستانی سیاست کے انہی چند ناموں کا موازنہ فوجی آمروں کے ساتھ کرتے ہیں مگر جب ان کے نقش قدم پر چلنے کا مطالبہ ہو تو آنکھیں بند اور زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اور کسی کو یاد نہیں رہتا کہ اگر قائد اعظم ‘لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر ہمارے سیاستدانوں بلکہ پوری قوم کے رول ماڈل ہیں تو پھر موجودہ قیادت کا طرز عمل کیوں یکسر مختلف ہے اور قومی خزانے کو عوام کی امانت کیوں نہیں سمجھتے۔اپنی تنخواہوں اور مراعات کا موازنہ بیورو کریٹس سے کیوں کرتے ہیں۔ بیورو کریسی سے مقابلہ ذہانت‘ تعلیم‘ قابلیت اور عوامی خدمت کے میدان میں کیوں نہیں ہوتا؟
اگر ہر رکن اسمبلی لیاقت علی خاں کی طرح اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے‘ ترقیاتی فنڈز کے نام پر کھابہ فنڈز کی وصولی‘ آف شور کمپنیوں کے قیام‘اندرون و بیرون ملک جائیدادوں کی خرید اور کاروبار کے علاوہ بنک اکائونٹس میں بیش بہا اضافے کے وقت بھی اگر یہ سوچنے کی زحمت کرے کہ اب وہ فلاں علاقے کا جاگیردار‘ تمندار‘ ملک ‘ چودھری ‘ خان ‘ وڈیرہ ‘ سرمایہ دار ‘ صنعت کار اور تاجر نہیں عوامی نمائندہ ہے اور اپنے حلقے کے عوام سے کچھ وعدے کر کے ان کے ووٹوں کی برکت سے یہاں پہنچا ہے تو پھر ترقیاتی فنڈز میں خرد برد کی نوبت آئے‘ قرضے معاف کرانے والوں کی طویل فہرستیں شائع ہوں نہ ایسی سڑکیں پل اور عمارتیں تعمیر ہوں جو موسم گرما کی پہلی بارش اور آندھی طوفان میں یوں غائب ہوتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ (جہلم کا پل نمایاں مثال ہے)اور نہ عوام کو یہ شکایت ہو کہ ان کے مفاد کی بات ہو تو منتخب عوامی نمائندے بات بات پر لڑتے اور کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہونے دیتے مگر جب اپنی تنخواہوں اور مراعات کا معاملہ ہو تو یہ سارے اختلافات تنازعات اور جماعتی و سیاسی تعصبات بھلا کر یک جان و دو قالب ہو جاتے ہیں ۔
ان ارکان اسمبلی میں جدی پشتی جاگیردار ہیں‘ سونے کا چمچہ منہ میں لینے والے سرمایہ دار اور صنعت کار اور موجودہ بے ننگ و نام جمہوریت کے طفیل راتوں رات ارب پتی بننے والے نو دولتیے ‘ تنخواہ ان کی تین لاکھ ہو یا تیس لاکھ گزارا ان کا اس میں ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنی مالیت کی تو وہ گھڑی کلائی پر باندھنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ یہ بیرون ملک خریداری کے لیے بھی ان شاپنگ مالز کا انتخاب کرتے ہیں جن میں داخلہ فیس دو ہزار پائونڈ (یعنی ساڑھے تین لاکھ روپے)ہے خواہ آپ خریداری ایک ٹکے کی بھی نہ کریں جہاں ایک ایک تھری پیس سوٹ کی قیمت بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار پائونڈ ہے اور جن کے لنچ ڈنر کا بل ایک مزدور کی ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر ہوتا ہے۔ جو ووٹ مانگتے وقت عوام سے چاند تارے ان کے قدموں میں نچھاور کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر ایوانوں میں پہنچ کر صرف اور صرف پچھلے الیکشن کا خرچہ پورا کرنے اور اگلے انتخاب کے اخراجات اکٹھے کرنے میں لگے رہتے ہیں موجودہ اسمبلیوں میں کئی ایسے ارکان بیٹھے ہیں جو ساتویں ‘ آٹھویں بار ایوان میں پہنچے مگر ان کے حلقہ انتخاب میں پینے کا صاف پانی ملتا ہے نہ مریض کو اسپرین کی گولی اور نہ بچوں کے لیے سکول موجود ہے۔ گلیوں میں گندگی کے ڈھیر ہیں اور سیوریج نام کی کسی چیز کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔
قومی اسمبلی میں جسٹس(ر) افتخار چیمہ جیسا مرد درویش موجود ہے اور جمشید دستی جیسا پھڈے باز بھی۔ تبدیلی کے علمبردار انصافیے بھی براجمان ہیں اور جماعت اسلامی کے قناعت پسند ارکان بھی مگر مجال ہے کہ اس تحریک پر کسی نے صدائے اختلاف بلند کی ہو ورنہ ماضی میں ایسی تحاریک پر کوئی نہ کوئی اختلافی آواز ضرور سامنے آتی تھی۔ کوئی کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں کو یہ شرم ضرور دلاتا کہ بھائی لوگو! ہم یہاں تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لیے نہیں عوام کو آسودگی فراہم کرنے کے لیے آئے ہیں ان بے چاروں کی ماہانہ آمدنی ہمارے ایک دن کے الائونس کے برابر نہیں مگر ہمیں اپنی سہولتوں اور مشاہروں کی پڑی ہے۔ اس طرز عمل اور انہیں رویوں کی بنا ء پرجمہوریت اور جمہوری اداروں کی توقیر باقی نہیں رہی اور لوگ انہیں تقریری مقابلوں کا کلب سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تو ان کے مشاہرے کا سوال اٹھا۔ فرمایا مدینہ منورہ کے عام مزدور کے برابر میری تنخواہ مقرر کر دی جائے اگر گزارا نہ ہوا تو میں مزدوروں کی دیہاڑی میں اضافے کی اپیل کروں گامیری اور عام آدمی کی ضرورتیں برابر ہیں تو تنخواہ میں تفاوت کیوں؟ڈیوڈ کیمرون کی سالانہ تنخواہ لندن کے پینتالیس سکول ہیڈ ماسٹرز سے کم ہے مگر آج تک کیمرون نے اضافے کا مطالبہ نہیں کیا چھ سال سے اسی تنخواہ پر گزارہ کر رہا ہے کیونکہ اس نے وزارت عظمیٰ اور مال و دولت میں سے ایک کا انتخاب کیا مگر جس غریب‘ مفلوک الحال اور پسماندہ ملک کا وزیر اعظم پینتالیس کروڑ روپے کی گھڑی پہن کر ایوان میں براجمان ہو وہاں دوسرے عوامی نمائندے کسی سے پیچھے کیوں رہیں عمران خان سے توقع تھی کہ وہ اپنے ارکان اسمبلی سے اس شرمناک فعل پر باز پرس کرے گا مگر وہ بھی ہوائی جہاز‘ ہیلی کاپٹر‘ اور محل سے لطف اندوز ہو رہا ہے ع
ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں