زُود فراموش

سانحہ کوئٹہ کی بنا پر پنجاب حکومت نے یوم آزادی کی تقریبات سادگی سے منانے کا اعلان کیا ہے۔ تقریبات اب چار دیواری میں ہوں گی۔
ہم جلد باز‘ زُود رنج اور زُود فراموش لوگ ہیں۔ جلد بازی تو انسان کی سرشت میں ہے مگر معمولی باتوں پر بھڑک اٹھنا اور پھر لمبی تان کر سو جانا کوئی ہم سے سیکھے۔ دو سال سے کوئٹہ اور بلوچستان کے طول و عرض میں اگست کا مہینہ آزادی کی تقریبات کے لیے وقف ہے۔ لاہور اور اسلام آباد سے زیادہ کوئٹہ میں 14اگست کے دن جوش و جذبہ نظر آتا ہے۔ یہ وہی بلوچستان ہے جہاں تین چار سال قبل سرکاری عمارتوں پر پاکستان کا پرچم لہرانا اور سرکاری تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ دہرانا جرم تھا۔ کل بھوشن کی گرفتاری پر اسلام آباد کے سرکاری حلقوں میں سناٹا چھا گیا مگر بلوچستان میں بھارت کے خلاف جلوس نکلے‘ ترنگا جلا اور ''را‘‘ مرد ہ باد کے نعرے لگے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف فوری عوامی ردعمل کوئٹہ اور گوادر سے آیا‘ تب تک ہمارے حکمران جو اتفاق سے کشمیری نژاد ہیں ‘مودی کے موڈ کا اندازہ لگا رہے تھے۔
کراچی کی طرح پاکستان کے جس صوبے میں بھارت اور اس کے سرپرست امریکہ کی سرمایہ کاری بے حد و حساب ہے اور کل بھوشن کا قائم کردہ نیٹ ورک اور بی ایل اے و بی ایل ایف جیسی علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ باغی موجود‘ وہاں اگست کے مہینے میں پاکستانی پرچموں کی بہار اور کشمیری عوام سے یکجہتی بھلا کون برداشت کر سکتا تھا۔ پاکستان اور پاک فوج کے حق میں نعرے بازی تو ان سیاسی اور صحافتی بونوں کو ہضم نہیں ہوتی جنہیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے طفیل عزت وشہرت‘ اثر و رسوخ اور اعلیٰ مناصب سے نوازا ‘ پاکستان کے کھلے دشمن اور ملک کے سیاسی استحکام و معاشی خوشحالی میں مددگار اقتصادی راہداری کے مخالف کیسے برداشت کریں؟ ہم بلوچستان اور کراچی میں پچھلے سال یومِ پاکستان کی پرجوش‘ پرامن اور شاندار تقریبات منا کر انٹا غفیل ہو گئے اورفراموش کر دیا کہ دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ یہ تک نہ سوچا کہ کمینہ دشمن‘ کل بھوشن کی گرفتاری پر جلوس نکالنے‘ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے اور ہر سُو سبز ہلالی پرچم لہرانے پر اہل کوئٹہ سے ناخوش و بیزار ہے‘ اس کی برسوں کی ریاضت ‘ سرمایہ کاری اور پروپیگنڈا مہم رائیگاں چلی گئی اور آزاد بلوچستان کا خواب بکھر گیا۔ ضرب عضب کے ذریعے حاصل ہونے والی کامیابیاں پاکستان کو عراق ‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان کی صورت میں دیکھنے کے خواہش مند عالمی و علاقائی کھلاڑیوں کے لیے سوہان روح ہیں ۔یہ طویل جنگ ہے جس کے کئی رائونڈ ہوں گے اور ہر رائونڈ میں نئے طریقے‘ نئے گر آزمائے جائیں گے۔ اگر ہم ادراک نہ کر سکے‘ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے غفلت کی اور سول حکومتوں نے ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھا کر ٹھوس حکمت عملی تیار نہ کی تو قصور کس کا ؟زُود رنج و زُود فراموش قوم اور اس کی لیڈر شپ کا یا ہمارے دشمنوں کا؟
محمود خان اچکزئی کو جتنا غصہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ہے‘ اسٹیبلشمنٹ تو محض استعارہ ہے ‘ ہدف فوج اور اس کے ذیلی ادارے ہیں، اتنا ''را‘‘، این ڈی ایس اور بھارت پر نہیں۔ فوج آپریشن ضرب عضب میں پھنسی ہے‘ کراچی میں رینجرز اور بلوچستان میں ایف سی وہ فرائض انجام دے رہی 
ہے جو اصلاً پولیس اور سول انتظامیہ کے ذمے ہیں۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پہرہ دینے والی فوج‘ ملک کے کئی حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے؛ بھارت‘ افغانستان اور دیگر ممالک کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ اور پولیس و انتظامیہ کی کمزوریوں کوتاہیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے سول حکومتوں کی طرف سے تفویض کردہ فرائض کی ادائیگی بھی‘ پھر بھی مولانا فضل الرحمن ‘ مولانا محمد خان شیرانی اور محمود خان اچکزئی کو گلہ فوج اور آئی ایس آئی سے ہے‘ اپنے ممدوح وزیر اعظم اور ان کے انداز حکمرانی سے نہیں جو پارلیمنٹ میں تشریف لا کر قوم پر احسان کرتے‘ چھ ماہ بعد وفاقی کابینہ اور اڑھائی سال بعد مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کو درشن کراتے ہیں۔ اچکزئی دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعہ پرہرگز نہیں‘ بھارت کا نام لینے پر ناراض ہیں۔ اگر آرمی چیف‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر‘ بھارت کا نام نہ لیں تو ان میں سے کسی کی زبان پر حرف شکایت آئے گا نہ یہ غصے میں بائولے ہوں گے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اچکزئی کا نوٹس لیا مگر وزیر اعظم نے اچکزئی تو درکنار بھارت کے ذکر سے بھی گریز کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی بیس میں سے سولہ سترہ شقوں پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور نصاب میں ترامیم کا معاملہ ہنوز معرض التوا میں ہے۔ نیکٹا کو وسائل نہیں ملے اور کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی علاقوں سے فرار ہو کر ایران‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں پناہ لینے والوں کے حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کا طرز عمل مشکوک ہے ۔کومبنگ آپریشن میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں کو سیاستدانوں نے تحفظ فراہم کیا۔ قصور وار پھر بھی فوج اور انٹیلی جنس ادارے ع
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
قوم کو یہ بھی علم نہیں کہ بھارت ہمارا دوست ہے یا دشمن؟ فوج اور ایجنسیوں کو مزید کیا کرنا چاہیے؟ اچکزئی جیسوں سے پوچھو تو وہ سارا ملبہ دینی مدارس پر ڈالتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ تیرہ ہزار مدارس کی بندش کے بعد بیس پچیس لاکھ بچوں کو کن سکولوں میں داخل کرایا جائے گا اور ان کے تعلیمی اخراجات کون برداشت کرے گا؟ یا یہ عسکریت پسند تنظیموں کی ذمہ داری ہے؟ مولانا فضل الرحمن اس طرح کے کسی فیصلے کی مخالفت کریں گے یا حمایت؟
مولانا فضل الرحمن اور مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی میں من پسند نامزدگیوں میں تاخیر کی وجہ سے مضطرب ہیں‘ شاید میاں صاحب نے انہیں پٹی پڑھائی ہو کہ رکاوٹ کوئی اور ڈال رہا ہے مگر اچکزئی تو میاں صاحب کی شہ رگ کے قریب ہیں‘ کیا میاں صاحب ان کے ذریعے بندۂ خاکی کو کوئی خاص پیغام دے رہے ہیں؟ اپنے آپ‘ اچکزئی اس حد تک جانے والے نہیں۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے قائل ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں عیدالفطر کے کھلے اجتماعات ‘ جشن آزادی کی تقریبات‘ بلوچستان کے ہر طبقہ فکر کی ان تقریبات میں خوش دلانہ شرکت‘ سی پیک منصوبے میں نمایاں پیش رفت اور علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں تعطل سے بھارت بوکھلا چکا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں برپا تحریک آزدی سے وہ پریشان ہے۔ کوئٹہ بم دھماکہ سے اس نے اپنے تربیت یافتہ عناصر کے ذریعے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی‘ عوام کے حوصلوں کو پست اور جشن آزادی کی تقریبات میں شرکت سے روکنا بھی ان میں سے ہے۔پنجاب کے بعد مرکز اور دوسرے صوبے بھی یقینا حفاظتی نقطہ نظر سے تقریبات کو چار دیواری تک محدود کر دیں گے جو دشمن کی خواہش تھی۔ فوج و خفیہ ایجنسیوں کی کارگزاری پر سوال اٹھانے والوں کو منفی پروپیگنڈے کا موقع مل گیا۔ بھارتی فوج کے کشمیر میں مظالم کو بھول کر پاکستان کے نام نہاد اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدان‘ دانشور‘ صحافی‘ تجزیہ کار اور غم زدہ وکیل اپنے ہی محافظوں کو زبانی کلامی زدوکوب کرنے لگے۔ دشمن کو اور کیا چاہیے؟
جلد باز تو انسان ہے مگر ہم زُود رنج‘ زُود فراموش قوم ہیں۔دو سال میں فوج اور ایجنسیوں نے جو کیا‘ بلوچستان کیا‘ پاکستان کے عوام کو امن کا تحفہ دیا۔ وہ ایک حادثے کے بعد سب بھول گئے۔ برسوں کی ریاضت‘ منصوبہ بندی ‘اربوں ڈالر کا سرمایہ‘ مسلح تربیت اور جدید اسلحہ رائیگاں جانے کا غم و غصہ کب جنون و انتقام کے سانچے میں ڈھلا‘وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں یقیناسوچا گیا ہو گا اور یقین ہے کہ لفاظی کے بجائے عملی اقدامات سے دشمن کو جواب دیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان کی ہر شق پر عملدرآمد ‘ کومبنگ آپریشن ملک بھر میں بلا تفریق و بلا امتیاز ہو گا اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کار بچ نہیں پائیں گے ع 
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں