پراکسی وار

ارون دھتی رائے‘ مہاراجہ کرن سنگھ اور سلمان خورشید خواہ کُچھ کہتے رہیں‘ نریندر مودی کو کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے سے کوئی روک نہیں سکا۔ اُسے تنگ نظر اور انتہا پسند ہندوئوں نے مسلم دشمنی کی بنا پر ووٹ دیا اور وہ اگلے سال کے اوائل میں پنجاب‘ اُترپردیش‘ اُترکھنڈ اور منی پور کے انتخابات میں اپنی انتخابی حمایت کھونا نہیں چاہتے۔ صرف مودی کیوں؟ کانگریس اور دوسری جماعتوں کے علاوہ انسانی حقوق کا علمبردار بھارتی میڈیا بھی وزیراعظم کی پشت پر ہے اور اسے کشمیر میں بھوک اور پیاس سے بلکتے بچے نظر آتے ہیں نہ پیلٹ گن سے بینائی گنوانے والے نوجوان اور نہ کرفیو زدہ علاقوں میں محصور مریض مرد و خواتین۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر فوجی مظالم کے شکار مریضوں کو دیکھ دیکھ کر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ گھروں میں مائیں رو رو کر آنسو خشک کر بیٹھی ہیں اور گلیاں‘ بازار ویران‘ صرف قبرستان آباد ہیں۔
سیکولر بھارت کا چہرہ پیلٹ گن کے زخمیوںسے زیادہ داغدار ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد سے توجہ ہٹانے کے لیے دراندازی اور دہشت گردی کا راگ الاپنے والے بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی‘ ساکھ کہیں زیادہ مشکوک۔ بھارتی میڈیا جب برہان وانی شہید کے غمگساروں کے تانے بانے پاکستان سے ملاتا اور تحریک مزاحمت کو نظرانداز کر کے حافظ سعید اور مسعود اظہر کا ذکر چھیڑتا ہے تو انسانیت‘ آزادی اظہار اور انصاف سر پیٹنے لگتے ہیں۔ ارون دھتی رائے جیسی آٹے میں نمک کے برابر آوازیں پھر بھی غنیمت ہیں۔ بھارتی سیاست دان اور دانشور ابھی تک برصغیر کی تقسیم کو بھولے ہیں نہ پاکستان کے قیام کو اور نہ جموں و کشمیر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے اور سبز ہلالی پرچم لہرانے والوں کا گناہ معاف کیا ہے۔ جب پاکستان میں ایسے دانشور موجود ہیں جنہیں برہان مظفر وانی دہشت گرد نظر آتا ہے‘ جو پاکستانی حکومت اور فوج سے محض اسی بنا پر ناراض ہیں کہ ابھی تک اُس نے حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسے بھارت کے دشمنوں کو تختہ دار پر کیوں نہیں کھینچا‘ تو بھارتی میڈیا اور دانشوروں سے گلہ کس بات کا...
بھارت سرکار خون کی جو ہولی کھیل رہی ہے اس پر امریکہ جیسے مودی کے یار کو تشویش ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اسے بند کرنے کی اپیل کر چکے ہیں‘ مگر پاکستان میں ایک مخصوص ذہنیت اس ظلم و بربریت کا موازنہ بلوچستان سے کرتے ہرگز نہیں شرماتی۔ کبھی یہ سنگدل لوگ ''پراکسی وار‘‘ کے نتائج و عواقب سے ڈر کر دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور تخریب کاروں کے خلاف برسر پیکار پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے حوصلے پست کرتے ہیں کبھی سرینگر اور کابل میں ہونے والے واقعات کا نتیجہ قرار دے کر سانحہ کوئٹہ‘ گلشن اقبال پارک اور اے پی ایس پشاور کے زخمیوں اور شہدا کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی۔ ''پراکسی وار‘‘ کی اصطلاح جنگ عظیم دوئم کے بعد سرد جنگ کے زمانے میں متعارف ہوئی جب دو نیوکلیئر سپر پاور زنے سمجھ لیا کہ دونوں براہ راست جنگ میں اُلجھ کر ایٹمی جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔ پاکستان 1971ء میں دولخت ہوا تو یہ بھارت کی طرف سے مسلّط کی گئی پہلے پراکسی وار اور پھر براہ راست فوجی مداخلت کا نتیجہ تھا۔ بھارت اپنے کسی دوست ‘ دُشمن اور ہمسائے کو معاف نہیں کرتا اور پراکسی وار کے ذریعے اُسے اپنی طفیلی ریاست بنانے کے درپے رہتا ہے۔ سری لنکا‘ نیپال‘ حتیٰ کہ بنگلہ دیش اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں اور سینکڑوں میل دور افغانستان میں وہ اپنے اعلانیہ آٹھ اور غیر اعلانیہ چودہ سفارتی مراکز کے ذریعے نہ صرف افغان حدود میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ان سفارتی دفاتر سے سازشوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کوئی احمق ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ ہم اگر آئی ایس آئی کو بیرکوں میں بند کر دیں تو ''را‘‘ این ڈی ایس اور دیگر ایجنسیاں بوریا بستر لپیٹ کر واپس چلی جائیں گی اور ان کے ایجنٹ گلیوں‘ بازاروں میں بھیک مانگتے پھریں گے۔ 
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ میں برملا یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کو مشرقی پنجاب میں ریلیف دیا مگر جواباً کراچی میں قتل و غارت گری بڑھ گئی۔حالانکہ راجیو گاندھی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خالصتان میں امن کے عوض کراچی میں ''را‘‘ کو لگام دیں گے۔ پاکستان میں بھارتی ریشہ دوانیوں میں شدت 1988ء میں اس وقت آئی جب پاکستان نے مشرقی پنجاب کی خالصتان تحریک سے پیچھا چھڑا کر اپنے تئیں ''پراکسی وار‘‘ کو خیرباد کہا۔ پرویز مشرف نے امریکہ کے دبائو پر بھارت کے علاوہ افغانستان میں قیام امن کا ٹھیکہ بھی لے لیا اور امریکہ‘ بھارت‘ افغانستان سے نبردآزما گروہوں کو اپنا اور پاکستان کا مخالف بنا لیا۔ جس کے نتائج پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ بدلے میں پاکستان کو امن تو خیر کیا ملنا تھا امریکی سی آئی اے‘ بھارتی ''را‘‘ اور افغان این ڈی ایس نے غریب کی جورو سمجھ کر ملک کے طول و عرض میں اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔ بلیک واٹر اور کل بھوشن یادیو نیٹ ورک نے اسی دور میں اپنے پائوں پھیلائے اور قبائلی علاقوں‘ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی و بغاوت کو ہوا دی۔یہ پراکسی وار سے پیچھا چھڑانے اور ''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ کی پالیسی اپنانے کی سزا ہے۔ کون ضمانت دے سکتا ہے کہ ہم اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کریں گے تو دوسرے بھی اپنے مفادات سے دستبردار ہو جائیں گے‘ بالخصوص شترکینہ بھارت جو پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہے۔ بھارت کی برہمن قیادت کے مزاج شناس اقبالؒ تھے یا قائداعظمؒ۔ گاندھی کی چکنی چپڑی باتوں میں آئے نہ جواہر لعل نہرو کی چاپلوسی سے متاثر ہوئے۔ بھٹو ایک قوم پرست رہنما کے طور پر بھارتی عزائم کا ادراک رکھتے تھے‘ ایٹمی پروگرام کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ بھارتی قیادت طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور مفاہمت‘ مذاکرات‘ بھائی چارے کو ہمیشہ دوسرے کی کمزوری جان کر چڑھ دوڑتی ہے۔
1987ء میں راجیو گاندھی نے براس ٹیک مشقوں کے نام پر اصل گولہ بارود کے ساتھ بھارتی فوج کو پاکستان کی سرحدوں پر لاکھڑا کیا اور صاف نظر آنے لگا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی موجودگی کے سبب مسائل میں گھرا پاکستان کسی وقت بھی بھارتی جارحیت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے بھارتی فوج کی لمحہ بہ لمحہ پیش قدمی کو رپورٹ کیا تو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی جا پہنچے اور ائرپورٹ پر اپنے استقبال کے لیے آنے والے بھارتی وزیراعظم سے کہا : میں ایک فوجی کے طور پر جانتا ہوں کہ اصلی گولہ بارود کے ساتھ فوج کو کسی ملک کی سرحد کے قریب لے جانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ میری وطن واپسی سے قبل فوج کو واپسی کا حکم دیں ورنہ میں اسلام آباد جا کر ''فائر‘‘ کا لفظ بولوں گا اور سب کچھ بھسم ہو جائیگا۔ ضیاء الحق یہ کہہ کر طیارے کی طرف بڑھ گئے جبکہ راجیو گاندھی کا چہرہ عرق آلود اور ٹانگیں کانپنے لگیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک مزاحمت سے گھبرا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے وہ اپنی گماشتہ دہشت گرد‘ علیحدگی پسند تنظیموں کے ذریعے بلوچستان میں سرگرم عمل ہے ۔ نریندر مودی نے بلوچستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کر کے اپنے عزائم ظاہر کئے ہیں۔ ہماری مذاکرات کی دعوت پر اس کی رعونت پھر لوٹ آئی اور اس نے اپنی مرضی کے ایجنڈے پر مذاکرات کا عندیہ ظاہر کیا۔ بھارت کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ بھرپور سفارتی مہم اور داخلی اتحاد کے علاوہ بھارت میں اپنے جائز حقوق کے لیے سرگرم عمل تنظیموں اور اقوام کی حتیٰ المقدور امداد سے بھارت کا دماغ درست ہو سکتا ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے آخری حکمران ہری سنگھ کے جانشین اور نیشنل کانگریس کے رہنما کرن سنگھ نے نریندر مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کے دعوے کا مذاق اڑایا ہے اور اسے داخلی مسئلہ قرار دینے پر تنقید کی ہے۔ جبکہ نریندر مودی کی تائید صرف براہمداغ بگٹی نے کی یا افغانستان میں بعض گماشتہ عناصر نے جو بھارت کا کھاتے اور پاکستان پر غُراّتے ہیں۔ کشمیری عوام نے تن‘ من‘ دھن کی بازی لگا کر بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے ہم پھر بھی فائدہ نہ اٹھا سکیں تو بدنصیبی۔ جب تک بھارت کو ہم اندرونی طور پر نہیں الجھاتے کشمیر میں خون کی ہولی بند ہو سکتی ہے نہ پاکستان میں اس کے تنخواہ دار عناصر کی ریشہ دوانی۔ ہماری کمزوری بھارت کی طاقت ہے اور بھارت کی کمزوری ہماری قوت۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں