یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین

یہ باسی کڑھی میں اُبال ہے یا عمران خان‘ بلاول بھٹو اور ڈاکٹر طاہرالقادری واقعی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے میں سنجیدہ ہیں؟ ایک ہی روز تین حکومت مخالف جماعتوں کی طرف سے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش ہے یا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سوچا سمجھا منصوبہ؟
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
سیماب صفت ڈاکٹر طاہرالقادری کے پائوں میں کینیڈین شہریت کی زنجیر اور مزاج میں تلّون کا غلبہ نہ ہو تو حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا مقدمہ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ عمران خان نے پہلے دھاندلی کو ایشو بنایا اور دھاندلی سے متاثرہ دیگر جماعتوں کے علاوہ اپنے قریبی ساتھیوں کو دل و جان سے دھرنے پر آمادہ نہ کر سکے‘ رہی سہی کسر مخدوم جاوید ہاشمی نے پوری کر دی۔ اب پاناما پیپرز پر انہوں نے تلافی مافات کی کوشش کی مگر موجودہ گلے سڑے سیاسی‘ سماجی‘ قانونی‘ معاشی اور انتخابی ڈھانچے کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کی حامی پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں نے ٹی او آرز کی تیاری کے نام پر حکومت کا کھیل کھیلا اور تحریک انصاف کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر وہاں پہنچا دیا جہاں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کی خواہش تھی۔ میاں نواز شریف تاخیری حربوں سے مہلت حاصل کرنے اور سلگتے مسائل پر اس مہلت کا پانی ڈالنے کے ہُنر میں طاق ہیں۔ اس بار بھی کوشش ان کی یہی ہے اور بڑی حد تک اس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں‘ مگر پاناما سکینڈل قومی منظر سے اوجھل نہیں ہوا؛ تاہم عمران خان کی آزمائش بڑھ گئی ہے۔ عمران خان پیپلز پارٹی کو کرپشن اور پاناما سکینڈل کے خلاف احتجاجی تحریک پر تو آمادہ نہ کر سکے‘ مگر پیپلز پارٹی نے اس کا سفر مزید طویل اور کٹھن کر دیا ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
پیپلز پارٹی نے ستمبر میں سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کیا ہے۔ گویا خواہش یہ ہے کہ اگست میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک مل کر ماحول گرم کریں‘ عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج پر اکسائیں اور جب لوہا گرم ہو تو آخری چوٹ پیپلز پارٹی کے جیالے لگائیں۔ اس دوران نواز حکومت سے جس قدر ممکن ہو مراعات حاصل کی جائیں۔ سندھ میں رینجرز اور نیب کی کارروائیوں کو کند کرنا اور میاں نواز شریف کو درپیش مشکلات سے فائدہ اٹھانا پیپلز پارٹی کی ایسی حکمت عملی ہے جو اب تک کامیاب رہی۔ کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کے لیے پیپلز پارٹی ذہنی طور پر تیار ہے نہ عوام اس کی بات سنجیدگی سے سننے کے روادار... بلاول بھٹو جب نواز شریف کی کرپشن کی بات کرتے اور آف شور کمپنیوں کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو لوگ مُنہ میں انگلیاں داب لیتے ہیں۔ انہیں والدہ محترمہ کی آف شور کمپنیاں اور والد بزرگوار کے سوئس اکائونٹس اور کوٹیکنا کیس یاد آجاتے ہیں‘ چھاج تو بولے سو بولے‘ چھلنی کیوں بولے جس میں سو چھید...
ڈاکٹر طاہرالقادری 2014ء میں دھرنا ختم کرنے کے فوری بعد عازم کینیڈا نہ ہوتے تو سانحہ ماڈل ٹائون حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے ترپ کا پتہ تھا مگر ان کی تلون مزاجی نے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کی‘ حکومت سے درپردہ مفاہمت کا پروپیگنڈا ہوا‘ اور مخالفین نے شیخ الاسلام کی غیر حاضری کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ورنہ عدالتی حکم پر ایف آئی آر کا اندراج‘ جسٹس باقر نجفی رپورٹ اور مقتولین کے ورثا کی طرف سے کروڑوں روپے معاوضے کی پیشکش ٹھکرا کر استقامت کا مظاہرہ ایسی ٹھوس وجوہ ہیں جو عوامی تحریک کو عوام سے رجوع اور احتجاجی تحریک منظم کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ ان دنوں سانحہ ماڈل ٹائون کی منصفانہ تحقیقات اور پاناما سکینڈل کی شفاف تفتیش کے لیے احتجاجی تحریک کے لیے فضا سازگار ہے یا نہیں؟ یہ توجہ طلب معاملہ ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت انکوائری ایکٹ 1956ء میں یکطرفہ ترامیم کے بعد پاناما سکینڈل کی تحقیقات کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اگر حکومت کے ایوانوں میں یہ سوچ موجود ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاناما سکینڈل ابھی زندہ ہے اور حکومت دبائو کا شکار۔ وہ اس دبائو سے نکلنے کے لیے قرضہ معاف کرانے والوں کو احتساب کے دائرے میں لانا چاہتی ہے جن کا تعلق تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں سے ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون شریف برادران کے گلے کا طوق ہے کیونکہ نجفی کمشن رپورٹ کو چھپا کر حکومت نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور عبدالرزاق چیمہ کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی مذاق تھی جسے مقتولین کے حقیقی وارثوں نے قبول کیا نہ عوام نے لائق اعتنا سمجھا۔ چودہ مقتولوں کو جے آئی ٹی کی مٹی ڈال کر دفن نہیں کیا جا سکتا ع
سودا کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے بلائے گئے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت 25 چھوٹی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی شرکت اور آٹھ نکاتی اعلامیہ پر اتفاق رائے کا مطلب ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک اگر کسی غیر آئینی‘ غیرجمہوری اور غیر قانونی اقدام کا سبب نہ بنے تو چل سکتی ہے‘ اور 6 اگست سے شروع ہونے والی ہلکی پھلکی موسیقی بالآخر پکے راگوں میں تبدیل ہو گی۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ نون کو سب اچھا کی نوید سنانے والوں کے لیے یہ کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب نے دانائی کے ساتھ گرم پانیوں کا سفر طے کر لیا‘ اب راوی چین لکھتا ہے‘ انہیں ایک بار پھر اپنے موقف پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ 
سی پیک منصوبے پر امریکہ و بھارت کی مخالفت کم ہوئی نہ چینی قیادت مطمئن ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت کے مابین سردمہری کی اطلاعات سے چین خائف ہے اور وہ نگرانی کا پائیدار نظام چاہتا ہے۔ رینجرز کے ساتھ سندھ حکومت نے دو ہفتے تک چوہے بلی کا جو کھیل کھیلا اور وفاقی حکومت نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا‘ وہ سنجیدہ حلقوں کے لیے پریشان کن ہے جبکہ پچیس جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں کراچی اور سندھ کی طرح پنجاب میں بھی رینجرز آپریشن کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ جو بجائے خود غور طلب ہے۔ یہ نکتہ پیپلز پارٹی کی خواہش پر اعلامیہ کا حصہ بنا‘ یا کوئی اور معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں‘ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے؟ یہ باسی کڑھی میں اُبال ہے یا عمران خان‘ بلاول بھٹو اور طاہرالقادری واقعی سنجیدہ ہیں؟ اگلے چند دنوں میں معاملات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ آزاد کشمیر الیکشن کے بعد میاں صاحب کے اعتماد میں اضافہ ہوا مگر پاناما سکینڈل اور سانحہ ماڈل ٹائون سے شریف برادران کی جان ابھی چھوٹی نہیں‘ میاں صاحب اپنے طرز حکمرانی پر نظرثانی کے لیے تیار ہیں نہ پاناما سکینڈل کی شفاف تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے ٹی او آرز قبول کرنے پر راضی۔ یوں معاملات سلجھنے میں نہیں آ رہے۔ شیخ رشید کی پیش گوئیوں کو رکھیے ایک طرف‘ ساون بھادوں کے موسم کی طرح اگست ستمبر کے مہینے کا بھی اعتبار نہیں۔ کب بادل بن برسے گزر جائیں اور کب جل تھل ایک کر دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں