دلیر لیڈر‘ فاتح عوام

نماز جمعہ کے بعد جیم خانہ کلب میں مجیب الرحمن شامی صاحب کے دستر خوان پر میں‘ برادرم حفیظ اللہ نیازی اور وحید چوہدری صاحب‘ مسعود کرمز سے مذاق کر رہے تھے کہ صدر طیب اردوان نے امام فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کا ناطقہ بند کر دیا ہے‘آپ کا کیا بنے گا؟ رمضان المبارک میں رومی فورم کے دفتر میں افطاری کے دوران مسعود کرمز نے نماز مغرب کی امامت کی تھی ۔
بے ریش و برودت مسعود کرمز کی خوبصورت قرأت سے سب لطف اندوز ہوئے۔ شامی صاحب نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں، اگر خدانخواستہ مسعود کا ترکی واپس جانا ممکن نہ رہا تو ہم اس کی اقتداء میں نماز پڑھا کریں گے۔ کسی کو ہرگز اندازہ نہیں تھا رات گئے ترکی میں فوجی بغاوت کا علم بلند ہو گا اور طیب اردوان اس کا براہ راست ذمہ دار امام فتح اللہ گولن کو قرار دیں گے۔ 
طیب اردوان نے استنبول کے میئر کے طور پر عوامی خدمت کی تاریخ رقم کی تو ملک بھر کے عوام نے ان خدمات اور اے کے پارٹی کی کارگزاری کے اعتراف کے طور پر فتح اللہ گولن کی فکر سے متاثر اس نوجوان کو ملک کا اقتدار سونپ دیا۔ مذہب سے الرجک اور اتاترک کے مذہب بیزار سیکولرازم کی دلدادہ فوج نے ابتدا میں طیب اردوان سے بھی وہی سلوک کرنے کی کوشش کی جو وہ ماضی میں عدنان مندریس اور نجم الدین اربکان سے کر چکی تھی۔ اول الذکر کو اسلام سے وابستگی کی سزا پھانسی اور موخرالذکر کو اقتدار اور سیاست سے تاحیات بے دخلی کی صورت میں ملی ۔ فوجی سربراہوں نے خاتون اوّل کو محض اس بنا پر سرکاری محفلوں میں بٹھانے اور تکریم دینے سے انکار کیا کہ وہ سکارف پہنتی ہیں جبکہ مساجد کو عوام کے لیے کھولنے کے حکومتی احکامات کی مخالفت کی۔ تاہم نجم الدین اربکان کے برعکس طیب اردوان فوج اور سیکولرازم کے علمبرداروں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوئے۔
طیب اردوان نے فوج سے محاذ آرائی یا آئین کی سیکولر شقوں کو چھیڑنے کے بجائے معیشت کی بحالی اور عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دی۔ فوجی حکمرانی کے ادوار میں صحیح معنوں میں ترکی اقتصادی اور معاشی طور پر یورپ کا مرد بیمار بنا‘ حالت یہ ہو گئی کہ ستّر کے عشرے میں حکومت کے لیے تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام سنبھالنا اور تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرنا ممکن نہ رہا جس کا فائدہ سکول‘ ٹیوشن سنٹر اور اکیڈیمیز قائم کر کے ترک بچوں کو تعلیم اور مذہبی شعور فراہم کرنے والے امام فتح اللہ گولن نے اٹھایا اور اپنے آمریت مخالف خیالات کی بنا پر حکومت کے سزا یافتہ اس شخص کو سکول قائم کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ اسی سکول سسٹم اور گولن کی فکری رہنمائی نے وہ نسل تیار کی جو اس وقت سیاست‘ عدلیہ‘ فوج اور سماجی شعبے میں پیش پیش ہے۔ 2002ء میں طیب اردوان نے اقتدار سنبھالا تو ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پندرہ لاکھ لیرا ملتا تھا۔ ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ عوامی واش روم میں رفع حاجت کے لیے بھی ایک لاکھ لیرا درکار تھا۔ طیب اردوان کی معاشی اصلاحات‘ ترقی پسندانہ پالیسیوں اور کرپشن کے خاتمے کی مہم کے نتیجے میں 2012ء میں اٹھارہ ہزار لیرا ایک ڈالر کے برابر تھا جو اب تیس ہزار لیرا کے برابر ہے۔ عملاً ڈالر بمقابلہ لیرا ایک اور تین کا تناسب ہے کیونکہ ترک قانون کے مطابق صفر یں غائب کر دی گئی ہیں۔
دوسری بار منتخب ہونے کے بعد اردوان نے فوج پر سول بالادستی کے لیے متعدد اقدامات کئے۔ تعلیمی اصلاحات کے ذریعے نجی سکولوں اور اکیڈیمیز کو محدود کرنے کی کوشش میں طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں کے فتح اللہ گولن اور ان کے پیروکاروں سے اختلافات پیدا ہوئے جس کا نکتہ عروج فریڈم فلوٹیلا کی روانگی اور اسرائیل سے تنازع تھا۔ بین المذاہب یکجہتی کے علمبردار پنسلوانیا میں مقیم امام فتح اللہ گولن کی رائے تھی کہ اردوان کو مذہبی بنیادوں پر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کا حق نہیں جبکہ اردوان اور ان کے ساتھیوں کا یہ موقف رہا ہے کہ عدلیہ‘ فوج اور محکمہ تعلیم میں گولن کے پیروکار حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور امریکہ و یورپ ایک مذہبی رہنما کی سماجی تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یورپی یونین اب تک ترکی کو قبول نہیں کر سکا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادی مسلسل اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
اردوان نے غزہ میں محصور فلسطینیوں کے علاوہ مصر میں مرسی حکومت کی حمایت کی‘ برما میں روہنگیا مسلمانوں‘ کشمیر میں حریت پسندوں اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے وفاداروں کے حق میں آواز اٹھائی۔ امریکہ و یورپ کو جمہوریت‘ انسانی حقوق اور دہشت گردی کے حوالے سے دوہرا معیار اپنانے پر ہدف تنقید بنایا اور شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت پر روس سے بھی لڑائی مول لی‘ حتیٰ کہ ایک روسی طیارہ مار گرایا۔ 2014ء میں اردوان کے خلاف اپوزیشن‘ امریکہ اور یورپ کی پروردہ سول سوسائٹی اور مخصوص ذہن کے میڈیا نے اردوان کے خلاف مورچہ لگایا۔ کرپشن کے الزامات عائد کئے اور یہ پروپیگنڈہ ہوا کہ محمد مرسی کی طرح اردوان بھی عوامی حمایت کھو چکے ہیں مگر یکے بعد دیگرے دو پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن کو شکست فاش دے کر اردوان نے اپنی عوامی مقبولیت ثابت کی؛ تاہم ان پے در پے کامیابیوں نے اردوان کے ذہن میں ناقابل تسخیر اور ترکی کے لیے ناگزیر لیڈر ہونے کا خبط پیدا کیا اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو ریاست کا مخالف سمجھنے کی غلطی کرنے لگے۔ خدمت تحریک کے سکولوں‘ اخباروں اور ٹی وی چینلز پر سرکاری قبضے اور عدلیہ و بیورو کریسی سے گولن کے عقیدت مندوں کی چھانٹی نے فوج میں ایک ٹولے کو یہ حوصلہ بخشا کہ وہ بغاوت کے بارے میں سوچ سکے۔ اپنے خلاف بغاوت کو روس کے بورس یلسن کے انداز میں عوامی طاقت سے کچل کر اردوان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک عوامی ناپسندیدگی کا شکار نہیں ہوئے۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ترکی کو پنسلوانیا سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا جہاں فتح اللہ گولن کو بغاوت کا سرغنہ ثابت کرنے کی کوشش کی‘ وہاں ان کا اشارہ غالباً امریکی سی آئی اے کی طرف بھی تھا جو مقبول رہنمائوں کا تختہ الٹنے اور فوج کے ذریعے امریکی مفادات کی تکمیل کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ 
روس سے جہاز کی تباہی پر معافی مانگ کر‘ اسرائیل سے تعلقات بحال کر کے طیب اردوان نے اپنے طور پر دشمنوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی مگر یہ بات شاید امریکہ کو پسند نہیں آئی۔ بغاوت کے آغاز میں امریکہ کا طرز عمل محتاط اور عملاً باغیوں کے حق میں تھا۔ جان کیری نے جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرنے کے بجائے امن برقرار رکھنے پر زور دیا اور ہرگز یہ تاثر نہیں دیا کہ امریکہ فوجی شب خون کا مخالف اور جمہوریت برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے۔ یہ اُن لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ فوجی حکمرانی کا دور لد چکا اور عالمی برادری کسی فوجی بغاوت کی حمایت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس بغاوت میں اردوان کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اندرون ملک سیاسی مخالفین‘ میڈیا اور خدمت تحریک سے مفاہمت کی راہ تلاش کریں اور مخالفین کو اس قدر دیوار سے نہ لگائیں کہ کوئی تیسری قوت اس کا فائدہ اٹھا سکے۔ ترکی میں عوام کی کامیابی پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی خوشی دیدنی ہے مگر ان کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ اگر اردوان جیسے مقبول سیاستدان کو آمرانہ رجحانات‘ کرپشن کے الزامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو تیسری دنیا اور عالم اسلام کے وہ لیڈر کس باغ کی مولی ہیں جن کا کل اثاثہ بلند بانگ دعوے ‘ بے مغز بیانات اور بیرون ملک جائیدادیں‘ اکائونٹس ہیں جبکہ ان کا دامن تار تار اور چہرہ داغ دار ہے۔
بغاوت کی ناکامی میں عوام کے عزم و حوصلے کے علاوہ اردوان کی جرأت مندی کا دخل ہے جس نے بدترین حالات میں چھٹیاں منسوخ کر کے استنبول آنے کا فیصلہ کیا اور باغیوں کی فضا میں پروا کی نہ ائرپورٹ اور نہ شہر میں۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے اپنے محافظوں میں کوئی باغی ہو سکتا ہے اور ایئرپورٹ پر استقبال کرنے والوں میں بھی۔ جو بے عمل سیاستدان سازشی کہانی سے گھبرا کر دارالحکومت چھوڑ کر اپنی اندرون و بیرون ملک پناہ گاہوں کا رُخ کرتے ہیں اُن کے لیے کبھی عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں نہ ٹینکوں کے آگے لیٹتے‘ اور نہ گولیاں سینے پر کھا کر جمہوریت کا دفاع کرتے ہیں۔ بہادر‘ ایثار پیشہ‘ باصلاحیت اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار لیڈر ہی عوام کو سڑکوں پر نکلنے اور باغیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیں تو کوئی لبیک کہتا ہے۔ بے ثمر‘ بے فیض جمہوریت کی رخصتی پر لوگ صرف مٹھائیاں ہی تقسیم کر سکتے ہیں اور وہ کرتے ہیں۔ یہی ترکی اور پاکستان‘ ہماری سیاسی قیادت اور اردوان میں فرق ہے۔ مسعود کرمز کو مگر فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں