بے عملی

پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیانات سے ان بغلول دانشوروں کے پروپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر تنہا رہ گیا ہے اور ہمارے پاس نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت کے سامنے سرنگوں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مرعوب ذہن اور خوفزدہ دماغ ایسے ہی سوچتے ہیں۔ یہ ان کا پراناوتیرہ ہے۔
سرتاج عزیز کے بقول امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام پر قدغن لگانے کی کوشش کی مگر ہم نے ٹھوس موقف اپناتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ یہ قومی سلامتی اور تحفظ کا معاملہ ہے، کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا جبکہ سشما سوراج نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لیے چینی حمایت نہ ملنے پر پینترا بدلا اور کہا کہ بھارت پاکستان کی این ایس جی میں شمولیت کا مخالف نہیں ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی بھرپور حمایت اور سرتوڑ کوششوں کے باوجود این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کا بظاہر کوئی امکان نہیںاور چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے بیان بھی جاری کیا ہے۔ پاکستان سے مساوی سلوک اور چینی حمایت کے بغیر بھارت کی سپلائرز گروپ میں شمولیت پنجابی محاورے کے مطابق ''اوہ دن ڈبا، جدوں گھوڑی چڑھیا کُباّ ‘‘یا ''میں نہ مناّں، گھوڑی چڑھے انہاں‘‘۔ قدرت ہمیشہ کی طرح پاکستان پر مہربان ہے‘ دوست بدستور شانہ بشانہ اور حالات بدترین مشکلات کے باوجود سازگار ۔اگر ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہرومنزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم ‘شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو‘ دنیا بھی نہیں دیتے ہیں
سی پیک کی صورت میں کیا ایک نئی دنیا کا دروازہ نہیں کھلا؟۔ سوویت یونین گوادر تک پہنچنے کی آرزو میں شکست و ریخت کا شکار ہوا اور امریکہ چین کی گوادر تک رسائی کو روکنے کے لیے باولا ہو رہا ہے۔ جانتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی سے چین کے محاصرے کا خواب بکھر جائیگا اور پاکستان کو کمزور و غیر مستحکم کرنے کی سازشیں دم توڑ دیں گی۔ لہٰذا ہرچہ باداباد یہ منصوبہ ناکام بنایا جائے۔ مگر اپنی تمام تر اندرونی کمزوریوں اور سیاسی و معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان پرعزم ہے اور چین قدم قدم پر ساتھ دینے کے لیے تیار۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں اور نیوکلیئر سپلائر زگروپ میں شمولیت کے حوالے سے چین نے جو بے لاگ، دلیرانہ اور دوٹوک موقف اختیار کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اکیلا نہیں اور اس کے خلاف سازشوں کا ہمارے دوستوں ، بہی خواہوں اور حلیفوں کو علم ہے۔ کیا سعودی عرب، ترکی ‘چین سے پیچھے رہیں گے؟ کیا سفارتی طور پر تنہا ملک اپنے ایٹمی پروگرام پر اس قدر ٹھوس اور جرأت مندانہ مئوقف اختیار کرسکتا ہے کہ امریکہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف معاندانہ سفارتی مہم چلانے والا بھارت مہربان ہوگیا۔ سشماسوراج کی زبان بے سبب شیریں ہوگئی اور وہ دن دور نہیں جب اشرف غنی بھی ایک بار پھر پاک افغان بھائی بھائی بولنے لگیں گے۔ ابھی صرف طورخم بارڈر پر اس کو سخت جواب ملا ہے، جب پرامن افغانستان کا راگ الاپنے والوں کو تیس لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کے سیاسی، معاشی‘ سماجی اور اقتصادی نتائج وعواقب کا علم و احساس ہوا تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور پاکستان سے بہتر بلکہ برادرانہ تعلقات میں عافیت نظر آئے گی بس ذرا ہماری حکمران اشرافیہ حوصلہ رکھے‘ اپنے پورے قد سے کھڑا ہونے کا عزم کرے اور لغزش پا‘پر قابو پائے۔
ہمارا اصل مسئلہ داخلی انتشار، بے عملی اور بے سمتی ہے۔ شکیل بدایونی نے غالباً پاکستانی قوم کی ترجمانی کی تھی ؎
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ ‘پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے ‘یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
داخلی محاذ پر بے عملی سی بے عملی ہے ایک دن میں آسانی سے ہونے والا کام برسوں میں نہیں ہو پاتا اور اپنی نااہلی و بے عملی کا الزام حکمران اشرافیہ کبھی سیاسی مخالفین پر دھرتی ہے اور کبھی غیر مرئی قوتوں پر۔ اپنے گریباں میں نہیں جھانکتی ۔ اصلاح احوال کی خواہش بھی نہیں۔ مثالیں بے شمار ہیں جس سے ہمارے موجودہ بے عمل، بے ثمر اور بے فیض سیاسی و حکومتی نظام کی ناکامی اور حکمرانوں کی بدنیتی و بے اعتنائی کا اندازہ ہوتا ہے مگر ایک دو سے ہی بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
اڑھائی ماہ قبل پاناما پیپرز کے ذریعے حکمران خاندان کی بیرون ملک آف شور کمپنیاں منظرعام پر آئیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے پاکستان کے خلاف کیا کیا حاشیہ آرائی نہ کی ۔سب کے علم میں ہے، وزیراعظم نے دوبار قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائیں گے مگر اڑھائی ماہ گزر گئے، اپوزیشن پر الزام تراشی، اپنی پاکدامنی کے دعوئوں اور اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دے کر اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانی کے پروپیگنڈے کے سوا کوئی مثبت قدم اٹھایا گیا؟ عدالتی اطمینان کے مطابق ٹی او آرز کیوں نہیں بن پائے؟ کوئی سربستہ راز نہیں۔ رکاوٹ کس نے ڈالی اور بہانہ سازی کو کس نے شعارکیا، بچہ بچہ جانتا ہے۔ اگر خدانخواستہ اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر نکال لائے۔ ملکی حالات 1977ء کی طرح خراب ہو جائیں اور جمہوریت پٹڑی سے اترنے لگے تو ذمہ دار کون ہوگا؟
دو برس قبل جب عمران خان نے دھرنا دیا تو میاں نواز شریف کو یاد آیا کہ انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مقصد عمران خان کی احتجاجی تحریک کو ضعف پہنچانا اور اپنی جمہوریت پسندی و نیک نیتی کا نقش جمانا تھا۔ دو سال گزر چکے آج تک کسی کو معلوم نہیںکہ کمیٹی نے کون سا تیر مارا اور کون سی انتخابی اصلاحات تجویز کیں۔ تارکین وطن کے ووٹوں اور عام انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے کرانے کے علاوہ الیکشن کمیشن کے غیر جانبدارانہ و آزادنہ کردار کے حوالے سے بھی کچھ نہیںہوا اور انتخابی دھاندلی کے بارے میں قائم کیے گئے جوڈیشل کمشن نے جو سفارشات کی تھیں ان پر عملدرآمد کی نوبت بھی نہیں آئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات بھی شائد شفاف اور دھاندلی کے الزام سے پاک نہ ہوسکیں۔ یہ سست روی ہے، موجودہ دھاندلی زدہ نظام کو برقرار رکھنے کی ضد یا خرابیاں دور کرنے کے خواہش مند عناصر کو چڑانے کی روش، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹائون میں چودہ جیتے جاگتے انسان جن میں دوخواتین بھی شامل تھیں آناً فاناً موت کے منہ میں چلے گئے۔ کسی ٹارگٹ کلر‘ ڈاکو اور نسلی، لسانی و مذہبی دہشت گرد، غیر ملکی ایجنٹ کے ہاتھوں نہیں‘ پولیس کی گولیوں سے یہ شریف اور دین دار لوگ رزق خاک ہوئے مگر آج تک ان کے قاتل گرفتار ہوئے نہ ان پر مقدمہ چلا اور نہ قتل کی اس سازش میں شریک کرداروں کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوا، حالانکہ ان مظلوم مقتولوں کی مدعی ایک ایسی جماعت ہے جس کی سٹریٹ پاور مسلم اور جس کے سربراہ تیسری بار دھرنا دیکر اپنی احتجاجی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں اگر اس ملک میں ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی شعلہ بیانی، قابل رشک احتجاجی صلاحیت اور عوامی ہمدردی کے باوجود چودہ بے گناہ خاندانوں کو انصاف نہیں دلا سکتے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مداخلت کے خواستگار ہیں تو کسی مالو مُصّلی کی کیا مجال کہ چھوٹی بڑی عدالت اور سرکاری ادارے سے یہ امید وابستہ کرسکے۔ حد تو یہ ہے کہ کسانوں کے جائز مسائل حل کرانے کے لیے حکمران جماعت کے چھیاسی ارکان نے ایکا کررکھا ہے مگر دالیں نہ ملنے پر عوام کو چکن کھانے کا مشورہ دینے والے وزیرخزانہ اسحاق ڈار ان میں سے کسی کی سیدھے منہ بات سننے کے روادار نہیں اور یہ عوامی نمائندے بھی اتنے بااصول اور باہمت ہیں کہ خواہ کچھ ہوجائے کوئی عوامی مسئلہ حل ہو نہ ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے ‘اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں، اسحاق ڈار سے جھاڑ کھانے والے اراکین اسمبلی سے پوچھا گیا کہ آپ بجٹ کی منظوری میں حصہ لیں گے؟ جواب ملا بالکل۔ اس جواب کے بعد بھلا کسی وزیر کو ان کی بات تحمل سے سننے اور عزت افزائی کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ بے عملی اور تکبر و ہٹ دھرمی نادانستہ ہے یادانستہ نالائقی ہے یا افتادطبع بہرحال حالات کو بگاڑ رہی ہے۔
امریکی مخالفت اور بھارتی پروپیگنڈے کے باوجود خارجہ پالیسی میں پاکستان تنہا ہے نہ بے وقعت، امکانات کا ایک جہاں آباد ہے۔ مگر داخلی انتشار، معاشی کمزوریاں اور بدانتظامی و بے عملی؟ مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے۔
ہم خدا کے چہیتے نہیں کہ قدرت ہم پر ہمیشہ مہربان رہے۔ سو اپنے اعمال و افعال پر نظرثانی لازم ؎
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں