زندگی پہلے

روزنامہ ''دنیا‘‘ کے مستقل قاری رئوف بٹ صاحب نے ای میل کے ذریعے اپنی علالت اور ہسپتال میں طبی عملے کی خوش اخلاقی ‘ فرض شناسی اور انسانی ہمدردی کا واقعہ لکھا جو ان کے ساتھ پیش آیا۔ رئوف بٹ سینے میں سخت تکلیف محسوس ہونے پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ نیویارک کے سرکاری ہسپتال پہنچے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا بیڈ پر لٹانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون نے ان کی فائل تیار کرتے ہوئے ہیلتھ انشورنس کارڈ طلب کیا جو سرکاری طور پر جاری ہوتا ہے۔ رئوف بٹ کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ ہیلتھ انشورنس کارڈکے حامل نہیں تو منہ بنائے بغیر خاتون نے کہا
Don't Worry Life Comes First
یہ کہہ کر خاتون نے باقی کوائف مکمل کیے اور کسی تاخیر کے بغیر ان کا علاج معالجہ شروع ہو گیا۔
چند روز کراچی میں دو فوجی اہلکاروں کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ دونوں شہید اہلکاروں کی نعشیں ہسپتال لائی گئیں اور اندراج مقدمہ کا وقت آیا تو دو تھانوں کے درمیان حدود کے تعین پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ ہر تھانے کے افسروں کی خواہش تھی کہ جائے وقوعہ کو دوسرے تھانے کی حدود کا حصہ قرار دے کر جان چھڑا لی جائے لاہور میںچند سال پیشترایک طالب علم رہنما پر فائرنگ ہوئی‘ یہ واقعہ ایک معروف ہسپتال کے قریب پیش آیا انہیں بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا مگر ابتدائی رپورٹ کے اندراج کے لیے پولیس اہلکار موجود نہ تھا۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے قانونی کارروائی کے بغیر طالب علم رہنما کو ابتدائی طبی امداد دینے سے انکار کر دیا۔ زیادہ خون بہہ جانے سے طالب علم جاں بحق ہو گیا۔ اس طرح کے مسلسل واقعات کے بعد حکومت نے اگرچہ قانونی کارروائی کے بغیر ابتدائی طبی امداد کی اجازت دے دی مگر اب تک ؎
وہی ہے چال بے ڈھنگی 
جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
طبی عملہ اپنی جگہ سچا ہے کہ اس طرح کے معاملات قانونی پیچیدگی اختیار کر لیں تو ان کی شامت آ جاتی ہے لہٰذا وہ ڈرتے ہیں۔ یہ واقعات تو اب روز مرہ کا معمول ہیں کہ کسی ہسپتال میں آدمی فوت ہو گیا‘ علاج معالجے اور رہائش و ادویات کی مد میں لاکھوں روپے کی پیشگی ادائیگی کرنے والے پریشان اور غمزدہ ورثاء نے ایمبولینس منگوا کر مریض کو لے جانا چاہا مگر بقایا جات کی ادائیگی کے بغیر انتظامیہ نے لاش کو ہاتھ نہیں لگانے دیااور پہلے حساب فہمی کا مطالبہ کیا۔
رئوف بٹ کے تجربے اور پاکستان کے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کے رویے میں بنیادی فرق سوچ کا ہے۔ صرف امریکہ نہیں‘ کم و بیش تمام ترقی یافتہ ممالک میں انسان کو اشرف المخلوقات اور انسانی جان کو گراں قدر سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اصل اہمیت پیسے کی ہے۔ جن ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کو داخلہ نہیں ملتا اور وہ شیخوپورہ کی ریشماں بی بی یا ڈیرہ غازی خاں کے خادم حسین کی اہلیہ کی طرح دروازے پر پیدائش کے عمل سے گزرتی ہیں وہاں کسی دولت مند کی بیوی‘ بہو‘ بیٹی کو اس تجربے سے کبھی نہیں گزرنا پڑتا۔ ان کی خدمت ‘ عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے کیونکہ اس کی نقد جزا ملنے کی امید ہوتی ہے۔ یہ دولت مند خواہ منشیات فروش ہو‘ سمگلر یا اغوا کار‘ دولت مند اگر با اختیار ہو تو سونے پر سہاگہ۔ جن دنوں مسلم معاشرے میں انسان کو انسان اور اس کی جان کو قیمتی سمجھا جاتا تھا‘ مریضوں سے معالجوں کا سلوک کریمانہ اور شریفانہ ہوتا تھا اور علاج معالجہ مرض کی نوعیت کے مطابق کیا جاتا‘ مریض کی معاشرے میں اہمیت کے حوالے سے نہیں ۔ ظالمانہ سماجی تفریق کے شکار جس معاشرے میں انصاف سائل کی مالی‘ سماجی اور سیاسی حیثیت دیکھ کر ملتا ہو‘ دہشت گردوں اور مجرموں کی آمدورفت پر نظر رکھنے کے لیے قائم پولیس ناکوں پر بھی گاڑی کے ماڈل اور نمبر پلیٹ کی روشنی میں چیکنگ کرنے کا رواج ہو‘ تھانوں میں شرفاء سے بدسلوکی اور بدمعاشوں کی خدمت تواضع کا چلن عام ہو‘ دولت اور طاقت کے سامنے آئین‘ قانون‘ اخلاقیات اور قومی مفاد سربسجود ہوں وہاں ہسپتالوں میں غیر سفارشی مریضوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو ہو رہا ہے اور جس پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں۔
نعرے اور دعوے اپنی جگہ مگر ہماری حکمران اشرافیہ کے اہداف ‘ مقاصد اور ترجیحات میں عام شہری شامل ہی نہیں۔ لاہور‘ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں واقع سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار اس کا منہ بولتا ۔ثبوت ہے۔ چھوٹے شہروں قصبات اور دیہی علاقوں میں صورتحال کہیں زیادہ بدتر ہے۔ہر زمیندار ‘ وڈیرہ اور منتخب عوامی نمائندہ اپنے آپ کو طبی مراکز میں گائے بھینس باندھنے کا حقدار سمجھتا ہے۔ ادویات کی خریداری میں جو گھپلے ہوتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں اور ڈاکٹروں کو نجی پریکٹس سے فرصت کم ملتی ہے۔ چند ماہ قبل سابق صدر آصف علی زرداری کے ایک عزیز کا نام میڈیا میں گونجا تھا جو سیلاب متاثرین کے علاج معالجے کے لیے ملنے والی ایمبولینسیں ویگن کے طور پر کرائے پر چلاتا رہا۔ اسی بنا پر پاکستان دنیا کے ان چند پسماندہ ممالک میں شامل ہے جہاں ملیریا‘ ٹی بی‘ اور پولیو جیسے امراض اب تک موجود ہیں ورنہ پوری دنیا میں ان کا خاتمہ ہو چکا۔
قائد اعظم زیارت میں زیر علاج تھے اور ٹی بی کا مرض آخری حدوں کو چھو رہا تھا‘ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش اور دیگر معالجوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد طے کیا کہ بابائے قوم کو علاج کے لیے بیرون ملک لے جایا جائے مگر آپ نے انکار کر دیا۔ یہ بات بھی نہیں مانی کہ انگلینڈ سے کوئی ماہر ڈاکٹر بلا لیا جائے۔ قائد کا کہنا تھا کہ انہیں مقامی معالجوں پر اعتبار ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ہر سرکاری عہدیدار جب چاہے منہ اٹھائے بیرون ملک چیک اپ کے لیے جا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جس ملک کو آپ نے ترکی‘ ملائشیا اور فرانس بنانے کا دعویٰ کیا ‘ووٹ بٹورے اور اقتدار حاصل کیا‘ برس ہا برس سے یہاں کسی نہ کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہیں اور قوم کے خون پسینے کی کمائی سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ وہاں اپنے پُر فریب وعدوں‘ بلند بانگ دعووں کے مطابق عوام کو فراہم کی گئی طبی سہولتوں اور اعلیٰ معیار کے ہسپتالوں سے اپنا چیک اپ کرانا پسند کیوں نہیں؟۔ جن اداروں اور شعبوں پر قومی خزانے سے اربوں ڈالر خرچ کرنے کا دعویٰ سن کر عوام کے کان پک گئے‘ وہاں آپ نے اپنا اور اہل خانہ کا داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ اربوں ڈالر طبی سہولتوں نہیں‘ بلکہ حکمرانوں‘ چہیتے ارکان اسمبلی اور تابعدار سرکاری افسروں کی حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھ چکے۔ اگر یہ ہسپتال واقعی اعلیٰ معیار کے ہوں تو ہمارے ندیدے شرفا کسی غریب کے بچے کو ان میں گھسنے نہ دیں‘ اپنے‘ خاندان اور عزیز و اقارب کی طبی ضرورتیں پوری کریں‘ پھر کسی دوسرے کی باری آئے۔
جس ملک میں گڈ گورننس ‘ کی طرف فوج کی اعلیٰ قیادت کو توجہ دلانی پڑے اور حکمران تڑپ اٹھیں‘ سندھ حکومت قتل و غارت‘ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے اپنی ہی بلائی ہوئی رینجرز کو اختیارات دینے پر آمادہ نہ ہو اور وفاق گیدڑ بھبکیوں کے بعد بالآخر صوبائی حکومت کی بچگانہ ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دے‘ وہاں ایسے ہسپتالوں اور وہاں تعینات عملے کا تصور محال ہے، جہاں مریض کے لواحقین کو Don't Worry Life Comes Firstکہہ کر فکر سے آزاد کر دیا جائے‘ پولیس رپورٹ کے بغیر زخمی کا علاج ہو اور معقول رقم جمع کرائے بغیر کسی جان ہارتے مریض کا علاج شروع ہو سکے۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ہم زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں مگر کسی کو احساس زیاں ہے‘ نہ اصلاح احوال کی فکر۔ بس چرب زبانی اور تشہیری اقدامات سے سیاہ کو سفید اور رات کو دن ثابت کیا جا رہا ہے اور ''باشعور عوام‘‘ بھی اس پر ایمان لا چکے ہیں‘ کس کی یہ جرأت کہ حکمران اشرافیہ سے پوچھ سکے ؎
تمہارے سینے میں دل تو ہو گا‘ جو ہو سکے تو اسی سے پوچھو
کہ تم نے جو قوم سے کیا ہے وہ ناروا نہیں ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں