بچگانہ ضد

حیراں ہوں‘ دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ نوّے سالہ بزرگ حکمران کا طویل تجربہ اور بچوں جیسی ضد ۔مگر قصور اکیلے عمر رسیدہ قائم علی شاہ کا نہیں۔ باقی سیاستدانوں اور منتخب حکمرانوں کا بھی یہی طرز عمل ہے۔ غیر سنجیدہ‘ مفاد پرستانہ اور بچگانہ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام نے پچاس جانوں کی قربانی دے کر حق خود ارادیت اور الحاق پاکستان کی تحریک میں جان ڈال دی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جو جارحانہ سفارتی مہم شروع کر رکھی تھی اس کا ڈنک نکال دیا اور بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے مگر صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان تیار ہی نہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اندرونی مسائل میں الجھ کر قوت فیصلہ اور قوت عمل سے محروم ہے ورنہ وفاقی کابینہ کی طرف سے دنیا بھر میں یوم سیاہ منانے کے اعلان کے بعد بے عملی کا یہ عالم نہ ہوتا جو20جولائی کو نظر آیا۔
لاہور ہمیشہ سیاسی تحریکوں میں پیش پیش اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے پرجوش رہا۔یہ میاں نواز شریف کا حلقہ انتخاب اور کشمیریوں کا گڑھ ہے۔ قومی اسمبلی کے پانچ ارکان کشمیری نژاد ہیںمگر یوم سیاہ کے روز شہر کھلا تھا۔ اہم سرکاری عمارتوں پر سیاہ پرچم لہرائے نہ مسلم لیگ نے کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے کوئی بڑی تقریب منعقد کی۔ اپوزیشن جماعتوںنے بھی میڈیامیں بیانات کو کافی سمجھا۔ صرف جماعت اسلامی نے ایک کل جماعتی آزادی کشمیر کانفرنس کا اہتمام کیا جس پر میاں مقصود احمد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وزیر اعظم نے بھی ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا عندیا دیا مگر پھر ارادہ بدل دیا۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب کی علالت حکمران جماعت اور اس کے تمام وزیروں‘ مشیروں‘ ارکان اسمبلی کی کارگزاری‘ جوش و جذبے اور مسئلہ کشمیر سے وابستگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ورنہ پاکستانی سیاستدان ایسے کبھی نہ تھے..... بے خبر‘ بے حس اور لاپروا۔
1974ء میں شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے مابین معاہدہ ہوا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کی مقبوضہ کی بجائے طفیلی ریاست کا درجہ دے کر صدر ریاست کو گورنر اور وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت ملی تو پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ملک بھر میں یوم سیاہ کا اعلان کیا تاکہ اس غیر آئینی‘ غیر قانونی‘ غیر اخلاقی معاہدے کے بارے میںکشمیری اور پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات کا عالمی برادری کو علم ہو۔ صرف پاکستان اور آزاد کشمیر ہی میں نہیں پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بازار بند‘ سڑکیں ویران اور سرکاری دفاتر سنسان نظر آئے۔ جگہ جگہ سیاہ پرچموں کی بہار تھی۔ پوری دنیا کو پتا چلا کہ کشمیری اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے اور دماغ ایک طرح سوچتے ہیں۔ ان دنو ں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے‘ لوگ گھروں میں بھوک پیاس اور امراض کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ سڑکوں اور گلیوں میں فوجی اور نیم فوجی دستے نظر آتے ہیں یا احتجاجی مظاہرین۔ اخبارات کی بندش سے عوام کو تازہ ترین صورت حال کا علم نہیں ہو پا رہا اور گرفتار کشمیری قائدین پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ مگر ہماری کشمیریوں اورمسئلہ کشمیر کے ساتھ دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ یوم سیاہ کا اعلان بھی کیا تو اسے بھر پور عوامی جذبے سے منا نہیں پائے۔ حافظ سعید اور سراج الحق جوش و جذبے کا مظاہرہ کریں تو ہمارے حکمرانوں اور ان کے ترقی پسند ساتھیوں کو گراں گزرتا ہے مگر یہی دو بروئے کار آئے۔ بھٹو کے جانشینوں کے علاوہ عمران خان اور تحریک انصاف نے اس معاملے میں حکمرانوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ کہیں سرگرمی نہیں دکھائی۔
نظریاتی‘ انتظامی اور سفارتی معاملات میں ہمارے حکمرانوں کی دلچسپی بس اتنی ہے جتنی مسئلہ کشمیر میں۔ سارا بوجھ جی ایچ کیو پر ہے یا اس کے رینجرز و آئی ایس آئی جیسے اداروں پر۔ آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں سے سول حکومتوں کو ریلیف ملا۔ اقتصادی و معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔ عام آدمی کو تحفظ کا احساس اور بے یقینی و مایوسی کا خاتمہ ہوا مگر اس مہلت سے کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پولیس‘ انتظامیہ اور دیگر سول اداروں کی کار گزاری بہتر بنانے اور فوج و رینجرز کی بیرکوں میں واپسی پر سارے معاملات سنبھالنے کی تربیت دینے کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ جب فوج سوات‘ فاٹا اور دیگر علاقوں سے نکل گئی۔ رینجرز نے سندھ حکومت کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر فرائض کی انجام دہی سے معذرت کر لی‘ ایف سی نے بلوچستان کو سول حکومت اور اداروں کے حوالے کرنے پر زور دیا تو یہاں بسنے والے شہریوں کا کیا ہو گا۔ سوات آپریشن کو چھ سال گزر چکے مگر وہاں صورتحال اب تک معمول پر نہیں آئی۔ شمالی وزیرستان اور کراچی میں تو صورتحال اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ اس کارگزاری کے ساتھ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ شوق بھی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے اسٹیبلشمنٹ بلکہ زیادہ درست معنوں میں فوج اوررینجرز سے آنکھ مچولی کا کھیل جاری رکھیں۔ کھیلنا خود نہیں آتا مگر ''روندی‘‘ بچوں کی طرح ہر وقت کوئی نہ کوئی سازشی کہانی گشت کرتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں روزانہ کوئی نہ کوئی نیا بحران جنم لیتا ہے‘ خود ساختہ و پرداختہ۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے درمیان اعتماد کا بحران کس نے پیدا کیا اور افواہیں کس نے پھیلائیں؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
نیشنل ایکشن پلان سے پہلے تحفظ پاکستان آرڈی ننس منظور ہوا۔ رینجرز بیس سال سے کراچی میں موجود ہیں اور پہلی بارپیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے طلب کیا تھا۔2013ء میں رینجرز کو مزید اختیارات کے ساتھ کراچی آپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ جونہی رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ ڈالا صوبائی حکومت کے تیور بدل گئے۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنمائوں کی گرفتاری سے عوام کو پیغام ملا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کوئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا نہیں‘ مگر سید قائم علی شاہ ڈی جی رینجرز سے وعدہ کرنے کے باوجودآصف علی زرداری کے حکم پر مدت قیام میں توسیع کی سمری پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں اور رینجرز سے یہ ضمانت مانگ رہے ہیں کہ وہ اندرون سندھ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ گویاکراچی سے فرار ہونے والے ٹارگٹ کلرز‘اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کو اندرون سندھ سے پکڑنا رینجرز کے اختیار میں نہیں اور وہ سندھ پولیس کی محتاج ہے‘ جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ صرف نااہل ہی نہیں مجرموں کی سرپرست بھی ہے‘ صرف سرپرست کیا شریک جرم بھی۔ آرٹیکل 147اے کے تحت وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ رینجرز کے اختیارات میں از خود توسیع کر دے مگر میاں نواز شریف کی حکومت پیپلز پارٹی سے بگاڑنا چاہتی ہے نہ ایم کیو ایم کو اس قدر ناراض کرنے کے موڈ میں ہے کہ وہ حقیقی اپوزیشن کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائے ۔طرفہ تماشہ یہ کہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی دو عملی پر بات کرنے والاجمہوریت کا دشمن اور غیر جمہوری قوتوں کا گماشتہ قرار پاتا ہے مگر کیا اس بچگانہ انداز میں نیو کلیر ریاست چل سکتی ہے اور عوام زیادہ دیر تک ان روٹھے بچوں کو منانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
ترکی میں بغاوت کی ناکامی پر اردوان سے زیادہ ہماری حکمران اشرافیہ خوش ہے اور وہ سمجھنے لگی ہے کہ اب سکیورٹی اداروں کو لگام ڈالنے اور انہیں میدان جنگ میں تماشہ بنانے کا وقت آگیا ہے مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اردوان نے بدترین دہشت گردی کے باوجود استنبول ‘ ازمیر اور انقرہ کو فوج کے حوالے کیا نہ اپنی حفاظت کے لیے وہ رینجرز اور فوجی دستوں کا محتاج ہے۔ ترک فوج کی طرح پولیس بھی فرض شناس‘ اعلیٰ تربیت یافتہ ‘منظم اور پرعزم ہے اور اس قدر چاک و چوبند کہ اس نے ایک فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا جبکہ یہاں پولیس ناکے پر کسی دہشت گرد کی گاڑی روکنے سے بھی گھبراتی ہے کہ کل کلاں کو یہ کسی حکمران پارٹی کا چہیتا یا کسی منتخب عوامی نمائندے کا رشتہ دار نکل آیاتو میری ملازمت کا کیا بنے گا؟ رینجرز کو لاڑکانہ میں وزیر داخلہ کے کارکنوں اور پولیس کے ہاتھوں جو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ کل کی بات ہے اور اسی بنا پر وزیر اعلیٰ اختیارات محدود کرنے کے درپے ہیں۔ آئین اور قانون اجازت دے تو دو چار روز کے لیے رینجرز اپنی بیرکوں میں واپس چلی ہی جائے تاکہ سندھ حکومت اپنی چہیتی پولیس کے ذریعے شہر کراچی کو کنٹرول کر سکے۔ میرا نہیں خیال کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر سیاسی و سرکاری عہدیدار رینجرز کے بغیر گھروں سے باہر نکلنا پسند کریں گے۔ جان سب کو پیاری ہے۔ حکمرانوں کو سب سے زیادہ مگر بچگانہ ضد کا کیا علاج؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں