کرپشن کا کوہ ہمالیہ اور چودھری نثار

مُلا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں تو ڈالیں‘ پاکستان کو شرمندگی سے دوچار بھی کیا اور افغانستان میں قیام امن کا سفر مزید طویل ہوا مگروہ جو کہتے ہیں ''عدو شرے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد‘‘ (دشمن کے شرمیں بسا اوقات خیر پوشیدہ ہوتی ہے) ملا اختر منصور جاتے جاتے ہمارے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے والے اداروں کی قلعی کھول کر پاکستانیوں سے نیکی کر گئے۔
2013ء کے انتخابات کے بعد جب عمران خان نے شور مچانا شروع کیا کہ جعلی شناختی کارڈوں اور جعلی ووٹر لسٹوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر ووٹ چوری ہوئے تو کسی نے مان کر نہیں دیا ‘جس طرح آف شورکمپنیوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کبھی ایران کی ہانکی جاتی ہے اور کبھی تو ران کی۔ کبھی قرضوں کی معافی کا معاملہ زیر بحث لایا جاتا ہے اور کبھی بنی گالہ کے محل اور لندن کے اس فلیٹ کا قصّہ جو بارہ تیرہ سال قبل بک چکا تاکہ پارک لین کے فلیٹوں اور ان کی خریداری سے جڑے سچ کا راز افشا نہ ہو سکے۔ اسی طرح جعلی ووٹر لسٹوں اور جعلی شناختی کارڈوں کے معاملے پر بھی نگران حکومت کے ناقص انتظامات‘ الیکشن کمشن کی کارگزاری اور الیکشن کے دن پولنگ ایجنٹوں کی نااہلی کا پردہ ڈال کرمعاملہ رفت گزشت کر دیا گیا۔ اعتزاز احسن بے چارے چیختے ہی رہ گئے کہ دھاندلی کے ثبوت تھیلوں میں بند ہیں مگر کمشن نے سنی نہ الیکشن کمشن اور نادرا نے مانی۔
ملا اختر منصور عرف ولی محمد بھی اگر ڈرون حملے کی بھینٹ نہ چڑھتا اور اس کاولی محمد کے نام سے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ متنازعہ نہ بنتا تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو جملہ شناختی کارڈوں کی جانچ پڑتال کا خیال آتا نہ یہ پتا چلتا کہ نادرا میں موجود ایک کرپٹ مافیاکب سے‘ کیا گل کھلا رہا ہے؟ قومی سلامتی کس طرح دائو پر لگی ہے؟ لاہور میں قومی اسمبلی کے ایک انتخابی حلقے کی عذر داری کی سماعت کے دوران جب بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کی شناخت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو نادرا کے موجودہ سربراہ نے یہ موقف اختیار کیاکہ کسی ووٹر کی درست شناخت نہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا ووٹ جعلی ہے‘ لیکن اب ولی محمد اور ملا اختر منصور کے اس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو جعلی قرار دے کر جو رائج الوقت طریقہ کار کے مطابق بنے‘ گزٹیڈ افسروں نے درخواست دہندہ کی شناخت اور کاغذات کی تصدیق کی اور تصویر و نشان انگوٹھا سب اصل ہے‘ اڑھائی کروڑ خاندانوں کو چھ ماہ کے اندر اپنے شناختی کارڈ دوبارہ تصدیق کرانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف غیر ملکیوں نے پیسے دے کر جعلی شناختی کارڈ بنوائے یا ہمارے سیاستدانوں نے اپنے ووٹ بڑھانے اور پارلیمانی اداروں تک پہنچنے کے لیے بھی اس ''کار خیر‘‘ میں حصہ ڈالا؟ 2013ء کے انتخابات سے قبل ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں قائم نادرا گشتی آفس کا سراغ لگا تھا‘ جہاں مبینہ طور پر ایک مخصوص پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے شناختی کارڈ تیار کئے جاتے تھے۔1980ء کی دہائی میں تو یہ مذموم کاروبار لاہور میں عروج پر رہا اور ہر امیدوار صوبائی و قومی اسمبلی ایک ایک ووٹر کے تین تین چار چار شناختی کارڈ بنوا کر پولنگ کے روز انہیں ایک پولنگ سٹیشن سے دوسرے پولنگ سٹیشن لیے پھرتا تھا۔ تین سال قبل میری رہائشی بستی میں تین چار ایسے گھروں کا سراغ ملا تھا جہاں دس مرلہ کے ایک گھر میں چالیس پچاس افراد ووٹر تھے اور حیرت انگیز طور پر یہ منی پاکستان تھا جس میںبیک وقت‘سیّد ‘قریشی‘ راجپوت‘ چودھری‘ شیخ‘ ملک اور خان شامل تھے۔ ایک ہی ولدیت کے شیخ‘ ملک‘ خان اور چودھری والی ووٹر لسٹ نادرا نے تیار کی تھی۔
سعودی عرب اور دیگر ممالک میں کئی ایسے منشیات فروش‘ سمگلر ‘قاتل اور دہشت گرد سزائے موت کے مستحق ٹھہرے جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ تھے۔ بدنام پاکستان ہوا مگر یہ اصلاً پاکستانی شہری نہیں تھے افغانی‘بھارتی اور برمی پاکستان کو بدنام کر کے اپنے انجام کو پہنچے۔یہ جعلی دستاویزات ظاہر ہے کہ کرپٹ‘ لالچی اور خوف خدا سے عاری افراد تیار کرتے ہیں لیکن اس سنگین جرم کا ارتکاب وہ اپنے بل بوتے پر نہیں کرتے۔ چودھری نثار علی خان خود کہہ چکے ہیں کہ آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔یہ کرپشن کا مرض ہے جو اوپر سے نیچے تک ہر ادارے اور ہر طبقے میں سرایت کر چکا ہے اور بے رحمانہ سرجری کے بغیر جس کاسدباب ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سات سال اور چودہ سال قید کی دھمکی دی ہے مگر یہ ڈھیٹ اور بے حیا مخلوق ان دھمکیوں سے ڈرنے والی ہوتی تو معاملہ یہاں تک پہنچتا کیوں؟ویسے بھی ملکی قوانین بڑے ٹھگوں‘ ڈاکوئوں اور مجرموں کے لیے نہیں ‘یہ تو معمولی رہزن‘جعلساز‘ موبائل چور اور جیب کترے کو سزائیں دینے کے لیے ہیں۔
پاناما لیکس نے ہماری اشرافیہ کو سر بازار عریاںکر دیا ہے ۔عالمی برادری نے جھرجھری لی ہے اور ہر ملک قانون سازی میں مصروف ہے۔ لندن میں ایک اینٹی کرپشن کانفرنس ہو چکی جس میں کرپشن‘ کک بیکس‘ کمیشن اور منی لانڈرنگ کی وبا سے نمٹنے کی تدابیر پر غور کیا گیا۔ یہ امکان بھی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں سوئٹزر لینڈ‘ سپین‘ پاناما اور برطانیہ وغیرہ میں ‘جہاںجہاں کرپشن کی دولت جمع ہے اور جو اثاثے بنائے گئے ہیں وہ ضبط کر کے ان امیروں کو فقیر بنا دیا جائے جو اپنے عوام کا خون چوس کر اربوں کھربوں کی دولت اور اثاثوں کے مالک ہوئے۔ جب کسی ملک کے حکمران‘ بیورو کریٹس‘ جج اور جرنیل حلال‘ حرام ‘ جائز ناجائز کی پروا کئے بغیر‘ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہوں‘ عوام کی امانت اختیارات اور قومی وسائل کو اپنی ذات‘ خاندان اور اقربا کے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہوں تو نادرا اور پاسپورٹ آفس میں براجمان انہی طاقتوروں کے گماشتہ اور مقلد کیوں پیچھے رہیں؟ جب ایک سطح پر اختیارات کے ناجائز استعمال پر کوئی قدغن نہیں‘ کوئی پرسش ‘ باز پُرس نہیں تو دوسری اور نچلی سطح پر کیسے ممکن ہے؟ حکمران معاشرے کے رول ماڈل ہوتے ہیں‘ انہی کے افعال و اعمال کا پرتو پوری قوم ہوتی ہے‘ ایماندار حکمرانوں کی موجودگی میںاندھیر نگری مچتی ہے نہ چوپٹ راج ہوتا ہے۔
چند روز قبل 2010ء سے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی اہلیہ کے لیے 2004ئماڈل کی استعمال شدہ نسان کار چودہ پندرہ سوپونڈ یعنی کل ملا کر کوئی اڑھائی لاکھ روپے میں خریدی مگر ایک غریب ملک پاکستان میں اس ماڈل کی کار وزیر اعظم ہائوس کا کوئی کلرک اور خانساماں بھی خریدنا پسند نہ کرے۔ صبح سے شام تک کروڑوں اربوں کے لین دین اور دنیا جہان کی مہنگی گاڑیوں‘ گھڑیوں‘ جیولری ‘ لباس اور موبائل فون کا نظارہ کرنے والا کلرک یا خانساں آخر سوچے بھی کیوں ؟جبکہ اسے صاحب کے ملاقاتیوں اور ضرورت مندوں سے مال بٹورنے کے مواقع بھی میسر ہوں۔ جس قیمت کی گاڑی ڈیوڈ کیمرون کی بیگم استعمال کرے گی اس مالیت کے تو ہمارے عوامی نمائندے موبائل فون اورجوتے استعمال کرنا بھی کسر شان سمجھتے ہیں۔ زرداری صاحب کے ایک مصاحب محفلوں میں فخریہ بتایا کرتے تھے کہ وہ تین لاکھ روپے مالیت کا جوتا پہنتے اور اس سے زیادہ مہنگے چشمے سے چمگادڑ نما آنکھوں کو چھپاتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے بعض جج‘ جرنیل‘ سفارت کار اور بیورو کریٹس جس طرح کی شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں وہ عمر بھر کی تنخواہ اورجائز مراعات میں ممکن ہی نہیں مگر ان سے کون پوچھنے والا ہے؟ نادرا کے چھوٹے بڑے اہلکار بھی اسی معاشرے کا حصہ اور اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ وہ بہتی گنگا سے اشنان کیوں نہ کریں۔ حادثات اگر رونما نہ ہوں تو پاکستان میں کسی خرابی کا پتا چلتا ہے نہ 
اسے دور کرنے کی نوبت آتی ہے۔ بلوچستان میں ایف سی کے سابق سربراہ کے صاحبزادے کی فراری گاڑی کا حادثہ ہوا تو کرپشن کی ایک بڑی واردات کا پتا چلا جس پر آرمی چیف نے سخت ایکشن لیا ۔امریکہ نے ملا اختر منصور پر حملہ کیاتو کروڑوں کی تعداد میں شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کی تصدیق کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ سب ٹھیک چل رہا تھا۔ شکریہ ہم کس کا ادا کریں‘ملّا اختر منصور ؟یا امریکہ کا؟آف شور کمپنیوں کا معاملہ پایہ تحقیق کو پہنچے تو شائد اس سے بڑا سکینڈل سامنے آئے مگر یہ قوم اس قدر خوش نصیب کہاں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں