مظلوم کون؟

رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ وادی کیلاش بمبوریت کی نو مسلم لڑکی رینا کے عدالتی اور عوامی بیان نے بڑے فساد کو ٹال دیا۔ دوچار روز ہلڑ بازی پھر بھی ہوئی‘ اور کیلاش قبیلے کو ستر فیصد مسلم آبادی سے لڑانے والوں نے اپنا لُچ تلا۔۔۔۔ بالآخر معاملہ مگر افہام و تفہیم سے حل کر لیا گیا۔ فسادی عناصر کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ 
غلام محمد کیلاش کی صاحبزادی رینا نے قبول اسلام کا اعلان کیا تو بعض عناصر نے اسے مسلمانوں کے دبائو اور پسند کی شادی کا شاخسانہ قرار دے کر معاملہ الجھانے کی کوشش کی۔ ایسے معاملات میں بعض این جی اوز کا کردار ہمیشہ پھپھے کُٹنی والا ہوتا ہے اور ہمارے سیاستدان و دانشور بھی الا ماشاء اللہ بیان بازی کے لیے تیار بلکہ بے قرار ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے رینا کے موقف کا انتظار کیے بغیر بیان داغ دیا کہ ''پیپلز پارٹی کیلاشی لڑکی کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ جس بھی مذہب کو اپنائے‘ ایمان اور مذہب ہر شخص کا ذاتی فعل ہے۔ ایمان اور مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین میں کوئی جبر نہیں‘ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کیا جائے‘‘۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق نو مسلم رینا نے چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''میں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے کیونکہ میں تعلیم یافتہ ہوں اور میں نے اسلامی کتب کا مطالعہ کیا ہے جن سے میں متاثر ہوئی اور اسلام قبول کر لیا‘‘۔ رینا نے اس بات کی تردید کی کہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے کوئی دبائو ڈالا گیا ہے۔ کیلاش خاندان اور مسلمانوں میں تصادم کی نوبت ان اطلاعات کے بعد آئی کہ ایک خاتون نے رینا کو دوبارہ کیلاشی مذہب اپنانے پر راضی کیا اور اپنے گھر میں رکھا جبکہ ایک سماجی کارکن لوکی رحمت نے بی بی سی کو بتایا کہ رینا غلطی سے اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئی ہے۔
چترال سے قریباً پینتیس کلومیٹر دور دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع وادی کیلاش اپنے قدرتی حسن اور باشندوں کے جمال کے علاوہ دو ہزار سال پرانی تہذیب و ثقافت‘ خصوصاً لباس کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔ کیلاش کا مطلب سیاہ کپڑے پہننے والا ہے‘ رنگ برنگے ڈیزائنوں پر مشتمل فراک زیب تن کرنے والی کیلاش خواتین کی وجہ سے علاقے کو کافر حسینائوں کا دیس کہا جاتا ہے۔ اس فراک کا خاص جزو موتی‘ سیپ اور کوڑیاں ہیں اور سر پر انہی سے مزین ٹوپیاں۔ مردوں کا لباس اب تو شلوار قمیض ہے مگر روایتی لباس فوجی طرز کا تھا اور سر پر اونی ٹوپی جس پر کسی پرندے کا پَر ضرور سجایا جاتا ہے۔ کیلاش قبائل نے دو ہزار سال تک اپنے لباس‘ عقائد اور طرز بود و باش کی حفاظت کی کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر انہوں نے لباس اور عقیدے میں کسی قسم کی تبدیلی کی تو دیوتا کا عذاب نازل ہوگا۔ 
کیلاش اور چترال پاکستان کے محفوظ اور پرامن علاقے تصور کئے جاتے ہیں، جہاں طالبان کی طرف سے مداخلت کو مقامی کیلاشی آبادی کے علاوہ مسلمانوں نے بھی کبھی پسند نہیں کیا اور حالیہ واقعات میں بھی بی بی سی سمیت غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے طالبان کو ملوث کرنے کی کوشش کی تو مقامی آبادی نے اس کو مسترد کیا۔ نو مسلم رینا کے چچازاد ولی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ مسلمان ہوئی ہے۔ کیلاش رہنمائوں قاضی شیر محمد اور بہرام شاہ نے بھی تصادم کی راہ ہموار کرنے والے عناصر کی مذمت کی اور کہا کہ کیلاش لڑکیوں کا اسلام قبول کرنا کوئی نیا واقعہ نہیں‘ ان کے خاندان کے درجنوں مرد و خواتین اسلام قبول کر چکے ہیں؛ تاہم آئندہ اسلام قبول کرنے کے خواہش مند عدالت میں پیش ہو کر تبدیلی مذہب کا اعلان کریں۔ پاکستان میں ہندو‘ مسیحی‘ کیلاش برادری کے افراد کے قبول اسلام کو کچھ عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے اور مذہبی عناصر کی کردار کشی کا موثر ہتھیار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ چند سال قبل ایک ہندو لڑکی کے قبول اسلام پر تو اتنا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ بھرچونڈی شریف (سندھ) سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی پیر عبدالحق میاں مٹھو کا جینا حرام ہو گیا اور بالآخر یہ اعلان کرنا پڑا کہ انہیں زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ پارٹی اور پارلیمنٹ چھوڑ کر ایک تحریک چلائیں گے کیونکہ انہوں نے کسی خواہش مند ہندو دوشیزہ کو کلمہ پڑھا کر کوئی جُرم نہیںکیا۔
پروپیگنڈے کا یہ طوفان ان عناصر نے اُٹھایا جو مذہب کی تبدیلی کے حق میں ہیں اور کوئی مسلمان اگر اس پر آمادہ ہو تو ہر ممکن ترغیبات سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور اسے فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں کسی مولوی یا مبلغ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ زبردستی کسی کو اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے اہل نجران سے معاہدہ طے کیا کہ ''اس معاہدہ کی رو سے ان کے گرجے گرائے جائیں گے نہ ان کے کسی پادری کو جلاوطن کیا جائے گا اور نہ ان کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض ہو گا‘‘۔ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کے حوالے سے آپؐ نے اس حد تک تاکید کی کہ ''خبردار! اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیّت پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی یا اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی‘ اس کی مرضی کے خلاف کوئی شے لی تو میں اس کی طرف سے روز قیامت جھگڑوں گا‘‘۔ لہٰذا کسی بھی غیر مسلم کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنا اسوۂ رسولﷺ ہے نہ اسلامی تعلیمات کے مطابق درست۔ مگر جو لوگ اپنی خوشی سے اسلام میں داخل ہونا چاہیں انہیں روکنا اور اسے مسلم اکثریت کی زبردستی قرار دینا روا نہیں۔ دنیا بھر میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بخوشی دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ‘ یورپ‘ سکینڈے نیویا اور افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے‘ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اعداد و شمار شائع ہو رہے ہیں۔
گزشتہ روز اٹلی کے ایک پارلیمنٹیرین فرانکو باربیٹوکی صاحبزادی مینولا فرانکو باربیٹونے اسلام قبول کیا اور اپنا نام عائشہ رکھ لیا۔ والد نے ایک اخباری انٹرویو میں تبدیلی مذہب کے فیصلے کو برا فیصلہ قرار نہیں دیا مگر اس بات پر پریشانی ظاہر کی کہ اُن کی بیٹی نے ایک ایسے مذہب کا انتخاب کیا جو بقول اس کے Too harsh, Too radical, Too rigid ہے۔ 
دنیا بھر کے کئی اداکار‘ سائنسدان‘ گلوکار‘ دانشور‘ صحافی اور سیاستدان دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور ان میں سے بعض نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں‘ تعلقات اور اثرورسوخ کی وجہ سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں دوسرے افراد کو اپنا ہم مذہب بنایا۔ محمد علی (کلے) ‘ یوسف اسلام‘ کرسٹائن بیکر اور کئی دیگر نمایاں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ممالک میں اسلام سے متاثر ہونے والے لوگ کسی دبائو کا شکار ہوئے نہ ترغیب کا‘ لیکن پاکستان میں اگر کوئی یہ ارادہ ظاہر کرے تو شور مچ جاتا ہے اور اچھے بھلے صحیح العقیدہ مسلمان بھی محض اپنی روشن خیالی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے احساس جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان دنوں مذہبی شعائر اور اسلامی عقائد کے خلاف سوچی سمجھی مہم چل رہی ہے۔ آئین کی دوسری ترمیم پر سوالات اٹھا کر ایک ایسی اقلیت کو مسلمان ثابت کرنے کی سعی ہو رہی ہے، جس نے خود اپنے آپ کو اُمت سے الگ کیا۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی الگ مذہبی شناخت پر اصرار کر کے گورداس پور اور فیروزپور کے دوسرے علاقے بھارت میں شامل کرنے کی راہ ہموار اور قائداعظمؒ کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے عمل کی تائید کی۔ اداکار حمزہ عباسی نے ایک ٹی وی پروگرام میں بے وقت کی راگنی چھیڑی اور مسلم اکثریت کے مذہبی جذبات مجروح کئے تو انہی عناصر نے ایک ایسی ناروا بحث کا آغاز کیا جو موجب فتنہ وفساد تھی مگر پیمرا نے بروقت نوٹس لے کر حالات کو بگڑنے سے بچا لیا۔ کیلاش خاتون کے قبول اسلام پر شور مچانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اپنے ہی ملک میں مسلم اکثریت کو بار بار کٹہرے میں کھڑا کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ریاست اور معاشرے کا فرض ہے‘ کسی بھی اقلیت کی حق تلفی کی اجازت ہمارا آئین دیتا ہے نہ مذہب اور نہ اجتماعی عقل و دانش تقاضا کرتی ہے۔ مگر کچھ حقوق اکثریت کے بھی ہیں۔ فتنہ گر کوئی مذہبی کارکن ہو یا سماجی کارکن قابل معافی نہیں‘ مستوجب سزا ہے۔ کیا پاکستان میں اسلام مظلوم رہے گا اور مسلمان اپنے دینی‘ مذہبی‘ سماجی‘ قانونی اور معاشی حقوق سے سدا محروم۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے اسلام کی یہ تجربہ گاہ اس لیے قائم کی؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں