مشرف کے ساتھی

یہ بزدلانہ کارروائی نہیں‘ کاری وار ہے جو دُشمن نے کوئٹہ کے ہسپتال میں نہتے وکیلوں‘ صحافیوں اور عام شہریوں پر کیا۔ ہمارے حکمران اور سیاست دان دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ہولناک واقعات کو بزدلانہ اقدام قرار دے کر عوام کے حوصلے بلند رکھنا چاہتے ہیں مگر ان بیانات سے دشمن کا عزم کمزور پڑتا ہے نہ متاثرین کے زخم مندمل ہوتے ہیں۔ شہیدوں کے ورثا اور زخمیوں سے پوچھئے کہ وہ اسے کیا نام دیتے ہیں۔ 
آپریشن ضرب عضب کو دو سال مکمل ہو گئے‘ کراچی اور بلوچستان میں آپریشن‘ ضرب عضب سے پہلے شروع ہوا مگر ابھی تک منطقی انجام کو شمالی وزیرستان کا آپریشن پہنچا نہ کراچی اور نہ بلوچستان کا۔ پاک فوج‘ رینجرز اور ایف سی کے علاوہ دیگر اداروں نے جرأت و شجاعت اور ایثار و قربانی کی داستان رقم کی اور ہر جگہ دہشت گردوں کے پائوں اکھاڑ دیئے‘ مگر آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے منتخب حکومتوں اور سول اداروں کی طرف سے یکسوئی‘ پشت پناہی اور صلاحیت کار میں اضافے کی خواہش پوری ہونی تھی نہ ہوئی۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں مگر ہر سُو‘ ہر جا زمانۂ امن کی آپا دھاپی ہے‘ سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی کا دور دورہ ہے اور لوٹ مار کا کلچر ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا تو ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی‘ سارے وسائل دہشت گردوں کے ساتھیوں اور سہولت کاروں کی تلاش اور ممکنہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے وقف کر دیئے گئے‘ مگر ہمارے ہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ باوردی اداروں کی ذمہ داری سمجھ کر ہمارے سول ادارے اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ہر ہولناک واقعہ کے بعد کچھ اعلانات ہوئے‘ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے رسمی اقدامات اور پھر اگلے واقعہ کا انتظار ۔
مارچ میں کوئٹہ جانا ہوا تو حالات پُرسکون تھے۔ میں نے مجاہد بریلوی صاحب اور راحت ملک کے ہمراہ رات دس بجے کوئٹہ سے نکل کر کچلاک کے ایک ہوٹل میں کھانا کھایا‘ ایک بجے واپسی ہوئی۔ امن و امان کی اس بہتر صورتحال کو مگر دائمی امن کی ضمانت قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔ کل بھوشن یادیو نیٹ ورک کے منظر عام پر آنے سے پورے صوبے بلکہ ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کی ضرورت کئی گنا بڑھ گئی۔ مالی وسائل‘ عسکری قوت‘ تخریب کارانہ صلاحیت اور ناراض عناصر کو استعمال کرنے کے تجربے میں ہم سے کئی زیادہ اہلیت رکھنے والا بھارت کل بھوشن نیٹ ورک کا سراغ لگنے پر کس قدر سٹپٹایا اور جوابی وار کے لیے کتناب مضطرب ہو گا؟ ہر 
شخص کو معلوم تھا ‘مگر پورے ملک تو کجا بلوچستان اور کوئٹہ میں بھی غیر معمولی اقدامات نظر نہ آئے۔ چند دن تک شور ضرور مچا اور وہ بھی عسکری اداروں اور میڈیا نے مچایا‘ میر ثناء اللہ خان زہری کی صوبائی حکومت اُن کی ہمنوا تھی مگر وفاقی سطح پر چوہدری نثار علی خان کے سوا سب شانت نظر آئے۔ سارک کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان کی تقریر کے دوران بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ کی واک آئوٹ کے انداز میں وطن واپسی سے بھی ہم بیدار نہ ہوئے اور بھارتی غیظ و غضب کا اندازہ نہ کر سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام سڑکوں پر آئے اور برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تو بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی اور داخلی طور پر منظم ہونے والی حق خودارادیت کی جدوجہد پر بھی دراندازی کا لیبل لگانے کی کوشش کی مگر ایک حاضر سروس بھارتی فوجی کل بھوشن یادیو کی بلوچستان میں رنگے ہاتھوں گرفتاری پر ہمارے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا اور یہ کھسر پھسر ہونے لگی کہ ہمارے عسکری اداروں نے ایرانی صدر روحانی کا دورہ ناکام بنانے کے لیے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑا۔
دہشت گردی کا خاتمہ ترجیح اوّل ہوتی تو کم از کم دو 
سال کے لیے سارے قومی وسائل اس جنگ میں جھونک کر شمالی وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان کے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا۔ پولیس اور دیگر اداروں کی صلاحیت کار بڑھانے کی سعی ہوتی۔ جب سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے تب سے آغاز ہوتا تو ملک میں نئی معیاری اور چاک و چوبند پولیس فورس کھڑی کی جا سکتی تھی جو مقابلہ کرتی۔ موجودہ فورس اس قابل ہے نہ اس کی قابلیت میں اضافہ کیا گیا۔ کومبنگ آپریشن میں تمام ادارے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد کرتے اور عوام کو چوبیس گھنٹے الرٹ رکھا جاتا۔ بی ایل اے‘ بی ایل ایف‘ ٹی ٹی پی‘ لشکر جھنگوی اور کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا قلع قمع کرنے میں مصروف اداروں کی سیاسی پشت پناہی ہوتی اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں سے ہمدردی رکھنے‘ برتنے والوں سے ہر جگہ وہی سلوک کیا جاتا جس کے وہ حقدار تھے مگر وفاقی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست بجلی کے بحران کا خاتمہ ہے اور صوبائی حکومتوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کا اجراء اور زیادہ سے زیادہ خوردبرد‘ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ سیاست ریاست پر حاوی ہے اور جتنا غصہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے سیاسی مخالفین پر ہے اتنا دہشت گردوں پر نہیں۔ گزشتہ روز اڑھائی سال بعد مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کو شرف باریابی ملا تو وزیراعظم 
فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف پر خوب گرجے برسے اور کہا : ''مشرف کے باقی سارے لوگ کہاں ہیں‘ ان کو بلوائیں اور پارلیمنٹ میں کھڑا کر کے پوچھیں‘ آپ نے نو سال میں پاکستان کی اتنی بربادی کیوں کی؟‘‘ ایک سر پھرے ممبر اسد الرحمان نے شکوہ و شکایت کے لیے زبان کھولی مگر جنرل پرویز مشرف اور اس کے ساتھیوں سے غَضّ بصر کیا‘ یہ بھی نہیں پوچھا بادشاہ سلامت ! جنرل پرویز مشرف کو بغرض علاج بیرون ملک بھیج کر اس کے ساتھیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بات کچھ جچی نہیں۔ ویسے بھی ان میں سے اکثر آپ کے دائیں بائیں اور سامنے بیٹھے ہیں‘ باز پُرس کے لیے پارلیمنٹ یا کوتوال شہر کے سپرد کیجئے۔ انجینئر امیرمقام‘ زاہد حامد‘ سکندر بوسن‘ شیخ وقاص اکرم‘ دانیال عزیز‘ ماروی میمن‘ طلال چوہدری‘ اویس لغاری‘ ریاض پیرزادہ‘ عبدالقادر بلوچ‘ ہارون اختر اور کئی دیگر ملک کی بربادی کا قصہ اور اپنا حصہ بیان کریں‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ لیکن سب جانتے تھے کہ وزیراعظم کے کہنے کا کوئی خاص مطلب ہے نہ ہمارے بات کرنے کا فائدہ؟ حکمرانوں کو پانی میں مدھانی چلانے کی عادت ہے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ...
المیّہ صرف یہ نہیں کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سرفہرست نہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ وہ قوم کو احساس تحفظ سے سرشار کرنے کے لیے نہیں چاہتے بلکہ مقصد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ اشرافیہ کی عیش و عشرت اور لوٹ مار کے لیے وسائل دستیاب ہوں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کل بھوشن یادیو نیٹ ورک پکڑا جائے‘ جابجا بم دھماکے ہوتے رہیں اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ خان زہری کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید بھارت کے ملوث ہونے کا واویلا کرتے رہیں مگر بھارت سے کھل کر بات ہو ‘نہ سال دو سال کے لیے ترقیاتی منصوبے منجمد کر کے وسائل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختص کئے جائیں اور نہ حکومت و اپوزیشن ایک میز پر بیٹھ کر کوئی مشترکہ ایجنڈا ترتیب دیں۔ نیشنل ایکشن پلان بدستور تشنئہ تکمیل ہے اور وفاق و صوبوں میں سیاسی دھما چوکڑی مچی ہے۔ اندرون ملک جتنی سوچ بچار اور منصوبہ بندی عمران خان اور طاہر القادری کا مکّو ٹھپنے کے لیے ہو رہی ہے اتنی بھارتی ایجنٹوں سے نمٹنے کے لیے نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ''پاکستان سے رشتہ کیا‘ لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کر کے کشمیری عوام نے جارح اور قابض بھارتی فوج کے خلاف پُرامن جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا تو ہم بھول گئے کہ بھارت اس کا جواب ہمیں کراچی اور بلوچستان میں دے گا تاکہ عالمی برادری کو باور کرا سکے کہ سرینگر‘ کراچی اور کوئٹہ کو ایک جیسی شورش کا سامنا ہے۔ پاکستان میں بھارتی شردھالوئوں کو منفی پروپیگنڈے کے لیے مواد بھی تو چاہیے‘ دُشمن نے کوئٹہ میں کاری وار کیا ‘ جسے بزدلانہ کارروائی کا نام دے کر ہم اور ہمارے ارباب اقتدار بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔بھارت پر ایسا ہی کاری وار‘ سنجیدہ اقدامات اور غیر معمولی یکسوئی جناب والا‘ یہ جنگ ہے مذاق نہیں۔ شہیدوں کے ورثا اور مجروحین کے زخم صرف اسی طرح مندمل ہوں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں